پاکستان پر 130ارب ڈالر قرضہ ہے تو پریشان نہ ہوں، اسحق ڈار۔
پریشان توان کو ہونا چاہیے جن ملکوں پر کوئی قرضہ نہیں ہے۔ جن پر قرض نہ ہو ان کو اتارنے کی بھی فکر نہیں ہوتی۔ زندگی میں کرنے کو کچھ نہ ہو تو وہ بھی کوئی زندگی ہے۔130ارب ڈالر قرض اتارنے کی فکر لگی رہتی ہے۔ سود کی ادائیگی کے لیے کئی اقدامات اٹھانا پڑتے ہیں۔ ادھار اتارنے کے لیے مزید ادھار لینے کی تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔مصروفیت ہی مصروفیت ہے۔ فارغ شخص وہموں اور وسوسوں میں گھرا رہتا ہے۔خانہ خالی دیومی گیرد۔ڈار صاحب وزارت خزانہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ اب ان کو اس سے بھی بڑا عہدہ ڈپٹی پرائم منسٹر کا دے دیا گیا ہے۔ ،مگر وزارت خزانہ چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ لگی ہوئی۔ اس حوالے سے مشورے اور تجاویز دیتے رہتے ہیں۔ 130ارب ڈالر قرض پر پریشان ہونے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ ملکی معیشت میں بڑی جان ہے، بڑی صلاحیت ہے۔ بلاشبہ یہ سچ ہے۔ اشرافیہ کی بڑی بڑی جائیدادیں معیشت کی اسی صلاحیت کی مرہون منت ہیں مگر عام آدمی نان جویں کو بھی ترستا ہے۔ ڈپٹی وزیر اعظم جو فل وزیر اعظم بننے سے ایک زینے کی دوری پر ہیں ، انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ مہنگائی30فیصد سے کم ہو کر10فیصد پر آگئی ہے۔ادارہ شماریات کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مہنگائی تین سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔سننے والے حیران اور پریشان بھی ہیں۔ ہاتھ کاٹ کر دیکھ رہے ہیں کہ یہ بیان وہ جاگتے میں پڑھ رہے ہیں یا سپنا دیکھ رہے ہیں۔سادہ سی بات ہے تین سال قبل اگست 2021ءسے پہلے اشیائے خوردونوش ،ضروریہ اور غیر ضروریہ کے نرخ کیا تھے اب کیا ہیں؟۔یکم اگست 2021ءکو پٹرول کی قیمت 119 روپے 80 پیسے مقرر کی گئی تھی۔ آج پٹرول 269 روپے لٹر ہے۔ باقی اشیاءکی قیمتیں بھی اسی تناسب سے بڑھ چکی ہیں۔اگر مہنگائی واقعی تین سال کی کم ترین سطح پر آ جائے تو حکومت سے عوام کو اور کیا چاہیے۔
خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
ایف بی آر کے چیئرمین کے لیے ناموں پر غور۔
امجد زبیر ٹوانہ نے چند ماہ بعد ریٹائر ہونا تھا۔ انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ عجب آزاد مرد ہے یا ساتھیوں کے ہاتھوں اتنا دکھی ہوا کہ نوکری سے دل اٹھ گیا۔ عموماً اعلیٰ عہدوں پر براجمان افسر ایکسٹنشن کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی کا تو دو دو تین بار ملازمت میں توسیع کراکے بھی دل نہیں بھرتا۔ٹوانہ کے بارے کہا جاتا ہے کہ محکمے میں کئی افسر، ان سے سینئر تھے۔ شاید وہ تعاون نہ کرتے ہوں تو انہوں نے سوچا اور کہہ دیا یہ پڑی ہے چیئرمین شپ۔ ان کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ وہ چلے گئے اب نئے چیئرمین کی تعیناتی ہوگی۔ بڑے افسران نے گھوڑے دوڑا دیئے ہونگے۔ عہدہ ایک ہے مقابلہ سخت۔ سفارشوں کی لائن لگی ہوگی۔ دیکھتے ہیں کون میرٹ پر آتا ہے۔ میرٹ پر وہی آئے گا جس کا تقررہو جائے گا۔ نیا تجربہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ہم سنتے رہتے ہیں فلاں وزیر ، مشیر نے تنخواہ نہ لینے کا اعلان کر دیا۔ ایسے عہدوں پر آنے والوں کو تنخواہ کی ضرورت ہی کیا ہوتی ہے۔ ایک صاحب کہتے تھے مجھے وزیر بنا دیا جائے میں دس لاکھ روپے ماہانہ قومی خزانے میں جمع کرا دیا کروں گا۔ ایف بی آر کے چیئرمین کی تعیناتی بولی کے ذریعے کیوں نہ کی جائے، بلکہ دیگر بڑے عہدے بھی اسی طرح پ±ر کئے جا سکتے ہیں۔ جن اداروں اور شعبوں کے سربراہ میرٹ پر لائے گئے ان کی قابلیت آسمان پر پہنچی ہوئی ہے وہ کونسا تیر مار رہے ہیں۔
”اگلے“ پندرہ دن میں گرینڈ الائنس بنائیں گے، اسد قیصر۔
پی ٹی آئی کے لیڈر اسد قیصر نے زور دے کر کہا کہ اگلے پندرہ روز میں گرنیڈ الائنس بنائیں گے۔ کچھ لوگ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ پچھلے پندرہ روز میں گرینڈ الائنس نہ بن جائے۔ ویسے چند پارٹیوں کابے نامی اتحاد حالیہ مہینوں پی ٹی آئی نے بنایا تھا جس میں محمود اچکزئی اور مینگل کی پارٹیاں بھی شامل تھیں۔ جماعت اسلامی نے بھی شروع میں ساتھ چلنے کے عہدو پیماں کئے مگر پھر اپنا الگ راستہ لے لیا۔ جماعت اسلامی پورے پانچ سال کے پی میں پی ٹی آئی کی اتحادی رہی۔سراج الحق صاحب وزیر خزانہ تھے۔2018ءمیں اس جماعت کو کسی اور جماعت کو ساتھ ملانے کی ضرورت نہ پڑی۔اس کے بعد سے یہ اب تک اقتدار سے باہر رہ کر تماشہ دیکھ رہی ہے۔ مہنگائی کے خلاف دھرنا جاری ہے۔ عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے گرمی و حبس میں لیڈر پسینہ بہا رہے ہیں۔ لوگ اس اقدام کو سراہتے ہیں مگر ووٹ اس جوش و خروش سے جماعت کو کیوں نہیں دیتے کہ تن تنہا مرکز اور صوبے میں حکومت بنا لے۔
2018ءکے الیکشن کے بعد تحریک انصاف نے کئی اتحادی جمع کر لئے۔ وہ گرینڈ الائنس ہی تھا مگر چار سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ گرینڈ الائنس ”ڈس بینڈ“ الائنس بن گیا۔ پندرہ دن بعد بننے والا الائنس سڑکوں پر نکلے گا۔ پی ٹی آئی کا یہ شوق پورا ہوتا نظر نہیں آرہا تکمیل شوق کے لیے جماعت اسلامی کے دھرنے میں شرکت کر لیں۔
منشیات فروشوں سے تصادم میں تھانیدار سمیت 3 اہلکاروں کی وردیاں پھٹ گئیں۔
یہ تصادم ایک چھاپے کے دوران ہوا۔پولیس کی طرف سے یہ چھاپہ کچے کے علاقے میں نہیں بلکہ لاہور کے قریب کے پکے کے علاقے میں مارا گیا۔پولیس چوکی کوٹ عبدالمالک کے قریب منشیات فروشی کے کئی برس پرانے اڈے پر چھاپہ مارنے پر منشیات فروش بپھر گئے۔خبر کے مطابق اڈا کئی برس سے چل رہا تھا تو کیا پولیس کو آج خبر ہوئی یا حصے بخرے کے تنازعہ نے جڑ پکڑ لی۔اڈے کی شروعات کے موقع پر خبر لے لی جاتی تو آج پولیس والوں کی وردیاں نہ پھٹتیں۔پولیس نے لیڈی منشیات فروش کو گرفتار کیاتو اس کے بیٹے سمیت 15 افراد نے پولیس پر حملہ کر کےاس کو چھڑوانے کی کوشش کی،اس پر لڑائی شروع ہو گئی۔شیر جوانوں نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر خوب مقابلہ کیا۔اپنی وردیوں پر کھیل گئے۔خاتون منشیات فروش کو چھڑانے کی کوشش ناکام بنا دی۔اسی خاتون سے موقع پرچرس بھی برآمد کی گئی۔ اگر منشیات فروشوں کی طرف سے پولیس کے ساتھ مطلوبہ تعاون نہ کیا گیا تو کلاشن کوف بھی ڈالی جا سکتی ہے۔پولیس کے ہر جگہ فعال مخبر ہوتے ہیں۔ویسے بھی پولیس اپنے ایریے کے چپے چپے سے واقف ہوتی ہے۔جرائم پیشہ عناصر کی طاقت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔اسی کے مطابق چھاپہ مارنے کے لیے تیاری کی جاتی ہے۔جہاں سے پولیس والے کٹ کھا کر اور وردیاں پھڑوا کرآ گئے۔کیا یہ مقابلے کے لیے ہی گئے تھے یا چائے شائے پینے ؟ مقابلے کے لیے جاتے تو بھاری نفری ساتھ لے کے جاتے۔چلیں جو بھی ہوا ان کیلئے اچھا ہوا۔ پکڑے جانے والوں کی شامت آگئی اور یہ شامت تا قیامت نہیں ہے۔ دو چار دن کی بات ہے۔پولیس والے اپنے ہیں پکڑے جانے والے بھی بیگانے نہیں ہیں۔یہ کوئی سیاست دان تو نہیں جن کے درمیان مصالحت نہ ہو سکے۔پرانا اڈا ہے پرانے واقف کار ہیں۔
ہفتہ ‘ 27 محرم الحرام 1446ھ ‘ 3 اگست 2024
Aug 03, 2024