معزز قارئین! 5 اگست 2020ءکو بھارتی وزیراعظم شری نریندر ، دامودر داس مودی نے بھارت کے صوبہ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام کے نام پر منسوب رام مندر کا سنگ ِ بنیاد رکھا تھا۔ بھارتی الیکٹرانک میڈیا کے مطابق مودی نے اِس سے پہلے رام کے بھگت ہنو مان کی ”مڑی / گڑھی“ پر ” ماتھا ٹیکا “ (سجدہ کِیا )۔ نئی نسل کو بتانا ضروری ہے کہ ” ہندو دیو مالا کے مطابق یہ سب” کردار “ (Characters) کون ہیں؟۔
ایودھیا کے راجکمار / (پھر راجا ) بھگوان رام ، وِشنو دیوتا کے اوتار تھے اور بندر کی شکل والے (بندر برادری کے سربراہ ہنو مان ) بھگوان رام کے بھگت ، جن کی بہت بڑی ”پونچھ “ ( Tail) تھی۔ رامائن کے مطابق جب رام اپنی سوتیلی ماں مہارانی کیکئی سے کئے گئے اپنے پِتا جی ( ایودھیا کے مہاراجا دشرتھ)کا وعدہ پورا کرنے کے لئے 14 سال کے لئے ”بن باس“ (جنگل میں رہائش پذیر ) تھے تو، اس دَور کے لنکا کے راجا راون نے رام جی کی پتنی ( اہلیہ ) سِیتا کو اغواءکرلِیا تھا اور کئی سال تک اپنے باغ میں رکھا تھا۔
رام کہانی کے مطابق ہنو مان (وانر، بانر، بندر) نے اپنے قبیلے ( بندروں کی فوج ) لے کر لنکا پر چڑھائی کردِی تھی اور اپنی ”پونچھ “ (دم) سے سارے لنکا میں آگ لگا دِی تھی، پھر رام ، راجا راون کو شکست دے کر سِیتا اور اپنے چھوٹے بھائی لکشمن کو ایک ” وِمان“ ( Viman) یعنی۔ ” اڑنے والے تخت ( یا اڑن کھٹولے ) پر بٹھا کر ایودھیا لے آئے تھے۔
”رام راج!“
معزز قارئین! ہندو دیو مالا اور ہندوﺅں کی تاریخ کے علاوہ مختلف تواریخ میں بھی راجا رام یا بھگوان رام کے راج کی تعریف کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ” راجا رام ، رات کو بھیس بدل کر ایودھیا میں گھومتے پھرتے تھے اور پھر مظلوموں کو اِنصاف اور ظالموں کو سزائیں دلواتے تھے۔ ایران کے بادشاہ نو شیرواں اور خلیفہ اِسلام دوم حضر ت عمر بن الخطاب کے بارے میں بھی ایسا ہی کہا جاتا ہے۔ جن دِنوں علاّمہ اقبال متحدہ ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کے علمبردار تھے تو، آپ نے ” رام“ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی جسے بہت سراہا گیا تھا۔ نظم کے تین شعر یوں ہیں ....
”ہے رام کے وجود پہ ہندو ستاں کو ناز!
اہلِ نظر سمجھتے ہیں، اس کو اِمام ہند!
اعجاز اس چراغِ ہدایت، کا ہے یہی!
روشن تر از سَحر ہے، زمانے میں، شامِ ہند!
تلوار کا دھنی تھا، شجاعت میں، فردتھا!
پاکیزگی میں، جوشِ محبت میں، فرد تھا!“
شارحِ اقبال، مولانا غلام رسول مہر نے اِن اشعار کی شرح یوں بیان کی ہے کہ ”-1 رام کے وجود پر ہندوستان کو ناز ہے۔ اہلِ نظر انہیں ہندوستان کا ”امام “ ( پیشوا) سمجھتے ہیں۔ -2 ہدایت و رہنمائی کے اِس چراغ کا معجزہ ہے کہ زمانے بھر میں ہندوستان کی شام صبح سے زیادہ روشن نظر آتی تھی۔ -3 رام تلوار کے دھنی تھے، بہادری میں بے مثال، پاکیزگی اور جوش محبت میں کوئی ان کا ثانی نہ تھا“۔
”گاندھی کا رام راج!“
معزز قارئین!۔ یاد رہے کہ ” راجا رام۔ کشتری “ (یعنی۔ راجپوت) تھے لیکن، انگریزوں سے آزادی کے لئے ہندوستان میں ” انڈین نیشنل کانگریس“ کے باپو جی بنیا قوم کے ( موہن داس کرم چند گاندھی ) رام راج کے علمبردار تھے۔ مولانا ابو الکلام آزاد۔ گاندھی کو اپنا حقیقی قائد تسلیم کرتے تھے جس پر گاندھی نے انہیں کئی بار ” انڈین نیشنل کانگریس“ کا صدر منتخب کرایا ، پھر کانگریسی سیاستدان بھی انہیں ” امام الہند “ کہتے رہے۔ تباہی و بربادی کے دیوتا ”شِوا “ (Shiva) کے پجاریوں کی دہشت گرد ہندو تنظیم ”راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ “ (R.S.S.S) کے ایک کارکن ناتھو رام ” گوڈسے“ نے 30 جنوری 1948ءکو دہلی میں گاندھی کو قتل کردِیا تھا۔
”خطبہ الہ آباد اور قائداعظم!“
1930ءکے خطبہ الہ آباد سے خطاب کے بعد ” مصّورِ پاکستان“ علاّمہ اقبال نے لندن میں مقیم بیرسٹر محمد علی جناح کو ہندوستان آ کر India" "Muslim کی قیادت سنبھالنے کی دعوت دِی ، پھر قائداعظم کی قیادت اور ” آل انڈیا مسلم لیگ“ کے پرچم تلے اِسلامیانِ ہند نے پاکستان حاصل کرلِیا۔ اِس پر مَیں نے قائداعظم کی عظمت بیان کرتے ہوئے ایک نظم لکھی تھی جس کے صِرف دو شعر پیش کر رہا ہوں ....
”نامِ محمد مصطفےٰ نامِ علی عالی مقام!
کِتنا بابرکت ہے ، حضرت قائداعظم کا نام؟
سامراجی مغ بچے بھی ، اور گاندھی کے سپوت!
ساتھ میں رسوا ہوئے، فتویٰ فروشوں کے اِمام!“
کشمیری خاندان کے براہمن زادہ پنڈت جواہر لعل نہرو ہندوستان کے پہلے وزیراعظم تھے لیکن، انہوں نے کشمیری مسلمانوں سے جو ظالمانہ سلوک کِیا ہی تھا لیکن، بنیا ذات سے تعلق رکھنے والے ”بانر، وانر، بندر “ (Warrender) شری ہنو مان کے داس اپنی پونچھ سے نہ جانے کیا کیا کریں گے؟۔ عربی زبان میں ” بنیا “ کو (بقّال) کہتے ہیں۔ 7 اکتوبر 1556ءمیں ہیمو بقّال نے ”مہاراجا بِکرما جیت“ کے نام سے ہندوستان کے تاج و تخت پر قبضہ کرلِیا تھا ، جسے 5 نومبر 1556ءکو مغل بادشاہ جلال الدّین اکبر نے اپنے اتالیق اور سپہ سالار بیرم خان کی ہدایت پر قتل کر کے اپنے اتالیق سے غازی کا خطاب حاصل کِیا تھا۔مجھے نہیں معلوم کہ ” دورِ حاضر کے ” مودی بقّال “ کا کیا حشر ہوگا؟۔