شاہی محل میں خادمائیں قطار اندر قطار حاضر رہتیں، خادم بھی ہمہ وقت مصروفِ خدمت ہوتے۔ ہر کوئی میرے اشارے اور ابروئے جنبش کا منتظر رہتا مگر اب۔۔۔؟ کہاں 60 غلام اور کہاں صرف 2 ملازم ہیں۔" انٹرویو دیتے ہوئے ایران کے آخری بادشاہ رضا شاہ پہلوی کی بیوہ اور سابقہ ملکہ فرح دیبا آنسو بہائے بنا نہ رہ سکیں۔ گلو گیر آواز میں بتایا، “ایک میرا ڈرائیو ہے اور ایک کھانا بنانے اور دیگر کاموں پر مامور ملازمہ ہے۔ وہ چھٹی پر جائے تو صفائی برتن اور کپڑے دھونے سمیت سارے کام مجھے کرنا پڑتے ہیں“۔
فرح دیبا پہلوی 1979ءکے ایک سرد دن 17 جنوری کو شاہِ ایران کے ساتھ ملک میں حالات کو نامساعد دیکھ کر ایران چھوڑ گئی تھیں۔ دونوں شروع میں دربدر، کبھی اسکے گھر کبھی اس کے در پھرتے رہے۔ جس ملک جاتے چند دن میں نکلنے کا حکم سنادیا جاتا۔ امریکا جو شاہ کا مربی و پشت پناہ تھا اس نے بھی پذیرائی نہ کی۔ کوئی بھی ملک ایران کی انقلابی حکومت سے مخالفت لینے بلکہ ٹکرانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ بادشاہت چھن چکی، سوئٹزر لینڈ میں بنک اکاو¿نٹ منجمد اور ضبط ہوچکے تھے۔ مصر کے انور السادات نے خدا ترسی دکھاتے ہوئے رضا شاہ پہلوی کو پناہ دی۔ شاہ کو خدا نے لمبی چوڑی آزمائش سے دوچار نہ کیا۔ دربدری کے دوسرے برس 1980ءمیں انتقال ہوگیا۔ بغیر امام کے چار گورکنوں نے جنازہ ادا کیا اور جہاں فوت ہوئے وہیں دفن کر دیا۔
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہو
فرح امریکا منتقل ہو گئیں۔ وہ کئی برس سے امریکا میں مقیم ہیں۔ اب انھیں عسرت کے ساتھ بڑھاپے کا بھی سامنا ہے۔ جلا وطنی میں کئی برس وہ پر تعیش زندگی گزارنے کے لیے زیورات فروخت کرتی رہیں جو ایران سے ساتھ لائی تھیں مگر زیورات کاایک خزانہ وہیں ایران میں رہ گیا تھا۔ ملکہ اور شاہ اپنے ساتھ وہ زیورات لے جانا چاہتے تھے جو انھوں نے تاجپوشی کے دن پہنے تھے۔ انھوں نے رائل گارڈز کو کئی بار تجوری سے زیورات لانے کے لیے بھیجا۔ شاہی تجوری حفاظتی اقدامات کے تحت زمین سے 20 میٹر نیچے نصب کرائی گئی تھی۔ بینک کے اہلکار جو تجوری کھولنا جانتے تھے غائب ہو گئے تھے۔ ان جواہرات کو 500 ارب ڈالر میں بیمہ کرایا گیا تھا۔
فرح دیبا زندگی اور جوانی کے 24 سال دولت سے مالا مال ملک کی خاتون اول رہیں۔ جن کا کہا حرفِ آخر ہوتا۔ ان کے اشارہ ابرو سے دنیا اِدھر سے ادھر ہو جایا کرتی تھی۔ سیاہ و سفید کے مالک ان کے خاوند نے ایک روز ایرانی شہنشاہیت کا اڑھائی ہزار سالہ جشن منانے کا فیصلہ کیا۔ محلاتی ماہرین نے تاریخ کھنگالی تو معلوم ہوا ایران کی بادشاہت کو ایک ہزار چار سو پندرہ سال ہوئے ہیں تو شہنشاہ نے کیلنڈر ایک ہزار اور 35سال آگے کرنے کا حکم دیدیا اور کیلنڈر آگے کر دیا گیا۔
ڈاکٹر صفدر محمود رقم طراز ہیں: کبھی شاہ ایران کا طوطی سارے جہاں میں بولتا تھا اور لوگ اس کے جابرانہ نظام حکومت کے بارے میں بات کرتے ہوئے خوفزدہ رہتے تھے کہ کہیں کوئی ساوک کا ایجنٹ سن نہ لے۔ ساوک کے ظلم و ستم کی داستانیں زبان زدِ عام تھیں۔ ساوک نے اس طرح کے بجلی کے تنور لگا رکھے تھے جہاں مخالفین کو پھینک دیا جاتا تو نیچے فقط ان کے جسم کی راکھ ہی گرتی تھی۔ شاہ ایران کو یقین تھا کہ وہ زندگی کی آخری سانس تک حکومت کرے گا چنانچہ اس نے خاندانی حکومت کا ڈھائی ہزار سالہ جشن منانے کے لیے دس سال منصوبہ بندی کی اور بے مثال جشن منانے کے لیے باقاعدہ ایک محکمہ قائم کردیا۔ ڈھائی ہزار سالہ جشن اکتوبر 1971ءمیں منایا گیا جس میں دنیا بھر کے بادشاہان، سربراہان مملکت اور وزرائے اعظم نے شرکت کی۔ مہمانوں کے لیے شامیانوں کا شہر بسایا گیا اور اس کا ٹھیکا ایک سوئس فرم کو دیا گیا تھا جس نے ان شامیانوں کے محلات کا ڈیزائن بنانے، ان میں بہترین سہولتیں فراہم کرنے اور شامیانوں میں طلائی دھاگے کا استعمال کرانے کے علاوہ فواروں اور رنگا رنگ درختوں کا انتظام کرنے میں دس سال صرف کردیے تھے۔ مرسڈیز کاریں بنانے والی کمپنی کو ایک ہی جیسی سرخ رنگ والی ڈھائی سو مرسڈیز لیموزین بنانے کا آرڈر دیا گیا تھا اور ان کاروں میں ہر وہ سہولت فراہم کی گئی تھی جس کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ ایرانی حکومت کے مطابق اس ڈھائی ہزار سالہ جشن پر 1971ءمیں دو سو ملین ڈالر خرچ ہوئے جو آج کے دور میں 200بلین ڈالر کے برابر ہوں گے۔
17 جنوری 1979ءکو شاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی مصر کے دورے کا کہہ کر ایران سے نکل گئے یکم فروری کو آیت اللہ خمینی فرانس سے ایران پہنچے۔ ان کے طیارے کا ایران میں کسی بھی وقت مار گرائے جانے کا خدشہ تھا۔ رضا شاہ پہلوی امور مملکت وزیراعظم شاہ پور بختیار کے حوالے کر کے گئے تھے۔ آیت اللہ خمینی کی آمد پر ملک میں کرفیو نافذ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ خمینی تک یہ خبر پہنچی تو انھوں نے ایک سادہ کاغذ پر صرف اتنا لکھا،”کرفیو کی پابندی نہ کی جائے۔“ اس پر لوگ ہجوم در ہجوم گروہ در گروہ سڑکوں پر کرفیو کی دھجیاں بکھیرتے نکل آئے۔ امام خمینی کی طرف سے مہدی بازرگان کو وزیراعظم نامزد کیا گیا۔
ایرانی فوج کے کئی جرنیل شاہ کے جبر، سفاکیت، بربریت اور ظلم کے ضابطوں میں برابر کے شریک تھے۔ جنرل غرابگی نے نو منتخب وزیر اعظم بزرگان سے ملاقات میں ان سے کہا کہ وہ اپنا نمائندہ بھیجیں تاکہ میں فوج کا کنٹرول ان کے حوالے کر سکوں۔ 11 فروری 1979ءکو جنرل غرابگی نے اعلان کیا کہ اب سے فوج سیاسی طور پر غیر جانبدار رہے گی۔ اس دن سے ہی سڑکوں پر انقلابیوں کا قبضہ ہوگیا۔ بختیار نے اپنا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا اور روپوش ہو گئے۔ اس دن کے بعد سے پرانی حکومت سے وابستہ کئی فوجی افسران کو گرفتار کر لیا گیا۔ ڈیسمنڈ ہارنی اپنی کتاب ’دی پریسٹ اینڈ دی کنگ‘ میں لکھتے ہیں: '12 فروری کی رات پہلے شاہ کے خاص الخاص اور خفیہ ایجنسی ساوک کے سربراہ نصیری کو مارا پیٹا گیا۔ پھر انھیں جنرل ربی، ناجی اور خولروداد کے ساتھ 15 فروری کی رات ایک سکول کی چھت پر گولی مار دی گئی۔ ایک ہفتہ قبل ہی آیت اللہ خمینی نے اس سکول کو اپنا ہیڈکوارٹر بنایا تھا۔ صادق خلخیلی کو جج مقرر کیا گیا۔ ان کو ہدایت تھی کہ ان لوگوں کی باتوں کو سنیں اور جہنم واصل کردیں۔
شاہ ایران: دیدہ عبرت نگاہ
Aug 03, 2024