گوادر میں بلوچ انتہا پسندوں کے حملے میں فوجی جوان کی شہادت بتلاتی ہے کہ احتجاج کی آڑ میں کوئی اور ہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔سیکیورٹی فورسز نے اشتعال انگیری کے باوجود انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا کیونکہ ہجوم کی جانب سے پاک فوج کے جوان کی شہادت پر اگر جوابی کارروائی کی جاتی تو اس کو پاک فوج کیخلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا جاتا۔ ترجمان پاک فوج نے بھی اس موقع پر اسی عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ سکیورٹی فورسز بلوچستان کا امن واستحکام سبوتاڑ کرنے کی کوششیں ناکام بنانے کیلئے پرعزم ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ پروپیگنڈے کا شکارنہ ہوں، پرسکون اور پرامن رہیں اور امن وامان برقرار رکھنے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں،سکیورٹی فورسز قوم کے ساتھ مل کربلوچستان کا امن واستحکام سبوتاڑ کرنے کی کوششیں ناکام بنانے کیلئے پرعزم ہیں، سوشل میڈیا پرجعلی تصاویراور ویڈیوز کا استعمال کرتے ہوئے بدنیتی پرمبنی پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، سوشل میڈیا پرغیرقانونی پرتشدد مارچ کیلئے ہمدردی اورحمایت حاصل کرنے کیلئے پروپیگنڈا کیا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے پہلے سے ہی ماہ رنگ بلوچ اور دہشت گردوں کے پر تشدد عزائم سے عوام کو آگاہ کر چکے ہیں ،حکومت کو فوری اِن شر پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنی چاہئے اور سول حکومتوں کو اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا چایئے کیونکہ فوج کو ہر معاملے میں گھسیٹنے کی کوشش ان بلوچ انتہا پسندوں کی جانب سے جان بوجھ کر کی جا رہی ہے تا کہ اگر فوج ان کیخلاف جوابی کارروائی کرے تو یہ دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے واویلا کر سکیں اور یقینا ان عناصر کے پیچھے بھارت اور ملک دشمن قوتوں کا ہاتھ ہے جو چاہتی ہیں کہ پاکستان کو ایک بار پھر دہشت گردی کا نشانہ بنایا جائے اور اسی مقصد کیلئے مودی ایک بار پھر پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کر رہا ہے۔اور بنوں ہو یا گوادر پاک فوج کیخلاف سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم بتاتی ہے کہ دشمن قوتیں سرگرم ہیں اور وہ ڈیجیٹیل دہشت گردی کی آڑ میں اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔ اب بلوچستان والے واقعہ کو ہی لے لیا جائے یہاں بنگلہ دیش کے احتجاج میں مارے جانے والوں کی تصاویر کو استعمال کر کے ملکی اداروں کو بدنام کیا جا رہا ہے اور یوں ظاہر کیا جا رہا ہے جیسے یہ سب پاکستان میں ہو رہا ہے اور یہ ڈیجیٹل دہشت گردی ہی کی ایک قسم ہے جس سے بچنا اور اس کا تدارک کرنا ہم سب کا فرض ہے۔
ادھر بانی پی ٹی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے پاک فوج کو مذاکرات کیلئے نمائندہ مقرر کرنے کا پیغام دیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ ہم فوج کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، فوج اپنا نمائندہ مقرر کرے، ہم مذاکرات کریں گے۔ فوج سے بات چیت کی خواہش کا اظہار بانی پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا اور کہا کہ گھر میں کوئی بگڑا ہوا بچہ ہو تو اس پر تنقید کی جاتی ہے،تنقید جمہوریت کا حسن ہے۔ جیل میں جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ کی حالیہ باتوں سے لگ رہا ہے کہ آپ فوج سے معاملات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ نے اسی فوج اور اسکے سربراہ پر الزامات عائد کیے؟۔ جس پر عمران خان نے کہا کہ میں نے فوج پر کبھی الزام نہیں لگائے صرف تنقید کی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت سے کیا مذاکرات کریں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) والے فارم 47 والے ہیں، حکومت پی ٹی ا?ئی اور فوج کی لڑائی کرانا چاہتی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ محمود اچکزئی پر پورا بھروسہ ہے، انہیں مذاکرات کا مینڈیٹ دیا، مذاکرات کے لئے پہلا مطالبہ چوری شدہ مینڈیٹ کی واپسی ہے، دوسرا مطالبہ کارکنان کی رہائی اور مقدمات کا خاتمہ ہے۔ سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات میں ہماری بے گناہی سی سی ٹی وی میں چھپی ہے، اگر 9 مئی میں پی ٹی ا?ئی کا کوئی بندہ ملوث ہے تو ضرور سزا دیں۔ میرے خیال میں بانی پی ٹی آئی کے اس بیان کے بعد پاک فوج کی جانب سے بھی مثبت اظہار ہونا چاہئے۔ پاک فوج چونکہ ملک کا درد رکھتی ہے اور ملک پر جب بھی مشکل آن پڑی ہے تو پاک فوج نے ہی ملک کو مشکلات سے نکالا ہے تو ایسے میں ایک مقبول لیڈر کی جانب سے اگر پاک فوج کے ساتھ بات چیت کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے تو اس کو مثبت ہی لیا جانا چاہیے۔اس وقتبسول حکومت کا بوجھ بھی پاک فوج کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ گوادر میں پاک فوج کا جوان شہید ہو گیا لیکن حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی موثر کارروائی نہیں ہو سکی، راولپنڈی میں جماعت اسلامی کا دھرنا عوام کی آواز بن چکا ہے۔دوسری جانب عمران خان کو بھی ایسے مشیروں سے جان چھڑانا ہو گی جو اداروں کے خلاف ان کے کان بھرتے ہیں۔ یہ امر واقع ہے کہ ملک ہے تو ہم ہیں، سیاست بھی ہے اور سیاسی پارٹیوں کا وجود بھی۔ اور اس ملک کی بقا اور ترقی ملک کی سیکیورٹی سے جڑی ہے کیوں کہ ہمارا ہمسایہ بھارت کبھی نہیں چاہتا کہ پاکستان میں امن ہو۔ جو ملک کرکٹ میں بھی ملک دشمنی کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرتا ہو تو اس سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے ہمسائے میں ترقی اور امن قائم ہونے دے گا۔