نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کے بڑھتے ہوئے مظالم پر وزیراعظم میاں شہبازشریف کی زیرصدارت حکومت اور اتحادی جماعتوں کے اسلام آباد میں منعقدہ مشاورتی اجلاس میں مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کی شہادت پر جمعة المبارک کے روز ملک بھر میں یوم سوگ منانے کے حکومتی فیصلہ سے آگاہ کیا گیا اور اس فیصلہ کی روشنی میں جمعتہ المبارک کو یومِ سوگ منایا گیا۔ اعلامیہ کے مطابق حکومتی اتحادی قیادتوں نے گزشتہ سال 7 اکتوبر سے غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت کو سفاکیت کے مترادف قرار دیا اور اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی مظالم پر اپنی خاموشی توڑے جو گزشتہ 9 ماہ سے غزہ میں انسانی خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی درندگی ترقی یافتہ ممالک کیلئے ایک چیلنج ہے‘ فلسطینیوں کی نسل کشی فی الفور روکی جائے اور اسرائیل کو جنگی جرائم پر کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ مشاورتی اجلاس میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے پارلیمنٹ میں قرارداد لانے اور غزہ میں فلسطینیوں کیلئے امدادی سامان کی ترسیل برقرار کھنے کا فیصلہ کیاگیا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے اسماعیل ہانیہ کو ایران میں شہید کرنے کے واقعہ کو خطہ کا امن و امان سبوتاژکرنے کی سازش قرار دیا اور کہا کہ فلسطین میں جاری اسرائیل کی ریاستی بربریت مسلم امہ کیلئے ایک المیہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین میں جاری نسل کشی اور ریاستی ظلم و بربریت سے اسرائیل اقوام متحدہ کی قراردادوں‘ عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں اور عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ اجلاس کے شرکاءنے کہا کہ پوری عالمی برادری کو مصلحتوں کے لبادے اتار کر اسرائیلی وحشت و بربریت کو روکنے کیلئے واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرنا ہوگا۔ وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا تھا کہ فلسطین میں گزشتہ 9 ماہ کے دوران خون کی ہولی کھیلتے ہوئے ہزاروں بچوں سمیت 40 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ ایسے دلخراش مناظر اور واقعات انسانی تاریخ میں شاید ہی کسی نے دیکھے ہونگے۔ انکے بقول بین الاقوامی قوانین کو پاﺅں تلے روندا گیا اور اسماعیل ہانیہ کے بچے اور پوتوں پوتیوں کو بھی شہید کیا گیا۔ اس طرح کی سفاکیت دیکھتی آنکھ سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔
اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ اسرائیل نے امریکی سرپرستی میں اور اسکی جنگی‘ حربی سامان کی معاونت کے ساتھ ہی گزشتہ 10 ماہ سے زائد عرصہ سے غزہ کو اپنی وحشت و بربریت کے نشانے پر رکھا ہوا ہے جو شرف انسانیت سے عاری ہو کر فلسطینی بچوں‘ خواتین اور بزرگوں سمیت وہاں موجود ہر مسلمان کا سفاکی کے ساتھ خون بہاتے ہوئے اپنی آتش انتقام بھڑکاتا جا رہا ہے جس کے ہاتھوں غزہ کا پورا علاقہ کھنڈر بن چکا ہے اور ہسپتالوں‘ کمیونٹی سنٹرز‘ درس گاہوں اور رہائشی آبادیوں سمیت ہر عمارت اسرائیلی بمباری کے نتیجہ میں ملبے کے ڈھیر بن چکی ہے اور غزہ پٹی آج عملاً فلسطینیوں کے قبرستان میں تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ فلسطینی بچے اور خواتین اپنے کٹے پھٹے جسموں کے ساتھ حیرت زدہ ہو کر آسمان کی جانب دیکھ رہی ہیں اور سراپا سوال ہیں کہ انہیں برباد کرکے کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے اور اسرائیل کی ان کیخلاف وحشت و بربریت روکنے کیلئے دنیا بھر سے کوئی انسانی ہاتھ کیوں آگے نہیں بڑھ رہا۔ بالخصوص مسلم دنیا کو اس وحشت و بربریت پر کیوں سانپ سونگھا ہوا ہے اور ان میں انسانی ہمدردی کا جذبہ کیوں عود کر نہیں آرہا جبکہ یہ خاموشی بذات خود ظالم کا ساتھ دینے کی گواہی ہے۔
بے شک فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اسرائیلی مظالم بند کرانے کیلئے مغربی‘ یورپی دنیا سمیت دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے ہیں‘ ریلیاں نکالی گئی ہیں‘ دنیا کی موثر پارلیمانوں میں مذمتی قراردادیں بھی منظور ہوئی ہیں‘ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے فلسطین کو آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم بھی کیا ہے‘ اسرائیل کے ہاتھ روکنے کیلئے قراردادیں بھی منظور کی ہیں اور عالمی عدالت انصاف نے بھی اپنے دو الگ الگ فیصلوں کے تحت غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم کو انسانی حقوق سے متعلق عالمی قوانین کے منافی قرار دیکر اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے تقاضا کیا ہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت رکوانے کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کریں مگر اس سے بڑی انسانی بے بسی اور کیا ہو سکتی ہے کہ نظر آنے والے اس عالمی دباﺅ اور قراردادوں‘ مظاہروں کی شکل میں کئے جانے والے تقاضوں کے باوجود اسرائیل کو اپنے ظالم ہاتھ روکنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جس میں یقیناً مسلم قیادتوں کی مصلحتوں کا بھی عمل دخل ہے۔
اسکے برعکس فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم حماس نے‘ جس نے 7 اکتوبر 2023ءکو اسرائیلی جاری مظالم کے ردعمل میں منظم طریقے سے اسرائیل پر میزائلوں کی بارش کرکے اسکی عسکری دفاعی قوت کو چیلنج کیا تھا۔ آج بھی اسی جذبے کے ساتھ اسرائیلی فوجوں کی مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور اسکے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے اپنے بچوں‘ پوتوں‘ پوتیوں سمیت اپنے خاندان کے 60 کے قریب افراد کی جانوں کا نذرانہ فلسطین کی طاغوتی قوتوں سے آزادی کی جدوجہد میں پیش کیا، خود بھی ہمت نہیں ہاری اور غزہ کی حالت زار کا نقشہ اقوام عالم کے سامنے رکھتے ہوئے بالآخر وہ خود بھی تہران میں ایک مہمان کی حیثیت سے شہادت سے سرفراز ہو گئے‘ انکی ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری کے موقع پر شہادت یقیناً علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو تاراج کرنے کی ہی گھناﺅنی سازش ہے جس کی دنیا بھر میں مذمت کا سلسلہ جاری ہے جبکہ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے حماس کے فوجی ونگ کے سربراہ کو بھی شہید کر دیا ہے۔ چنانچہ جس اسرائیل نے گزشہ روز تک اسماعیل ہانیہ کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی‘ اسکی جانب سے حماس کے فوجی ونگ کے سربراہ کو بھی شہید کرنے کا دعویٰ کرکے بالواسطہ طور پر ہانیہ کی شہادت کی ذمہ داری بھی قبول کرلی گئی ہے۔ چنانچہ اب بالخصوص مسلم قیادتوں کیلئے اسرائیلی مظالم کیخلاف مصلحت کیشی سے کام لئے رکھنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اور فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم حماس کی قیادت کی جانب سے اسرائیل سے ہانیہ شہید کے قتل کا بدلہ لینے کا باضابطہ طور پر اعلان کیا جا چکا ہے۔ اس لئے امت واحدہ کیخلاف اسرائیل کی شکل میں موجود فتنے کی سرکوبی کیلئے پوری مسلم دنیا کو اسرائیل پر حملے کی صورت میں ایران اور حماس کے ساتھ یکجہت ہونے کی ضرورت ہے۔ اب بات محض مذمتی قراردادوں‘ مظاہروں‘ ریلیوں سے آگے نکل چکی ہے۔ امریکہ کی شکل میں اسرائیل کی پشت پر کھڑی اور اسکی خم ٹھونکنے والی الحادی قوتوں کو اسلام کی نشاة ثانیہ کے احیاءکی صورت میں سبق سکھانے کا یقیناً یہی وقت ہے۔ اس کیلئے ایران کی طرح پاکستان‘ ترکی اور عرب ریاستوں کو بھی پوری فعالیت اور دینی و ملی جذبے کے ساتھ الحادی قوتوں کے مقابل آنا ہوگا ورنہ الحادی قوتوں کے ہاتھوں ملت اسلامیہ کا صفحہ ہستی سے مٹنا بعید از قیاس نہیں رہے گا۔