رانا زاہد اقبال
پچھلے کچھ عرصہ میں مہنگائی میں کمی کے باعث عوام کو کچھ اطمینان حاصل ہوا تھا لیکن نئے بجٹ کے اعلان کے بعد دالوں،سبزیوں کی قیمتوں میں دوبارہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔دالوں کی قیمتوں میں اضافہ ایک توحکومت کی جانب سے دالوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 1.25 فیصد سے بڑھا کر 1.85فیصد کرنے کی وجہ سے ہوا دوسرا عالمی منڈی میں بھی دالوں کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بجٹ کے بعد دالوں کی قیمتوں میں 100 روپے کلو تک اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ موسم برسات کے آتے ہی سبزیوں کی قیمتوں میںبھی اضافہ ہو گیا ہے۔ بینگن، کدو، اروی، شملہ مرچ، بھنڈی حتیٰ کہ ہر سبزی ہی عام افراد کی پہنچ سے دور ہے۔ ادھر نیپرا آئے روز بجلی کے نرخ بڑھا رہا ہے اور ملک بھر میں یکساں ٹیرف کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے 7 روپے فی یونٹ تک بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ حالیہ اضافے کے بعد گھریلو صارفین کے لئے بجلی کا فی یونٹ بنیادی ٹیرف 48 روپے 84 پیسے تک ہو گا۔نئے نرخوں کے مطابق ماہانہ201 سے 300 یونٹ تک یونٹ استعمال کا ٹیرف 7 روپے 12 پیسے اضافے سے 34 روپے 26 پیسے ہو جائے گا۔ جب کہ بجلی اس قدر مہنگی ہے کہ پہلے ہی عوام کے لئے وبالِ جان بنی ہوئی ہے۔ اگرچہ اس پندرھواڑے میں پٹرول کی قیمت میں7 روپے کمی ہوئی ہے مگر گزشتہ 15 روز میں تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ مہنگائی سے عاجز آئے عوام کے صبر کا پیمانہ جب جواب دے جائے تولا محالہ حکومت کے لئے مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں۔
حکومت کے لئے ضروری اشیاء کی ملک گیر دستیابی کو یقینی بنانے سمیت کرپشن مہنگائی کی روک تھام کے لئے پالیسی میکنگ کے حوالے سے جب سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں ماہرینِ معاشیات ، اقتصادی مشیروں اور پالیسی سازوں کو سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک مربوط فری اکانومی کے فلسفہ، میکنزم اور پولیٹیکل اکانومی سے مشروط ملکی معیشت اس وقت تک فری نہیں ہو سکتی جب تک کاروباری طبقہ کو روزگار اور منافع کے درمیان آزادانہ اقتصادی سرگرمیوں کے لئے مناسب سہولتیں میسر نہ ہو ں۔ حکومت کو معاشی سرگرمیوں میں چیک اینڈ بیلنس کو سخت گیر نہیں، حقیقت پسندانہ بنانا ہو گا، ذخیرہ اندوزوی کے خاتمے کیلئے چھاپوں، گرفتاریوں اور سخت کاروائی کی بجائے حکومتی معاشی ماہرین کو ملک کے بنیادی اقتصادی، مالیاتی اور معاشی مسائل کے حل میں فری مارکیٹ اکانومی کے فیئر پلے اور آزادانہ کاروبار کی اہمیت و افادیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔کوئی کاروباری شخص اور تاجر ذخیرہ اندوزی کسی مذموم مقصد کے لئے نہیں کرتا، اس کا مطمع نظر منافع حاصل کرنا ہوتا ہے، ساری دنیا کی تجارت اور کاروباری اونچ نیچ رسد، ڈیمانڈ، صارفین اور مارکیٹ کے میکنزم کے تحت چلتی ہے۔ اس سیاق و سباق میں گندم، چینی، آٹے اور دیگر اجناس اور اشیائے ضروریہ کی فراہمی اور دستیابی میں شفاف اور فالٹ فری میکنزم لازمی ہے جب کہ حکومت نے پرائس کنٹرول کمیٹی کو شامل کر کے دراصل فری مارکیٹ تھیوری اور اس کی عملی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔جب مارکیٹ فری ہے تو کنٹرولنگ اختیارات استعمال کرنے والے ادارے عوام اور تاجر دونوں کو ایک فنکشنل مارکیٹ سے دور کر دیں گے اور ادارہ جاتی کشمکش، غیر ضروری اقدامات ، اور فوڈ سیکورٹی یا ملاوٹ کے نام پر پکڑ دھکڑ سے معاملات مزید بگڑیں گے۔
بلاشبہ لوگوں کو سستی اشیاء ملنی چاہئیں مگر حکومت جب تک مارکیٹ کے فری میکنزم کو پالیسی کا حصہ نہیں بنا لیتی، معاشی مسائل جوں کے توں رہیں گے، منڈی میں آزادانہ کاروبار ہو گا تو چیزوں کے ریٹ از خود گریں گے، چیزیں سستی ہوں گی۔ رسد ہو گی تو مہنگائی کی شدت کم ہو گی اور اگر رسد کم ہو گی تو مہنگائی بڑھے گی، ہر شے کسی اصول اور میکنزم کے تحت مناسب نرخوں پر مل سکتی ہے۔ مثال کے طور پر گوشت سلاٹر ہاؤس سے گوشت سپلائی ہوتا ہے، اسے ڈاکٹرز چیک کرتے ہیںاس پر صحت مند گوشت کی مہر ثبت کرتے اور شہروں میں سپلائی کرتے ہیں اگر حکومت اس کے ریٹ سلاٹر ہاؤس میں ہی مقرر کرنے کا میکنزم وضع کر دے، جیسا کہ منڈی اور فروٹ منڈی میں پھلوں اور سبزیوں کی نیلامی ہوتی ہے، اس کے دام مقرر ہوتے ہیں، یہی اصول پروڈکٹس اور پیداوار کی تیاری کے سورس پر طے پا جائیں تومشکلات دور ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح دیگر اشیاء کے لئے میکنزم بنایا جا سکتا ہے۔
جہاں تک تعلق ہے بجلی کا تو اس کے لئے آئی پی پیز کے مہنگے معاہدے ختم کرنے پڑیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ نجی پاور کمپنیوں کی من مانیاں جس حد تک بڑھ چکی ہیں ان کے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر غور کرنا ہی کافی نہیں ان سے مستقل بنیادوں پر چھٹکارا پانے کے مٔوثر اقدامات کی ضرورت ہے۔گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ آئی پی پیز معاہدے ملکی سا لمیت کے لئے بہت خطرناک ہیں۔ جب تک اپنے وسائل پر انحصار کر کے بجلی کی ضروریات پوری نہیں کی جاتیں ملک ان کمپنیوں کے ہاتھو ںایسے ہی یرغمال رہے گا۔