پاکستان اللہ کا انعام، اس کی بنیادوں میں لاکھوں مسلمانوں کا خون شامل: سیدہ عفت بتول 

اسلام آباد (عزیز علوی) تقسیم ہندوستان سے قبل تحریک پاکستان کے دور میں بچہ مسلم لیگ میں پاکستان کے حق میں نعرہ  بازی کرنے والی اور قیام پاکستان کے بعد ضلع جالندھر کے قصبے تلون سے اپنے خاندان کے ہمراہ  بے سروسامانی اور سکھوں کے حملوں کے خوف کے سائے میں پاکستان ہجرت کرنے والی معمر خاتون محترمہ سیدہ عفت  بتول جعفری نے  بتایا کہ پاکستان اللہ تعالی کا انعام ہے، پاکستان ایسے نہیں بن گیا اس کی بنیادوں میں لاکھوں  انسانوں کا خون شامل ہے،  ہم اپنے گھر بار چھوڑ کر آگ اور خون کے دریا سے گزر کر پاکستان آئے تھے، ہجرت  کر کے آنے  والوں میں بہت لکھ پتی  بھی تھے،  جو ککھ  پتی بنے اور کوئی شکوہ نہیں کیا۔ سیدہ عفت بتول جعفری جو  پاکستان کی جدوجہد کے دوران قصبے تلون ضلع  جالندھر  میںکم سن  طالبہ تھیں، اپنے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ تلون  کے معروف زمیندار  فیض  محمد کی نواسی ہیں، وہ تحریک پاکستان کے حوالے سے معلومات قصبے کے لوگوں، مسلمانوں سے شیئر کیا کرتے تھے، قصبے کی سطح پر  تحریک پاکستان کے حق میں سرگرمی ہوا کرتی تھی،  قائد اعظم محمد علی جناح کو سب اپنا رہبر اور رہنما مانتے تھے، ان کے خاندان کے بزرگوں اکبر علی شاہ، فرزند علی شاہ، اور فیض محمد کے مزارات اب بھی تلون میں موجود ہیں۔ سیدہ عفت بتول جعفری کا کہنا تھا ان کا گھرانہ ایک خوشحال گھرانہ تھا اور زندگی  گزر رہی تھی اور پاکستان کے قیام کا انتظار ہو رہا تھا، اس طرح 14 اگست آیا اور پاکستان کے قیام کا اعلان ہو گیا، توقعات کے برعکس جالندھر کو بھارت میں شامل کر دیا گیا،  پاکستان کا اعلان ہوتے ہی  تلون میں  سکھوں کا رویہ تبدیل ہوا،  اور ایک منظم طریقے سے مسلمانوں کے گھروں پر حملے شروع ہوگئے، خواتین کا اغوا، لوٹ مار کے واقعات رونما ہونے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے نانا فوت ہو چکے تھے، ان کے والد  فیروز  شاہ کا انتقال ہو چکا تھا، ان کی والدہ بشیراں  بی بی اپنے بھائیوں شبیر شاہ اور زین العابدین کے ساتھ  اپنے بچوں  کے  ہمراہ  خاندان  کی صورت میں ہی رہتی تھی، بڑھتے ہوئے حملوں  کی وجہ سے خاندان نے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان ہجرت کر جانا چاہیے، ہمارا خاندان  ایک رات خاموشی سے پیدل گھر سے نکلا، اور اس کیمپ کی طرف گیا جو نکودر گائوں  کے اندر قائم کیا گیا تھا،  بس تن کے کپڑوں کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے نکودر کے گاؤں  میں بنے کیمپ میں پہنچ گئے، راستے میں  لوٹے گھروں اور لاشوں  کو دیکھا، مسلمانوں کے اس کیمپ کی نگرانی گورکھا  لوگ کر رہے تھے، گھروں سے تو کچھ لا نہ سکے تھے اس لیے کیمپ میں لائن میں راشن لینا پڑتا، بعض اوقات ارد گرد کے دیہاتوں سے بھی کھانا آ جاتا  تھا، اس کیمپ میں تواتر سے علاقے سے  قتل و غارت گری  کی طلاعات  آرہی تھیں، خاندان نے فیصلہ کیا کہ واپسی کا کوئی راستہ نہیں اب پاکستان ہی جانا ہے، اس دوران ایک خصوصی ٹرین چلائی گئی تھی جو نکودر  سے لاہور آئی۔ ان کو اب بھی یقین ہے کہ پاکستان دنیا کی قیادت کیلئے وجود میں آیا ہے اسے یہ مقام ایک نہ ایک دن ضرور ملے گا۔ 

ای پیپر دی نیشن