اسلام آباد (مانیٹرنگ سیل + آن لائن + اے این این) پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے اقتدار میں آنے پر واشنگٹن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکی حکومت کی وجہ سے اقتدار میں آئے ہیں اور پاکستان کا چہرہ بدلنے کے لئے امریکی مشورے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ یہ انکشاف اس وقت کی امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے امریکہ بھیجے گئے مراسلے میں کیا تھا۔ وکی لیکس نے یہ مراسلہ بھی انٹرنیٹ پر جاری کر دیا ہے‘ اس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی نمائندے شف اور شوارز نے 25 مئی 2008ءکو پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری اور ان کی خارجہ پالیسی ٹیم سے ملاقات کی تھی۔ آصف زرداری نے قابل بھروسہ پارلیمانی انتخابات کی حمایت پر امریکی حکومت کا شکریہ ادا کیا جس کی وجہ سے ان کی پارٹی اقتدار میں آئی۔ زرداری نے امریکی نمائندوں سے کہا کہ وہ امریکی حکومت کی وجہ سے اقتدار میں آئے۔ زرداری نے امریکی کانگریس کے ارکان سے بےنظیر بھٹو کے قریبی تعلقات کا ذکر کیا اور امریکی نمائندوں پر زور دیا کہ ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے امریکی عہدےدار پاکستان کے زیادہ سے زیادہ دورے کریں۔ زرداری نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کو پاکستان کی جنگ قرار دیا۔ آصف زرداری نے امریکی نمائندوں سے بات چیت میں دعویٰ کیا کہ بےنظیر کی دوسری حکومت ہٹانے کے لئے پیسہ اسامہ بن لادن نے دیا تھا اور بےنظیر اور ذوالفقار علی بھٹو کو مذہبی انتہا پسندوں نے قتل کرایا تھا۔ زرداری نے خدشہ ظاہر کیا کہ پرویز مشرف کے مشیر اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے انہیں گمراہ کر رہے ہیں۔ زرداری نے کہا کہ پاکستان کا چہرہ بدلنے کے لئے پیپلز پارٹی کو کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے لئے وہ امریکہ کے مشورے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ بےنظیر بھٹو امریکہ سے کلیئرنس ملنے کے بعد پاکستان واپس آئی تھیں‘ یہ بات بےنظیر کے قتل کے بعد صدر زرداری نے اس وقت کی امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن کو بتائی تھی۔ امریکی سفارت خانے نے اس وقت کی امریکی سفیر اور آصف علی زرداری کے درمیان ملاقات کی تفصیلی رپورٹ 28 جنوری 2008ءکو واشنگٹن بھیجی تھی۔ دونوں شخصیات کے درمیان یہ ملاقات 25 جنوری کو بلاول ہا¶س کراچی میں ہوئی تھی۔ وکی لیکس کے مطابق زرداری نے بات چیت یہ کہہ کر شروع کی کہ امریکہ ہمارے لئے محفوظ چادر کی حیثیت رکھتا ہے۔ زرداری نے پیٹرسن کو بےنظیر کی ایک صفحے پر لکھی وصیت دکھائی اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ بےنظیر نے انہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کرنے کی ذمے داری سونپی ہے اور اس کے لئے انہوں نے امریکہ کی آشیرباد بھی مانگی۔ انہوں نے امریکی سفیر کو بتایا کہ انہوں نے اس وقت کی پاکستانی حکومت کے خلاف بےنظیر کے قتل کی ایف آئی آر اس لئے نہیں کٹوائی تھی کیونکہ وہ پاکستان کو ایک اور بھونچال میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ امریکی سفیر نے مراسلے میں یہ بھی لکھا تھا کہ آصف زرداری بےنظیر پر گولی چلانے والے کی شناخت سے زیادہ یہ پتہ چلانے میں دلچسپی رکھتے تھے کہ قتل کرایا کس نے اور اس کے لئے پیسہ کس نے دیا۔ آصف زرداری نے امریکی سفیر کا یہ خیال مسترد کر دیا کہ بےنظیر کا قتل بیت اللہ محسود نے کرایا تھا بلکہ انہوں نے یہ کہا کہ بیت اللہ محسود اس عمل کا ایک مہرا تھا۔ وکی لیکس نے پشاور کے امریکی قونصل خانے سے بھیجے جانے والے ایک تار کا بھی انکشاف کیا ہے جس میں جنوبی وزیرستان میں پاک فوج کی کارروائی پر روشنی ڈ الی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ وزیرستان میں ہونے والے تمام پانچ امن معاہدوں میں جمعیت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے علما نے اہم کردار ادا کیا۔ 13 جولائی 2009ءکو بھیجے جانے والے اس تار میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز نے بیت اللہ محسود اور اس کے گروپ کو تنہا کرنے کی کوشش کی‘ تاہم شمالی وزیرستان کے حافظ گل بہادر نے پاک فوج پر حملے جاری رکھے۔ ملا نذیر کے بارے میں خیال ہے کہ وہ وزیرستان آپریشن کے دوران غیر جانبدار جبکہ حقانی نیٹ ورک مکمل طور پر غیر جانبدار رہا۔ اس تار کے مطابق مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام نے 2004ءسے 2009ءتک وزیرستان میں ہونے والے پانچوں امن معاہدوں میں اہم کردار ادا کیا۔ جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے علما سینیٹر صالح شاہ‘ سابق رکن قومی اسمبلی مصباح الدین قریشی اور نور محمد نے شدت پسندوں سے بات چیت میں اہم کردار ادا کیا۔ مولانا مصباح الدین اور نور محمد بعد میں مختلف واقعات میں قتل کئے جا چکے ہیں۔ تار کے مطابق مولانا فضل الرحمان وزیرستان میں آپریشن پر خوش نہیں تھے۔ پاکستان امریکہ تعلقات کے بارے میں امریکی حکومت کو بھیجے گئے مراسلے میں لکھا گیا کہ صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی سمجھتے ہیں کہ بھارت اب بڑا خطرہ نہیں بلکہ اسے پاک افغان سرحد پر انتہا پسندوں سے زیادہ خطرہ ہے۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو روکنا ہو گا کہ وہ انتہا پسندی اور قبائلی عوام کو خارجہ پالیسی کے ہتھےار کے طور پر استعمال نہ کرے۔ افغانستان میں جنگ کامیاب بنانے کیلئے اسلام آباد سے پوچھنا چاہئے کہ کابل میں کیسی حکومت قابل قبول ہو گی۔ وکی لیکس کے مطابق اقوام متحدہ کے کمشن برائے افغان مہاجرین نے براہمداغ بگٹی کو افغانستان سے آئرلینڈ منتقل کرنے کی تجویز دی تھی جس پر شجاع پاشا نے کہا کہ ایسا ہوا تو پاکستان میں ادارے کی کارروائیوں پر برا اثر پڑے گا۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ اسامہ بن لادن امریکہ کو مل گیا تو امریکہ اسلام آباد کو پہلے کی طرح تنہا چھوڑ دےگا۔ انہی خدشات کی وجہ سے پاکستان امریکہ کے ساتھ کھل کے تعاون نہیں کر رہا۔ وکی لیکس نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان نے اسرائیل کو بھارت میں یہودیوں کے مراکز پر ممکنہ حملوں کی پیشگی اطلاع دے دی تھی۔ وکی لیکس کے مطابق انٹر سروسز انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے سابق امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن کو بتایا کہ بھارت میں ستمبر اور نومبر کے درمیان دہشت گردی کا خطرہ ہے، وہ یہ پیغام امریکہ تک پہنچا دیں۔ وکی لیکس کی جاری کردہ خفیہ دستاویز کے مطابق وزیراعظم گیلانی نے امریکہ کو تجویز دی تھی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان کے حوالے کیا جائے‘ انہیں جو بھی سزا دی جائے گی وہ پاکستان میں گھر میں نظر بند رہ کر پوری کریں گی۔ یہ یقین دہانی وزیراعظم گیلانی اور وزیر داخلہ رحمن ملک نے 16 فروری 2010ءکو سینیٹر جان کیری سے ملاقات میں کرائی جس کی تفصیل امریکی سفارت خانے نے 19 فروری کو واشنگٹن بھیجی۔ پاکستانی حکومت کی تجویز پر سینیٹر کیری نے اس پر غور کرنے پر اتفاق کیا۔ وزیراعظم نے 11نومبر 2008ءکو بھی امریکی کانگریس کے وفد سے ملاقات میں ڈاکٹر عافیہ کا مسئلہ اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کی بیماری اور ان کے اہل خانہ کی ضرورت کے پیش نظر ڈاکٹر عافیہ کو انسانی بنیادوں پر پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کو وسیع عوامی حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے حکومت کی توجہ انسداد دہشت گردی کے اقدامات سے ہٹ رہی ہے۔ 29 اکتوبر 2008ءکو پاکستان کے قائم مقام سیکرٹری خارجہ خالد بابر نے امریکی سفیر این پیٹرسن کو طلب کیا اور ڈاکٹر عافیہ کے متعلق خدشات ظاہر کئے۔ انہوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے دو لاپتہ بچوں کے متعلق بھی استفسار کیا۔ اس پر امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ وہ بچوں کے متعلق کچھ نہیں جانتیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر عافیہ کے بچے کبھی امریکہ کی تحویل میں نہیں رہے۔ وکی لیکس کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سابق صدر مشرف نے امریکی سینیٹر جان مکین سے گفتگو میں 2007ءمیں پاک فوج عراق بھیجنے کا عندیہ دیا تھا۔ اے این این کے مطابق وکی لیکس کی خفیہ دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے بانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کےلئے چودھری شجاعت حسین کے والد چودھری ظہور الٰہی نے جنرل ضیاءالحق کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد چودھری برادران آصف علی زرداری سے اتحاد پر راضی ہو گئے تھے۔ مراسلے میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ شریف برادران سیاسی حکمت عملی مرتب کرنے کےلئے چوہدری برادران پر انحصار کیا کرتے تھے اس بات کا بھی یقین کیا جاتا ہے۔ مراسلے میں ان افواہوں کا بھی تذکرہ موجود ہے کہ جنرل ضیاءالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی موت کے پروانے پر دستخط بھی چودھری ظہور الٰہی کے قلم سے کئے تھے اور کچھ عرصہ بعد چودھری پرویز الٰہی نے وہ قلم نیلامی میں خرید لیا تھا۔ این ڈبلیو پیٹرسن کے مراسلے میں یہ بھی لکھا کہ بینظیر بھٹو سے نفرت کے سبب چودھری برادران سابق صدر پرویز مشرف اور بینظیر کے درمیان ڈیل کے مخالفت تھے تاہم بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد وہ آصف علی زرداری سے اتحاد پر رضامند ہو گئے تھے۔ وکی لیکس کی جانب سے جاری خفیہ دستاویزات میں امریکی سفارتخانے کے ڈپٹی چیف آف مشن جیرالڈ ایم فیرئسٹائن کی ایف بی آئی ڈائریکٹر رابرٹ مولر کو پاکستان دورے کے موقع پر پیش کی گئی اطلاعات بھی شامل ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ”دشوار سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کی سویلین حکومت کمزور‘ نااہل اور کرپٹ ہے‘ صدر زرداری کے مستقبل کو درپیش سوالات داخلی سیاست پر حاوی ہیں‘ زرداری کی مقبولیت صرف 20 فیصد ہے اور وہ طاقت کے کلیدی سرچشموں سے صف آرا رہے ہیں جن میں فوج‘ چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چودھری اور سیاسی مخالف نوازشریف شامل ہیں۔ وکی لیکس نے پاکستان میں سابق امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن کے حوالے سے مزید دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ سال پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا تھا کہ اگر وہ حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے تو لانگ مارچ کے دوران قبضہ کر لیتے‘ وکی لیکس کے مطابق جنرل کیانی نے یہ بات 7 اکتوبر 2009ءکو امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن کے ساتھ ملاقات میں کہی۔ اس موقع پر آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا ان کے ساتھ تھے۔ جنرل کیانی کا کہنا تھا کہ وہ اقتدار پر قبضہ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج وزیرستان پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہے مگر زرداری سیاسی وجوہات کے باعث موسم بہار گزرنے کا انتظار کرنا چاہتے ہیں۔ اشفاق پرویز کیانی کا کہنا تھا کہ انہوں نے صدر کو بیک چینل ڈپلومیسی کا مشورہ دیا ہے اور وہ اس کے لئے ریاض خان کی تعیناتی کے لئے تیار تھے۔ وکی لیکس کی جاری کردہ خفیہ دستاویز کے مطابق سینیٹر جان کیری نے رواں سال فروری میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان آزاد تجارت کے معاہدے کی تجویز دی تھی‘ اس کے ساتھ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان عدم جارحیت کے معاہدے کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ سینیٹر جان کیری نے یہ تجاویز 16 فروری کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کے دوران دیں۔ ملاقات کی تفصیل پر مشتمل مراسلہ 19 فروری 2010ءکو امریکی سفارت خانے سے واشنگٹن بھیجا گیا۔ ملاقات میں وزیراعظم گیلانی نے جان کیری سے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات پر رضامند ہے لیکن پاکستان کا اعتماد بحال کرنے کے لئے بھارت کو افغانستان میں سرگرمیاں کم کرنے اور بلوچستان میں مداخلت روکنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان بھارت مذاکرات پر عوامی حمایت کے حصول کے لئے امریکہ کو پاکستان اور بھارت کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ہو گا۔ وزیراعظم نے جان کیری سے یہ شکایت بھی کی کہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین مغربی صوبوں کو غیر مستحکم اور انتہا پسندی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ سینیٹر جان کیری نے بھارت کے شہر پونا میں بم دھماکے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنا پلان بھارت کو پیش کرے۔ انہوں نے زور دیا کہ بھارت اور پاکستان کو عدم جارحیت کا معاہدہ کرنا چاہئے۔ وکی لیکس کے مطابق برطانوی عہدیداروں نے امریکی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں بتایا کہ صدر زرداری فہم و فراست سے عاری شخص ہیں ان میں حکومت چلانے کی صلاحیت نہیں۔ وکی لیکس کی دستاویز کے مطابق برطانوی حکام کو صدر آصف علی زرداری کے انداز حکمرانی پر سخت تشویش ہے وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کے پاس معاشی اور دیگر بحرانوں پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے جسٹس افتخار چودھری سے متعلق اپنے خدشات سے امریکی حکومت کو بھی آگاہ کیا تھا۔ 13 ستمبر 2007ءکو امریکی نائب وزیر خارجہ جان نیگرو پونٹے سے ملاقات میں پرویز مشرف نے خدشہ ظاہر کیا کہ جسٹس افتخار انہیں منصب صدارت کے لئے نااہل قرار دلوا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ مقدمات کے معاملے میں جسٹس افتخار چودھری سے مثبت انداز سے بات کریں گے۔ پرویز مشرف نے امریکہ سے یہ بھی کہا کہ آئندہ عام انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو مخلوط حکومت میں شامل کرنا بہت اہم تصور کرتے ہیں‘ پرویز مشرف نے مولانا فضل الرحمان کو معتدل رہنما قرار دیتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان مذہبی جماعتوں میں دراڑ ڈالنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وکی لیکس کے مطابق نوازشریف کو سعودی عرب میں جلاوطنی کے دوران وعدے توڑنے کی وجہ سے کچھ عرصہ نظربندی سے ذرا بہتر حالت میں رکھا گیا۔ امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر عادل الجبار نے 20 نومبر 2007ءکو ریاض آمد کے موقع پر امریکی سفارت خانے کے ناظم الامور اور دیگر حکام سے ظہرانے پر ملاقات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف نے سعودی حکومت سے کئے گئے وعدے توڑے جس پر انہیں سخت مایوسی ہوئی ہے۔ سعودی حکومت نے انہیں لندن جانے کی اجازت دی لیکن وہ لندن سے پاکستان چلے گئے جہاں سے انہیں واپس سعودی عرب بھیج دیا گیا تھا۔ سعودی سفیر عادل الجبار نے واضح کیا کہ سعودی حکومت مستقبل میں نوازشریف کی نقل و حرکت کو کنٹرول کرے گی اور انہیں اس طرح رکھا جائے گا جو نظربندی سے تھوڑا بہتر ہو گا۔ عادل الجبار نے کہا کہ ان کے خیال میں نوازشریف یا بےنظیر بھٹو پرویز مشرف کا بہتر متبادل نہیں ہیں۔ اپنی تمام تر خامیوں کے ساتھ پرویز مشرف وہ واحد شخص ہیں جس کے ساتھ امریکہ اور سعودی عرب مل کر کام کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف فاٹا میں عسکریت پسندی کو کنٹرول کرنے کے قابل نہیں ہیں جبکہ بےنظیر بھٹو ملک پر حکومت کرنے کے لئے کافی متنازع شخصیت ثابت ہوں گی۔ واشنگٹن بھیجے گئے مراسلے میں امریکی حکام نے رائے دی ہے کہ نوازشریف پر سعودی حکومت کا کافی اقتصادی کنٹرول ہے۔ مبینہ طور پر نوازشریف پہلے غیر سعودی باشندے ہیں جنہیں سعودی حکومت نے جلاوطنی کے دوران سعودی عرب میں کاروبار کرنے کے لئے خصوصی قرضہ دیا۔ وکی لیکس نے انکشاف کیا ہے کہ نوازشریف کے جلاوطنی کا معاہدہ توڑنے پر سعودی عرب نے ناراض ہوکر مشرف حکومت سے انہیں گرفتار کرنے کیلئے کہا۔ دستاویزات کے مطابق سعودی حکومت سے معاہدے کے نتیجے میں نواز شریف کو سعودی عرب بھیجا گیا تھا۔ نوازشریف نے دس سال تک سیاست میں حصہ نہ لینے کا وعدہ کیا تھا اور ان کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی شرط پر لندن جانے کی اجازت دی گئی۔جہاں سیاست میں حصہ لے کر اور پاکستان جانے کی کوشش کر کے انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی جس کے بعد سعودی حکومت نے پرویز مشرف کو نواز شریف کی وطن واپسی کی صورت میں انہیں گرفتار کر کے سعودی عرب ڈی پورٹ کرنے کا کہا تھا۔ وکی لیکس کے انکشافات کے مطابق نوازشریف آئندہ الیکشن جیتے تو امریکہ ان کے ساتھ کام کر سکتا ہے۔ وکی لیکس کے مطابق سابق امریکی سفیر این پیٹرسن نے کہا کہ پاکستان ناکام ریاست نہیں ہے۔