کیا جمہوریت واقعی سیاسی پارٹیوں میں سخت منافرت، شدید مخالفت، باہمی بغض و عداوت اور زہر بھری کشمکش کا نام ہے؟ اگر جمہوریت یہی ہے تو ماننا پڑے گا کہ یہ نظام بنی نوع انسان کی بھلائی اور فلاح و بہبود کا ضامن ہونے کے بجائے انسانی بربادی کا سامان رکھتا ہے۔اس کے کثیر الجماعتی مزاج کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہے کہ تمام جماعتوں کے مابین ایک دائمی آویزش برقرار رہے۔ ویسے بھی برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک جن کو جمہوریت کے معاملے میں ماڈل تصور کیا جاتا ہے وہاں دو تین جماعتوں سے زیادہ سیاسی تنظیمیں جڑ پکڑ ہی نہیں سکی ہیں۔ امریکہ میں دو جماعتی نظام پختہ ہو چکا ہے۔ برطانیہ میں بڑی محدود قبولیت رکھنے والی کوئی تیسری جماعت ہے لیکن اقتدار دو ہی جماعتوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔ الیکشن کے زمانے میں امیدواروں کے درمیان گرما گرمی کے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں لیکن ایک پارٹی کے جیت جانے کے بعد اپوزیشن پارلیمنٹ کے اندر تو حکومتی پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بناتی ہے، بیرونِ ایوان اختلافات و مخالفت اور نفرت انگیزی کی ایسی آگ بھڑکانے کی روایت نہیں ہے جس کے شعلے قومی یکجہتی اور اتحاد کو بھسم کر رکھ دیں۔ لیکن ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ سیاست سنجیدہ عمل سے زیادہ کارِ طفلاں کی مانند ہے۔ کوئی چھ درجن چھوٹی بڑی جماعتیں ہیں جن کی پُختہ فکری سے بڑی حد تک عاری ہر سطح کی قیادت اپنے حریفوں کو ناکوں چنے چبوانے اور چاروں شانے چت کرنے کی تگ و دومیں مصروف رہتی ہے۔ ایک آزاد و خود مختار ملک کی صورت میں امریکہ کے بانیوں میں سے ایک ’بابائے قوم ‘ اور اس کے دوسرے صدر جان آڈمز (John Adams) نے جمہوریت کے بارے میں کہا تھا: ’یاد رکھیے، جمہوریت کبھی لمبے عرصے کے لئے نہیں پنپتی ہے۔ جلد ہی یہ اپنا آپ ضائع کر دیتی ہے، اس پر تکان اور اضمحلال طاری ہو جاتا ہے اور یہ اپنے آپ کو ہلاکت سے دوچار کر دیتی ہے۔ ابھی تک ایسی کوئی جمہوریت وجود میں نہیں آئی جس نے خود کُشی نہ کی ہو۔‘ جان آدمز کے جمہوریت کے بارے میں اس قول کی صداقت جس قدر ہمارے ہاں عیاں ہے اتنی خود ان کے ملک میں نہیں ہے۔ ہم اکثر چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھتے ہیں کہ کوئی بلی یا چڑیا کا بچہ ان کے ہاتھ لگ جائے تو ایک دوسرے سے چھینا جھپٹی اور کھسوٹ میں اس کو ادھ موا کرکے رکھ دیتے ہیں۔ ہماری جمہوریت اسی طرح کے ان گھڑ اور نیم پخت سیاست دانوں کی نادانی کی بھینٹ چڑھ کر بار بار نڈھال اور مضمحل‘ ضائع ہوتی اور موت سے دوچار ہوتی رہتی ہے۔
ہم عموماً فوجی آمروں کے اقتدار پر قبضے ہی کو جمہوریت کا قتل قرار دیتے ہیں۔ یہ بلا شبہ جمہوریت کا قتل ہی ہوتا ہے لیکن ہم اگر کبھی غور سے دیکھیں تو جن ہاتھوں پر جمہوریت کا سب سے زیادہ خون ہے وہ سیاست دانوں کے ہاتھ ہیں۔ ایوب خان، ضیاءالحق اور پرویز مشرف کی جمہوریت کش مہم میں جتنی کمک ان کو سیاسی حلقوں سے بہم پہنچی اتنی خود فوجیوں نے فراہم نہیں کی۔یہاں نہ جمہوریت کبھی فوج کے اثر سے خالی رہی اور نہ فوجی راج کبھی سیاست دانوں کی پر جوش شرکت سے محروم ہوتا ہے۔ یہ باری کا معاملہ ہے ۔جرنیل تھک جاتے ہیں تو ذرا دم لینے کے لیے امورِ مملکت سیاست دانوں کو سونپ دیتے ہیں۔چھینا جھپٹی اور مار کھسوٹ سے جس طرح بچے بلی یا چڑیا کے بچے کو ادھ موا کر دیتے ہیں اسی طرح سیاست دان جب جمہوریت سے ناجائز کھیل، کھیل کھیل کر اسے بے حال کر دیتے ہیں تو جرنیل انہیں پرے ہٹا کر اصلی اور بنیادی جمہوریت متعارف کرانے کے لیے میدان میں اتر آتے ہیں۔ جرنل اشفاق پرویز کیانی صاحبِ مطالعہ اور اہلِ فکر آدمی ہیں۔گہری فکر کے دانشور قسم کے اس کم گو آدمی سے کوئی یہ توقع نہیں کرتا کہ وہ اپنے پیش روﺅں کی تاریخ دہرائے گالیکن ہم جیسے وہمیوں کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگلے سال اپنی مدتِ توسیعِ ملازمت کے خاتمے سے پہلے وہ اپنی باری لینے سے شاید نہ ہی چوکیں۔وہ اپنی قیمتی کتابوں پر کِرمِ کتابی(book worms) کو مارنے والی دوائیں چھڑکیں گے اورلمبے عرصے کے لیے اپنی لائبریری کو تالا لگا کر فوجی ڈنڈا ہاتھ میں لے لیںگے۔جرنیلوں کو اب کوئی خوش آمدید کہے نہ کہے لیکن وہ یہ جانتے ہیںکہ ایسی بے ثمر جمہوریت جس کا تجربہ عوام پچھلے پانچ سال سے کر رہے ہیں اس کے خاتمے پرنہ آسمان روئے گا اور پہاڑ وں کے سینے شق ہوںگے۔جمہوریت خواہ قدیم یونان کی ہو یا جدید دور کی اور حکومت خواہ سیاست دانوں کی ہو یا فوجیوں کی ،جب اس کی نیت میں فتور اور مزاج میں فساد ہو تو درخت بے پھل، کھیتیاں بے حاصل اورزمین کا بطن اور بادلوں کے دامن بے آب ہو جاتے ہیں۔ فساد اور بگاڑ کا مطلب جمہوریت یا حکومت کا عظیم اصولوں، بلنداخلاقی اقدار اور اجتماعی مفاد کے دور رس منصوبوں سے تہی دامن ہو جانا ہے۔ ایسی صورت میں اس کے خاتمے پر کارکنانِ فطرت روتے نہیں بلکہ سکون کا سانس لیتے ہیں۔ تعصب و منافرت، حسد و رقابت، مخاصمت اور عداوت کا زہر جس جمہوریت کے خون میں داخل ہو اور ان ساری کیفیات کی پشت پر زیادہ تر حرص و ہوس اور زرطلبی ہی ہو اس کی موت پر کون آنسو بہائے گا۔ یہی اطمینان جرنیلوں کو جمہوریت منافی اقدام پر ابھارتا ہے ۔
جمہوریت کا بار بار خون سیاست دانوں کے فقدانِ دانش و فراست اور بے بصیرتی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ وہ اپنے اعمال و اقوال، اپنی پالیسیوں اور رویوں سے ثابت کرتے ہیںکہ وہ روشن ضمیری، بالغ فکری اور دور اندیشی سے خالی ہیں۔دولتِ دنیا کی حرص ان کی دولتِ علم و عرفان سے تہی دامنی ہی کی نشانی ہے۔ علم کے لیے مطالعہ، بلیغ اور مسلسل اور ہمہ جہتی مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے جس کی نہ انہیں فرصت ہوتی ہے اور نہ یہ اس کا ذوق و شوق رکھتے ہیں۔ صاحبِ کتاب ہونا تو بہت دور کی بات ہے، ہمارے سیاست دانوں میںکتاب خواں بھی کوئی کم ہی کوئی ہو گا۔علم کی روشنی میں ہی انسان پر حلال خوری اور حلال کاری کی جہتیں روشن ہوتی ہیں۔حلال کاری سے ہماری مراد یہ احتیاط ہے کہ اہم کاموں اور فرائض اور ذمہ داریوں کی انجام دہی میں ذاتی خواہشات کے قدم وہ آئین و قانون، اصول و ضوابط، دین و اخلاق اور اجتماعی مفاد کے دائرے سے باہر نہ پڑیں۔جمہوریت کا مفہوم صرف یہی نہیں ہے کہ امورِ مملکت کور کمانڈرز کی میٹنگ کے بجائے پارلیمنٹ میں طے پائیں ۔ جمہوریت کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ یہ امور جمہور کی آشاﺅں، تمناﺅں اور فلاح بہبود کے عین مطابق طے پائیں۔یہ امور جس کسی کے بھی ہاتھ میں ہوں وہ وطن کے اساسی نظریے،قومی وقار، ملکی سلامتی کے تقاضوں سے یک سرِ مُو انحراف نہ کرے اورجمہور کی امیدوں پر پورا اترے ۔ہماری جمہوریت کی ناکامی کی وجہ ہمیشہ یہ رہی کہ اس میں ان اجزا کا فقدان رہا ہے۔آج ہماری قوم کے اندر وحدت و اتحادکے بجائے انتشار و افتراق کا عنصر غالب ہے۔ اس لیے کہ دینی اور سیاسی قیادتیں اپنے عمل سے اسی کو جمہوریت باور کرا رہی ہیں اور ان کی نظر میں پھاڑنا اور ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہی قومی خدمت ہے۔