کراچی( خصوصی رپورٹر) متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کس حلقہ میں کس جماعت کی اکثریت ہوگی،کس کی نہیں ہوگی اس بات کا فیصلہ جج حضرات نہ کریں بلکہ یہ فیصلہ عوام کو کرنے دیا جائے، عوام سے ان کا جمہوری حق نہ چھینا جائے، پاکستان کو ایک جمہوری ملک ہی رہنے دیا جائے اور یہاں جوڈیشل مارشل لاءنہ لگایا جائے۔ پورے ملک کو چھوڑ کر صرف کراچی میں مردم شماری کے بغیر نئی حلقہ بندیاں کرانے کا حکم غیرآئینی، غیرقانونی اور متعصبانہ ہے، یہ جو کھیل کھیلاجا رہا ہے وہ ایم کیوایم کے مینڈیٹ کو توڑنے اور اس کی نشستیں چھیننے کی سوچی سمجھی کوشش ہے مگر کراچی کے عوام اپنے جمہوری حق کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار کراچی سمیت 39 شہروں میں ہونے والے عوامی اجتماعات سے اپنے ٹیلیفونک خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا ایم کیوایم دشمن عناصر ایم کیوایم کے مینڈیٹ کو ختم کرنے اور اسے فناکرنے کیلئے عدالتوں کے بعض ججوں کو استعمال کررہے ہیں۔ ایسے عناصر کو یاد رکھنا چاہیے 19جون 1992ءکو بھی جب ایم کیو ایم کے خلاف ریاستی آپریشن شروع ہوا تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز نے اپنے آپ کو خدا سمجھتے ہوئے یہ بیان دیا تھا الطاف حسین کاچیپٹر کلوز ہو گیا مگر ایسا دعویٰ کرنے والے جنرل آصف نوازکا نام ونشان مٹ چکا ہے جبکہ اللہ کے فضل سے الطاف حسین آج بھی سلامت ہے۔ کارکنان مایوس اور دل برداشتہ نہ ہوں، ثابت قدم رہیں اور اللہ کی راہ میں قربانی دیں، ہمارا ایمان ہے جو لوگ جن ذریعوں سے ایم کیوایم کو مٹانے کا خواب دیکھ رہے ہیں خود ان کانام ونشان مٹ جائے گا۔ الطا ف حسین نے کہا سپریم کورٹ کی مخصوص بنچ کے فاضل جج نے دیگر جج حضرات کی موجودگی میں یہ ریمارکس دیئے کہ کراچی میں بدامنی کے خاتمے کیلئے ایسی حلقہ بندیاں کی جائیں کہ کسی ایک جماعت کی اجارہ داری نہ رہے، فاضل جج نے یہ متعصبانہ ریمارکس دے کرلاکھوں ووٹروں سمیت کراچی کے کروڑوں عوام کی توہین کی ہے۔ انہیں چاہیے وہ اپنے متعصبانہ الفاظ واپس لیں اور ان متعصبانہ ریمارکس پر کراچی کے عوام سے معافی مانگیں۔ یہ ریمارکس آئین کی دفعہ 25 کی بھی صریحاًخلاف ورزی ہیں جس میں صاف اور واضح طور پر کہا گیا ہے قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں اور قانون سب کو یکساں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ ہزاروں مرتبہ سوموٹو لے چکے ہیں،اب آپ انتظار کیوں کررہے ہیں، آپ کے ایک فاضل جج نے متعصبانہ ریمارکس دے کر نہ صرف عدالت عظمیٰ کی عزت ووقار کو مجروح کیا ہے بلکہ اپنے حلف اور قانون کی بھی خلاف ورزی کی ہے لہٰذا آپ اس جج کے خلاف کارروائی کریں۔انہوں نے کہا بدقسمتی سے آج ہمارے ملک میں عدالتیں مذاق بن چکی ہیں، مقدمات کی سماعت کے آغاز ہی میں ٹی وی چینلز پر انکے ریمارکس کی پٹیاں چلنے لگتی ہیں، ہمارے فاضل جج صاحبان طنزیہ جملے اور ریمارکس پاس کرتے ہیں اور مقدمات کی سماعت کے دوران ایسے ریمارکس دیتے ہیں کہ عام آدمی سمجھ جاتا ہے فیصلہ کس کے حق میں ہونے جا رہا ہے جبکہ دنیا کے کسی مہذب ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ الطا ف حسین نے کہا کسی بھی عدالت کے کسی جج کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ الیکشن کمشن کویہ کہے ایسی حلقہ بندیاں تشکیل دی جائیں کہ کسی ایک جماعت کی اجارہ داری نہ ہو۔ یہ کسی عدالت کا نہیں بلکہ عوام کا جمہوری حق ہے کہ وہ کسی بھی حلقہ میں کس جماعت کو اپنا مینڈیٹ دیتے ہیں۔کسی کوبھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ عوام کے اس حق کوچھینے۔ سپریم کورٹ کی مخصوص بینچ کی جانب سے دیاگیا یہ حکم دراصل کراچی کے عوام سے ان کا بالغ رائے دہی کا حق چھیننے کی کوشش ہے لیکن ملک کے باشعور اور جمہوریت پسند عوام کسی کو اپنے جمہوری حق پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا ملک کے تمام آئینی وقانونی ماہرین بتائیں حلقہ بندیوں کے قانون میں یہ کہاں لکھا ہے حلقہ بندیاں اس طرح کی جائیں کہ کسی ایک جماعت کی اجارہ داری نہ ہو؟ آئین کی کس شق میں اجارہ داری کا لفظ ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر سپریم کورٹ کی بینچ کے فاضل رکن نے کس طرح اجارہ داری کی بات کی ©؟ کسی جماعت کی اکثریت کو اجارہ داری سے تعبیر کرنا سراسر غیرجمہوری، غیرآئینی، آمرانہ اور متعصبانہ ہے۔ اگر کراچی کے بارے میں سپریم کورٹ کی جانب سے دیا جانے والا حکم درست اورجائز ہے توپھرپورے ملک کیلئے یہ فارمولا کیوں اختیارنہیں کیاگیا کہ ایسی حلقہ بندیاںکی جائیں کہ کسی ایک جماعت کی اجارہ داری نہ ہو؟ صرف کراچی کیلئے ایساحکم دینا سراسرکراچی دشمنی پر مبنی ہے۔انہوں نے کہا ہم آئین وقانون پریقین رکھتے ہیں، عدلیہ کااحترام کرتے ہیں، ہمارا کہنا صرف یہ ہے آپ قانون کے مطابق ملک میں مردم شماری کرائیں اور پھرآبادی کے تناسب سے نئی حلقہ بندیاں کرائیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ الطا ف حسین نے کہا بلوچستان پہلے ہی علیحدگی کے دہانے پرکھڑاہے اب کراچی کے بارے میںاس طرح کا متعصبانہ فی©صلہ کرکے آخرکراچی والوں کوکیاپیغام دیاجا رہا ہے؟ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہاکہ خداکیلئے کراچی کے عوام کے فیصلے کا احترام کیا جائے، انہوں نے مطالبہ کیا صدر زرداری، وفاق پاکستان، حکومت، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور دیگر غیرجانبدار اور غیرمتعصب ججز اس معاملے کا فوری نوٹس لیں۔ کالاباغ ڈیم بنانے کے بارے میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ڈیموں کی تعمیر کا فیصلہ عدالتیں نہیں کرسکتیں لہٰذا آج کا اجتماع کالاباغ ڈیم کے بارے میں عدالتی فیصلے کو نامنظورکرتا ہے۔ اس موقع پر اجتماعات میں شریک لاکھوں عوام نے ہاتھ اٹھاکر کالاباغ ڈیم کو مسترد کرنے کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا عوام نے کالاباغ ڈیم کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے لہٰذا اب لاہور ہائیکورٹ بھی اپنا فیصلہ واپس لے لے۔