فوڈ سکیورٹی پالیسی پر عمل کریں یا غریبوں کو داتا دربار بھیج دیا کریں: سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں آٹا کی قیمتوں میں اضافہ سے متعلق جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ کی درخواست پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں عدالت نے عوام کو رعایتی نرخوں پر اشیائے خور و نوش فراہم کرنے کے لئے میکنزم سے متعلق 15 روز میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو آٹے اور دیگر اشیائے خوردنی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے مؤثر اقدامات کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گندم کی امداد قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کرنے سے قیمتوں میں توازن ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ حکومتیں قیمتیں کنٹرول اور ان پر چیک رکھیں ورنہ قیمتیں بڑھتی رہیں گی اور غریب آدمی کیلئے روٹی کھانا مشکل ہو جائے گا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ عدالت میں پیش ہوئے انہوں نے عدالت کے استفسار پر وزارت خوراک کی جانب سے رپورٹ میں بتایا کہ حکومت نے 2012-13ء کی پالیسی کے مطابق چالیس کلو گندم کا نرح 1200 روپے مقرر کیا ہے مگر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، فرٹیلائزر کمپنیوں کو گیس کی عدم فراہمی کی وجہ سے آٹے کی پسائی پر زیادہ لاگت آتی ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ اس وقت 13 روپے والا آٹا 42 روپے کلو میں فروخت کیا جا رہا ہے آخر پرائس کنٹرول کے تحت اس اضافے کو روکا کیوں نہیں جا رہا جب غریب کے بچے کو سستا آٹا فراہم نہیں کیا جائے گا تو اس نے چوری اور ڈکیتی ہی کرنی ہے یا فوڈ سکیورٹی پالیسی پر عمل کیا جائے یا ان سے کہا جائے کہ داتا دربار جایا کریں، کیا حکومتوں کے پاس عوام کو رعایتی نرخ پرآٹا فراہم کرنے کی کوئی پالیسی نہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ کا کہنا تھا کہ فوڈ سٹف کنٹرول ایکٹ 1952ء کے تحت قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ درخواست گذار لیاقت بلوچ کے وکیل توفیق آصف نے عدالت کو بتایا کہ عام مارکیٹ میں ایک روٹی دس روپے کی مل رہی ہے، غریب آدمی کو دو کلو آٹا لینے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ گیس نہ ہونے کی وجہ سے تنور والا بھی مشکلات کا شکار ہے جس سے قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام سوجی اور میدہ نکلا ہوا آٹا 48 روپے فی کلو کے حساب سے خریدنے پر مجبور ہے چیف جسٹس نے کہا کہ آٹا فی کلو 48 روپے پر چلا گیا لیکن حکومت کچھ نہیں کر رہی نانبائی کیا کریں جب ذمہ دار کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ عدالت نے قرار دیا کہ پرائس کنٹرول ایکٹ 1978ء کے تحت یہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قیمتوں کو کنٹرول کرے عدالت نے چاروں صوبائی سیکرٹریوں کو قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے اجلاس بلانے کی ہدایات کی اور کہا پہلے خوراک کے ڈپو قائم ہوتے تھے اس وقت حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ یوٹیلیٹی سٹورز قائم کر کے عوام کو سستا آٹا فراہم کرے۔ آئی این پی کے مطابق سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو آٹے سمیت دیگر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کو کنٹرول کا طریقہ کار کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ آئندہ پندرہ روز کے اندر پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے مقدمے کی سماعت ملتوی کر دی۔ بنچ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکومتی اداروں کی نااہلی کے باعث روٹی بھی غریب عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے، وفاق صوبوں کو سبسڈائز نرخوں پرآٹے کی فراہمی کا پابند ہے، اس حوالے سے قانون موجود ہے جس کی پاسداری نہیں کی جا رہی، وفاق اور صوبے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے، نرخوں کو مناسب سطح پر رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے ، حکومت آتی ہے اور وقت پورا کر کے چلی جاتی ہے، کیا اب آٹے کی قیمتیں بھی ہم ہی مقرر کریں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف جماعت اسلامی کی درخواست کی سماعت کی تو درخواست گذاروں کے وکلا نے دلائل میں کہا آج آٹا 48 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے، غریب کے لئے اپنے بچوں کی روٹی پوری کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ ایڈیشنل اٹا رنی جنرل عتیق شاہ نے عدالت کو بتایا کہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں کنٹرول کرنے کی ذمہ داری صوبوں پر عائد ہوتی ہے اناج کی قیمتیں مقرر کرنا نیشنل سکیورٹی ڈویژن کی ذمہ داری ہے، افراط زر کے باعث آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے تحت غذائی تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری نیشنل سکیورٹی ڈویژن پر عائد ہوتی ہے، وفاق صوبوں کو سبسڈائز نرخوں پر آٹے کی فراہمی کا پابند ہے، اس حوالے سے قانون موجود ہے جس کی پاسداری نہیں کی جا رہی، وفاق اور صوبے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے، نرخوں کو مناسب سطح پر رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے، مناسب طریقہ کار نہ ہونے کے سبب منافع خوروں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے، اگر قیمتیں بڑھنے کا رجحان برقرار رہا تو روٹی بھی غریب عوام کی پہنچ سے دور ہو جائے گی۔ عدالت نے وفاق کو 15 دن کے اندر کنٹرول ریٹ اور صوبوں کو آٹے کی قیمتوں میں فراہم کی جانے والی سبسڈی کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کو جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ حکومت اپنی ذمہ داری کیوں پوری نہیں کر رہی۔ عدالت نے حکم دیا کہ وفاق اور صوبائی حکومت آٹے سمیت دیگر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کو کنڑول کرنے کا طریقہ کار پندرہ دن کے اندر پیش کریں۔آن لائن کے مطابق دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کا اب یہ کام رہ گیا ہے کہ آٹے کی قیمتوں کا تعین بھی کرے‘ اگر یہ سب عدالت نے کرنا ہے تو پھر حکومتیں کیا کر رہی ہیں‘ غریب کیلئے آٹا خریدنا مشکل ہو رہا ہے‘ جسٹس جواد نے کہا کہ خدارا غریب کے بچے پر رحم کریں۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...