عمران خان نے ایک کینسر سمپوزیم میں کہا کہ شوکت خانم دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ بات عمران خود نہ کہتے تو اچھا تھا۔ یہ بات ہمیں پہلے سے معلوم ہے۔ اب اور بھی کئی باتیں معلوم ہوئیں جو لوگوں کے لئے نامعلوم ہیں۔ یہ باتیں پھر کبھی سہی۔ اس سمپوزیم میں ڈاکٹر فیصل سلطان نے اچھی باتیں کیں۔ عمران خان کیلئے کہا کہ وہ بہت مقبول لیڈر ہے۔ یہ بات خود عمران خان نے ہمیں بتائی تھی۔ ایک چالاک مگر سادہ دوست کہنے لگا۔ میری ماں کہتی ہے کہ میں شہزادہ ہوں اس سے پوچھا گیا یہ تو ہر ماں اپنے بیٹے کے لئے کہتی ہے۔
عمران خان پھر سٹیج سے گرتے گرتے بڑی مشکل سے بچے ہیں۔ کہتے ہیں دونوں بار اپنوں نے اس کے خلاف سازش کی ہے۔ اب تحریک انصاف میں کئی گروپ بن چکے ہیں ہر بار اتنا کمزور سٹیج کیوں بنایا جاتا ہے۔ یہ بات سٹیج سیکرٹری سے پوچھنے والی ہے کہ سٹیج پر ضرورت سے زیادہ لوگ چڑھ جاتے ہیں۔ باقی چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت مولا علیؓ کا قول ہے کہ جو زمین پر بیٹھتے ہیں وہ گرتے نہیں۔ یہ پیغام سب حکمرانوں اور حکمران بننے کے خواہشمند سیاستدانوں کے لئے ہے۔ زمین کو سرزمین بنانے والے اپنے ساتھیوں جیسے ہوتے ہیں۔ حضرت رسول کریم میرے آقا و مولا حضرت محمد اپنے صحابہ کے ساتھ زمین پر اس طرح گھل مل کر بیٹھتے تھے کہ کوئی یہ جان نہ سکتا تھا کہ ان لوگوں کا سردار کون ہے۔ آجکل پروٹوکول اور سکیورٹی کے مارے ہوئے حکمرانوں کو یہ شعور نہیں کہ وہ خود کون ہیں۔ دوسروں پر اپنے ہونے کا رعب جمانے والے حقیر لوگ ہوتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ وزیر شذیر بنتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
مریم نواز نے کہا ہے کہ میں سیاست کے لئے محنت کرنے میں یقین رکھتی ہوں۔ چھٹی کے بغیر کام کرتی ہوں۔ مریم یہ بتائے کہ سرکاری طور پر دو چھٹیاں کیوں کی گئی ہیں۔ ہم چھ دنوں میں کام نہیں کرتے تھے۔ پانچ دنوں میں بھی کام نہیں کرتے۔ ہمیں نہ کام کرنا آیا نہ چھٹی منانا آئی۔ یوم پاکستان یوم آزادی والے دن بھی سو کر چھٹی کا دن گزار دیتے ہیں۔ ہمارے سارے دن ایک جیسے ہوتے ہیں جبکہ میرے حضور نے فرمایا کہ جس کا آج کا دن کل کے دن سے اچھا نہیں ہے وہ سمجھے کہ یہ دن اس کی زندگی میں آیا ہی نہیں ۔ ایک شعر یاد آیا ہے جو ہماری ٹھہری ہوئی زندگی کی یکسانیت کی ترجمانی کرتا ہے۔
اپنی قسمت میں لکھا ہے جو یہ ہارا ہوا دن
چلئے اک اور گذاریں گے گذارا ہوا دن
ہم کب اپنی زندگی کو اک اور زندگی بنائیں گے۔ یکسانیت کی بجائے یکسوئی، جمود کی بجائے نمود، مریم نواز چھٹی کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ اس کے لئے یہ شعر۔
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
٭٭٭٭٭
سندھ ہائی کورٹ کے زخمی چیف جسٹس نے بیرون ملک علاج کرانے کی حکومتی پیشکش مسترد کر دی ہے۔ جبکہ ہمارے ملک میں وزیر شذیر بھی ہر طرح کا ”چھوٹا موٹا“ علاج کرانے کے لئے یورپ امریکہ جاتے ہیں اور قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان پہنچاتے ہیں۔
یہ بھی عدل کی بات ہے کہ ایک دل والے سچے پاکستانی جج نے سرکاری فضول خرچی سے انکار کر دیا ہے۔ قائداعظم نے علاج کے لئے بیرون ملک جانے سے انکار کر دیا تھا۔ بابائے قوم نے پوچھا کہ کیا میری قوم کے ہر فرد کو یہ سہولت حاصل ہے؟ ایک فوجی صدر جنرل ضیا نے اپنا آپریشن پاکستان میں کرایا تھا۔ مسیحی چیف جسٹس پاکستان جسٹس کارنیلس نے ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی فلیٹیز ہوٹل کے ایک کمرے میں گزار دی۔ ان کا کوئی پلاٹ کوئی مکان نہ تھا۔ انہیں علاج کے لئے بیرون ملک بھیجنے کی درخواست کی گئی۔ انہوں نے کہا میں اپنے ملک میں مرنا چاہتا ہوں۔ کیا بیرون ملک جانے کے بعد میں موت سے بچ جاﺅں گا۔
ترکی میں مسلمان ترک سپہ سالار سلطان سلیمان عالی شان کے محل میں وہ چبوترا اب تک موجود ہے جہاں سلطان کو غسل دیا گیا تھا۔ ان کے بعد ہر سلطان پہلے اس چبوترے کو دیکھتا تھا اور پھر امور سلطنت شروع کرتا تھا۔ ترکی کے سفر میں جب میں نے اس چبوترے کو دیکھا تو حیرت سے اسے دیکھا۔ ہمارے حکمرانوں کو یہاں کچھ دیر بیٹھنا چاہئے۔ آج کے حکمرانوں کو موت یاد نہیں ہے۔ خدا کی قسم انہیں زندگی بھی یاد نہیں ہے۔ جو مرنا نہیں جانتا وہ جینا بھی نہیں جانتا۔ بے موت مرنے والے حکمرانوں نے ہمارا جینا حرام کر دیا ہے۔
٭٭٭٭٭
دوستی بس بھارت سے درجنوں کمانڈوز کے پہرے میں امرتسر سے ننکانہ خالی بلکہ خالم خالی پہنچی۔ نجانے کمانڈوز کس کی حفاظت پر مامور تھے؟ بھارت سے دوستی کے لئے بے قرار وزیراعظم نوازشریف کو مبارک ہو۔ یہ بھارت کے ساتھ خود ساختہ اور یکطرفہ دوستی کی آرزو اور ارادے کے لئے فطری ردعمل کی نشانیاں ہیں۔ الحمرا آرٹس کونسل میں ادبی کانفرنس میں بھی بھارت دوستی کی متنازعہ فضا کو ہموار کرنے کی کوشش کی گئی۔ لوگ اور مقررین پوچھتے رہ گئے کہ امن کی آشا کیا ہے؟ بھارت والوں کا نعرہ امن کی آرزو ہونا چاہئے تاکہ دونوں طرف سے دوستی کی منافقت کا بھانڈا پھوٹ سکے۔ پنجابی کی ایک بولی یاد آئی ہے جسے کھینچ کھانچ کے دوستی کے لئے دہرے معیار کو سامنے لایا جا سکتا ہے۔
ٹانگہ آیا کچہریوں خالی
تے سجناں نوں قید بول گئی
٭٭٭٭٭
یہ بات تو کچھ پرانی ہو گئی ہے مگر ہماری نفسیات کی ترجمانی کرتی ہے۔ اب تو ہماری کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کچھ بہتر ہو گئی ہے۔ جب ہم مسلسل ہار رہے تھے تو کہا گیا کہ اصل میں یہ کالی بلی کی وجہ سے ہوا ہے جو کرکٹ گراﺅنڈ میں گھس آئی تھی۔ اس کالی بلی نے جنوبی افریقہ کی ٹیم کو کسی وہم میں مبتلا نہ کیا۔ اگر سفید بلی گراﺅنڈ میں آ جاتی تو ہم یقیناً جیت جاتے۔ جنوبی افریقہ کی کالی بلی اور نجم سیٹھی کی امریکی چڑیا میں کیا فرق ہے؟ یہ ہمارے خلاف کوئی سازش ہوئی ہے۔ سازش ہمیشہ کمزوروں اور ہارنے والوں کے خلاف ہوتی ہے۔ آجکل شیر کی حکومت ہے۔ اس کے لئے میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیر نیازی نے کہا۔ بلی جنگل میں اتنی ڈری کہ شیر بن گئی۔ مگر اب تو شیر نے غریب لوگوں کے لئے مہنگائی کی ببر شیر بننے کی کوشش کی ہے کہ پوری قوم گیدڑ بن گئی ہے۔