مُلک کے چاروں صوبائی وزراءاعلیٰ میاں شہباز شریف، سیّد قائم علی شاہ، ڈاکٹر عبداُلمالک اور جناب پرویز خٹک اپنی اپنی انسانی خوبیوں اور ”کارکردگی“ کے باعث ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔میاں شہباز شریف میں ایک خُوبی یہ ہے کہ اپنے جلسوں میں وہ معرُوف شاعروں کا کلام گا کر سُناتے ہیں۔ سیّد قائم علی شاہ اور ڈاکٹر عبداُلمالک کبھی کبھی شعر تو سُنا دیتے ہیں لیکن ترنم یا گانے وانے کے چکّر میں نہیں پڑتے۔ جناب پرویز خٹک ممکن ہے"Bath Room Singer" ہوں لیکن کُھلے بندوں گاتے ہُوئے سُنے یا دیکھے نہیں گئے البتہ عام لوگوں کے سامنے ”رقص“ کرنے یا ناچنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ جب جناب خٹک نے ”نیا پاکستان“ دھرنے میں پہلی بار ڈانس کِیا تو گلاسگو کے ”بابائے امن“ ملک غُلام ربّانی نے مجھے ٹیلی فون کِیا اور بتایا کہ ”گلاسگوکی کئی ثقافتی تنظیمیں معقول معاوضہ پر جناب پرویز خٹک کو اپنے پروگرام کے لئے "Book" کرنے کو تیار ہیں“۔ اِن دِنوں ”بابائے امن“ پاکستان میں ہیں لیکن اُن کا جناب پرویز خٹک سے رابطہ نہیں ہو رہا“۔
عُلماءکو گھسیٹنے کی نازیبا خواہش؟
وزیرِ اعلیٰ منتخب ہو کر میاں شہباز شریف عام جلسوں میں اعلان کِیا کرتے تھے کہ ” میں بہت جلد بیرونی مُلکوں سے لُوٹی ہُوئی دولت واپس لانے کے لئے آصف زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹوں گا“۔ جناب آصف زرداری اُس وقت بھی صدرِ پاکستان تھے۔ مسلم لیگ ن کے پنجابی قائدین اور کارکُن وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی بہادری کی تعریف کِیا کرتے تھے۔ کئی لوگ میاں صاحب کو مُغل بادشاہ اکبرِ اعظم کو للکارنے والے رائے عبداُللہ بھٹی المعرُوف ”دُلّا بھٹی“ سے تشبیہہ دِیا کرتے تھے۔
پھر حالات بدل گئے وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے برادرِ خورد کو سمجھایا کہ ”گھسیٹا گھسیٹی پروگرام“ بند کردو! ہمارے پہلے ہی دُشمن بہت زیادہ ہیں“۔ چنانچہ میاں شہبا زشریف نے خاموشی اختیار کرلی۔ جناب عمران خان اور اُن کے ساتھیوں کو نِتّ نئے دُشمن ”سہیڑنے“ میں بہت مزا آتا ہے۔ 30 جون کے دھرنے / جلسے سے خطاب کرتے ہُوئے جناب پرویز خٹک نے مولانا فضل اُلرحمن کا نام لے کر کہا کہ ” مَیں مولانا کو گھسیٹوں گا“۔ سوال یہ ہے کہ ”دھان پان اور ننھی سی جان پرویز خٹک اگر وزیرِ اعلیٰ نہ ہوتے تو کیا وہ بِیچ چوراہے کھڑے ہو کر مولانا فضل اُلرحمن جیسے معتبر عالم ِدِین اور سیاستدان کے بارے میں اِس طرح کی ”نازیبا خواہش“ کا اظہار کرسکتے تھے؟
جمعیت عُلماءاسلام(ف) کے ارکان اور دوسری مذہبی جماعتوں کے اکابرین نے جناب پرویز خٹک کے خوب لتّے لئے۔ قومی اسمبلی کے یکم دسمبر کے اجلاس میں جنابِ وزیرِ اعظم کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر نے جناب پرویز خٹک کی طرف سے مولانا فضل اُلرحمن کو ( سڑکوں پر) گھسیٹنے کے اعلان کی مذمّت کرتے ہُوئے کہا کہ ”آج تک کوئی مائی کا لعل پیدا ہی نہیں ہُوا جو عُلماءکو گھسیٹے“۔ کیپٹن ( ر) محمد صفدر کا تعلق بھی صوبہ پختونخوا سے ہے۔ وہ خود پختون ہیں یا نہیں؟ مجھے نہیں معلوم؟ لیکن جناب پرویز خٹک اور مولانا فضل اُلرحمن باقاعدہ اور مُستند پختون ہیں مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ کیا پختونوں میں سیاسی مخالفوں کو گھسیٹنے کی روایت ہے؟۔ خاص طور پر عُلماءکو!۔جہاں تک رولز آف بزنس کا تعلق ہے ¾کوئی بھی وزیر ِاعلیٰ کسی بھی مخالف کو سڑکوں پر قالین پر گھسیٹنے کا اختیار نہیں رکھتا۔
"Generation Gap !"
خبر ہے کہ لاہور میں حضرت داتا گنج بخش سیّد علی ہجویریؒ کے مزار پر حاضری دے کر سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سیّد قائم علی شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے اُن خبروں کی تردید کی کہ ”پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری اور اُن کے والد شریک چیئر مین جناب آصف علی زرداری میں اختلافات ہیں“۔ سیّد قائم علی شاہ کو وضاحت کے لئے لاہوراِس لئے آنا پڑا کہ 30 نومبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کا 47 واںیومِ تاسِیس لاہور میں ہُوا اور چیئر مین بلاول بھٹو لندن سے لاہور نہیں آ سکے تھے۔ باپ بیٹے میں اختلاف تو کوئی نہیں کہ جنابِ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی وراثت کو کوئی بھی متنازع نہیں بنانا چاہے گا۔ مسئلہ "Genration Gap" یعنی نسلی تفاوت کے خیالات اورطرزِ عمل کے اختلاف کا ہے۔ فارسی ضرب اُلمِثل کو اگر اُلٹ پُلٹ کردِیا جائے تو اُس کی شکل یوں بن جاتی ہے ۔ ”اگر پسر نتواند پِدر تمام کُند“۔
علّامہ القادری توبہ کرلیں!
پاکستان میں اِنقلاب لانے کی دوسری کوشش میں ناکام ہونے کے بعد کینیڈین ”شیخ اُسلام“ علّامہ طاہر القادری عارضہ قلب میں مُبتلا ہو گئے ہیں اور وہ علاج معالجہ کے لئے عازمِ امریکہ ہونے والے ہیں۔ اگست میں اسلام آباد میں علّامہ القادری نے اپنے عقیدت مندوں میں دھرنا دھاریوں سے خطاب کرتے کہا تھا کہ مَیں پاکستان کے ہر کرپٹ شخص کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دُوں گا¾ خواہ اُن کی تعداد لاکھوں میں ہی کیوں نہ ہو؟ علّامہ القادری وزیر اعظم نواز شریف ¾ اُن کے بھائی میاں شہباز شریف اور وفاق اور پنجاب کے بعض مسلم لیگی وزراءکو بھی پھانسی دِلوانے کی خواہش پوری کئے بغیر امریکہ جا رہے ہیں۔ زِندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں لیکن علّامہ صاحب کے سیاسی اتحادی اُن سے ملاقاتیں کر کے اُن کی درازی¿ عُمر کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔
جہاں تک علّامہ القادری کی عُمر کا تعلق ہے۔ جولائی 1993 ءمیں علّامہ صاحب کا ایک بیان قومی اخبارات میں شائع ہوا تھا جِس میں انہوں نے کہا تھا کہ ” مجھے خواب میں سرکارِ دو عالم نے بشارت دی تھی کہ میری عُمر بھی آپ کی عُمر کے مطابق 63 سال ہوگی“۔ میں نے تیسرے روز روزنامہ ”جنگ“ میں اپنے کالم میں علّامہ طاہر اُلقادری کو مخاطب کرتے ہُوئے لِکھا تھا کہ علّامہ صاحب! اگر واقعی آپ کو سرکارِ دو عالم نے 63 سال عُمر کی بشارت دی تھی تو آپ ہر وقت اپنے ساتھ مسلح محافظ کیوں رکھتے ہیں؟ مَیں نے اپنے اپنے کالموں میں علّامہ صاحب کو کئی بار یاد دلایا لیکن انہوں نے خاموشی اختیار کئے رکھی۔ 19 فروری2014 ءکو علّامہ طاہر اُلقادری 63 سال کے ہو گئے تھے۔ 19 فروری کو ہی ”نوائے وقت“ میں میرے کالم کا عنوان تھا۔ ”علّامہ طاہر القادری کے دِن پُورے ہو گئے“۔ آج علّامہ صاحب کی عمر 63 سال 9 ماہ اور 13 دِن ہو گئی ہے اور وہ ابھی تک زِندہ ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ انہوں نے سرکارِ دو عالم کی بشارت کے بارے میں غلط بیانی کی تھی۔ لہٰذا اُن کے لئے بہتر ہے کہ وہ روضہ¿ رسول پر حاضری دیں اور اپنے فعل پر معافی مانگیں اور توبہ بھی کر لیں۔