حب الوطنی کا وہی دعویٰ سچائی کی میزان پر پورا اترتا اور توقیر کی منزلت کا حقدار ہے کردار و عمل جس کی توثیق کرتے ہوں‘ مسلمانوں کے مابین صلح و آشتی کی راہ ہموار کرنے اور انہیں اخوت و بھائی چارہ کی اخلاص سے معطر لڑی میں پرونے کیلئے اقتدارسے ازخود دستبرداری سیدنا حسنؓ بن علیؓ کا ایسا تاریخ ساز کردار ہے جو انفرادی شان بھی رکھتا ہے اور ہر دور کے رہنماﺅں اور حکمرانوں کیلئے مشعل راہ بھی ہے۔ دور حاضر میں عوام دوستی کی عظیم مثال کہا جاتا ہے‘ ملائشیا کے اپوزیشن لیڈروں نے قائم کی تھی جب ملک کو اپنے پاﺅں پر کھڑ اکرنے کی کوشش کو سبوتاژ کرنے اور ملائشیا کو شدید اقتصادی و معاشی جھٹکا لگانے کیلئے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ایما پر ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اچانک سرمایہ نکال لیا اور ملک کی کرنسی رنگٹ جو 27 پاکستانی روپے کی سطح تقریباً 10 روپے کی سطح پر گر گئی‘ غیرملکی قرضوں کا حجم بڑھ گیا۔ اشیاءکی قیمتوں میں اچانک اضافہ ہو گیا۔ یہ اپوزیشن کیلئے حکومت کو گرانے کا سنہری موقع تھا‘ لیکن اپوزیشن رہنماﺅں نے اقتدار سے زیادہ عوام کے مفاد کو ترجیح دی اور معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے مہاتیر محمد کے انقلابی اقدامات کی بھرپور حمایت کی جو ان کی وطن اور اہل وطن سے قلبی و اخلاص پر مبنی محبت کا مظہر ہے جبکہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اس کے برعکس صورت نظر آتی ہے۔ اس پر تعجب نہ ہونا چاہئے کہ پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور میں ملک کی اقتصادی و سیاسی ترقی کے اقدامات ناپید‘ مہنگائی کا جن بے قابو مگر کسی سیاستدان کو عوام کی ہمدردی سے بے تاب و بے قرار ہوکر دھرنوں یا احتجاج کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ یہ مخالفت نہیں بلکہ اس تاریخ کا زندہ باب ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہیں‘ لیکن جب موجودہ حکومت نے ترقیاتی کام شروع کئے‘ بجلی کے بحران پر قابو پانے‘ گوادر سے وسطی ایشیا تک اقتصادی رابطوں کیلئے چین سے معاہدوں کی شکل میں عملی اقدامات‘ بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنے کی کوششیں کیں تو اس حکومت کے خاتمے کیلئے مہم جوئی کا آغاز کر دیا گیا۔ یہ ہرگز حکومت کی حمایت نہیں بلکہ یہ بھی زندہ تاریخ کا باب ہے۔ متذکرہ مہم جوئی کی بنیاد ”انقلاب“ اور ”تبدیلی“ کے نعرے کو بنایا گیا ہے۔ جو نوجوانوں کیلئے کشش کا باعث بنا ہے۔ ہرگز عمران خان کی مخالفت سے تعبیر نہ کیا جانا چاہئے بلکہ بصارتوں کی وسعت اور بصیرتوں کی گہرائی سے مشاہدہ کیا جانا چاہئے کہ عمران خان ”انقلاب اور تبدیلی“ کا پرچم اٹھا کر جس لشکر کے ساتھ سیاسی رزم گاہ میں اترے ہیں‘ ان کا ماضی قریب ان کے کس حد تک ”انقلابی“ ہونے کی تصدیق کر رہا ہے۔ امیرالمومنین حضرت عمر بنؓ خطاب نے زیتون کے تیل سے روٹی کھانا بند کر دی تھی۔ مدینہ منورہ میں قحط کے باعث زیتون کا تیل عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو گیا تھا۔ عمر بن عبدالعزیز نے شاہانہ زندگی سے منہ موڑ کر فقیرانہ زندگی اختیار کر لی تھی کہ سلطنت میں عام آدمی کے معیار زندگی سے بلند ہوا تو بارگاہ ایزدی میں پرسش نہ ہو جائے۔ خود عمران خان‘ شاہ محمود قریشی‘ جہانگیر ترین‘ اسد عمر‘ پرویز خٹک‘ خورشید محمود قصوری اور عبدالعلیم خان میں سے کون ہے جس کی زندگی کے شب و روز میں عام آدمی کی زندگی کی جھلک نمایاں ہوتی ہو۔ کیا اقتدار ملنے کے بعد عام آدمی کی ضرورت سے زائد سب ضرورت مندوں میں تقسیم کرکے یہ پانچ مرلے کے مکان میں رہ سکیں گے ۔ جس طرح انقلاب کی فتح یابی کے بعد ماوزے تنگ ایک چھوٹے سے مکان میں زندگی بسر کرتا ہے‘ جس طرح کامیاب انقلابی ہوچی منہ فرش پر سوتا رہا‘ اگر عمران خان کے انقلاب اور تبدیلی کا یہ رنگ نہیں ہے تو پھر یہ محض سیاسی نعرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ نظام کی تبدیلی کے نام پر چہروں کی تبدیلی کا ڈرامہ ہے۔ کیا یہ باعث تاسف نہ ہونا چاہئے کہ انقلاب اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والا عمران روایتی سیاست کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے جس سے نوجوانوں کی آنکھوں میں حقیقی تبدیلی اور انقلاب کے جاگنے والے خواب دھندلاتے جا رہے ہیں۔ تازہ ترین مایوس کن قدم (ن) لیگ کے ایم این اے چودھری اعجاز کی تحریک انصاف میں شمولیت ہے۔ عمران خان کی سرشاری اور وارفتگی کے عالم میں چودھری اعجاز کے گھر پہنچ جانا سیاسی متانت سے زیادہ نوازشریف کے نقصان پر خوشی کا مظاہرہ ہے۔ کیا عمران نے غور کیا اگر جعلی ڈگری کا فیصلہ چودھری اعجاز کے خلاف ہو گیا یا فراڈ کا کیس درج کرنے والی کویت کی حکومت نے اسے انٹرپول کے ذریعہ طلب کر لیا تو یہ ساری بدنامی اور رسوائی کس کے آنگن میں اترے گی۔ اس لحاظ سے یہ اس کیلئے کتنا سودمند سیاسی سودا ہے۔ جہاں تک چودھری اعجاز کے تحریک انصاف میں شمولیت پر (ن) لیگ کے رہنماﺅں کے طعنہ کا تعلق ہے کہ ایک اور گندا انڈا عمران کی ٹوکری میں آگیا تو ان کیلئے باعث شرمندگی ہونا چاہئے کہ حضور یہ ”گندا انڈا“ آپ ہی کی ٹوکری کی زینت رہا ہے اور بہتر ہے آئندہ کسی شرمندگی سے بچنے کیلئے ٹوکری کو کھنگال لیا جائے۔
بھکر کے حلقہ پی پی 48 میں انعام اللہ نیازی 580 ووٹوں کی اکثریت سے جیت گیا ہے۔ ان کے قریبی حریف احمد اکبر نوانی بھی آزاد امیدوار تھے مگردونوں کا تعلق کسی حد تک مسلم لیگ سے ہے۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے کوئی امیدوار نامزد نہیں کیا۔ میرے بھکر کے دوستوں کے مطابق تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے حامیوں نے احمد اکبر نوانی کی حمایت کی جبکہ مقامی سطح پر مسلم لیگ میں تقسیم دیکھی گئی مگر اکثریت نے انعام اللہ نیازی کی حمایت کی۔ جمعیت علماءاسلام (ف) بھکر میں خاصا سیاسی اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ اس کے حامیوں کی حمایت انعام اللہ نیازی کے پلڑے میں گئی جبکہ نوانیوں سے سیاسی پرخاش رکھنے والوں نے بھی غیرعلانیہ انعام اللہ کو سپورٹ کیا۔ یہ نشست انعام اللہ نیازی کے چھوٹے بھائی نجیب اللہ نیازی کی وفات سے خالی ہوئی تھی جو اسم با مسمیٰ ایک نجیب انسان تھا ۔ بہت سے یتیم اور بیواﺅں کا سہارا تھا‘ ایک رائے ہے انعام اللہ کی جیت اس کی نیکیوں کا نیازی خاندان کیلئے انعام ہے۔
اس ضمنی الیکشن کا سب سے دلچسپ اور قابل غور پہلو عوامی تحریک کے باقاعدہ نامزد امیدوار غلام عباس کہاوڑ کا تیسرے نمبر پر آنا ہے حالانکہ طاہرالقادری ان کی انتخابی مہم چلانے کیلئے بہ نفس نفیس بھکر گئے ۔ تین دن مختلف انتخابی حلقوں میں خطاب کیا اور رائے دہندگان سے کہا کہ وہ غلام عباس کہاوڑ کو ووٹ دیتے وقت ان کا چہرہ سامنے رکھیں‘ لیکن یہ چہرہ ووٹروں کیلئے باعث کشش نہ بن سکا اور اس طرح پورے ملک میں واحد صوبائی نشست کے ساتھ عوامی تحریک پارلیمانی پارٹی بنتے بنتے رہ گئی۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ بھکر کے ووٹروں نے ان کے ”نظام بدلیں گے“ کے نعرے کو پذیرائی نہیں بخشی۔ یہ ڈاکٹر طاہرالقادری کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔