زندگی اور موت

Dec 03, 2015

معین باری ....فیصل آباد

مسلمان کا ایمان ہے کہ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ہمیں زندہ کرےگا تمام مذاہب اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان نے زندہ ہونا ہے۔ نیوکلیئر سائنس دان سلطان بشیر محمود صاحب سابق ڈائریکٹر جنرل پاک اٹامک انرجی کمشن لکھتے ہیں ”قیامت اور حیات بعد الموت صرف ایک عقیدہ ہی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ حضرت آدمؑ سے لیکر خاتم النبین تک اللہ تعالیٰ کے تمام نبی اور رسول اس حقیقت کی تعلیم دیتے رہے ہیں اور اب جدید سائنس خود اس حقیقت کے ایک بڑے گواہ کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔ (قیامت اور حیات بعد الموت)

قرآنی فرمودات ملاحظہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ پہلے خلق کو بناتا ہے۔ پھر دوبارہ بنائے گا پھر اسکی طرف لوٹو گے (سورة الروم آیت 11) 2۔ بیشک وہ ابتداءکرتا ہے اور پھر سے پلٹاتا ہے (سورة البروج) 3۔ وہی ہے جو اول بار مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر سے دوبارہ پیدا کرےگا اور یہ تو اس پر بہت ہی آسان ہے۔ 4۔ جب تم بالکل ریزہ ریزہ ہو جاﺅ گے تو پھر سے ایک نئی پیدائش میں آﺅ گے (سورة سبا) 5۔ جب تم مرکز صرف خاک اور ہڈی رہ جاﺅ گے تو تم پھر زندہ کئے جاﺅ گے (سورة المنون 23)۔
شہرت یافتہ سائنس دانوں اور ڈاکٹروں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے انسانی روحوں کو دیکھا اور تصاویر بھی لیں۔ 1۔ اسطرح کی سب سے پہلی کوشش امریکہ میں مسٹر ہالینڈ نے کی۔ اس نے 16 انچ عدسہ والا کیمرہ بنایا۔ اس نے دیکھا کہ مردہ کے عین اوپر اسکی روح جسکی شکل اس جیسی تھی۔ روح کا جسم کےساتھ رابطہ صرف ایک رسی (Chord) کے ذریعہ تھا۔ روح تھکی تھکی آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہی تھی۔ اس منظر کو دیکھ کر میں بے ہوش ہو گیا۔
2۔ 1852ءایک صاحب ڈیوس نے اپنی کتاب Death of the life میں لکھا کہ اس نے بھی اسی طرح مردہ عورت پر اسکی روح دیکھی وہ جسم کی نسبت کئی درجہ زیادہ خوبصورت تھی۔ آخر وہ کھلے دروازے سے نکل گئی۔
3۔ 1939ءامریکہ میں سائنسدان ہرورڈ کارنگس نے کیمروں کی مدد سے روحوں کی فوٹو گرافی کی اور اپنے رزلٹ Labortery Phenomena کو بھیجے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک روشنی کا عجیب گیند مردہ جسم سے نکلتا دیکھا گیا ہے۔ اس پر مزید تحقیق کا کارینگ لیبارٹری واشنگٹن ڈی سی میں ہوئی۔ انہوں نے بھی ایک روشنی کا گیند نکلتے رپورٹ کیا۔ تفصیل فزیکل ریوو میں چھپی۔
انکے بعد بھی کئی لوگوں نے اسطرح کی فوٹو گرافی کی ہے اور دعویٰ کیا کہ مرنے والے کے جسم سے کوئی چیز ضرور نکلتی ہے۔ بعض نے اسے Psychic فورس کا نام دیا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں روحوں کے متعلق اس نکتہ پر بھی تحقیق ہوئی کہ جو چیز نکلتی ہے اسکا کچھ وزن ہوتا ہے شاید ایک یا آدھا اونس۔ داتا گنج بخش اپنی کتاب کشف المحجوب میں لکھتے ہیں کہ ”روح کا اپنا جسم ہوتا ہے جو پانی کے بھاپ سے زیادہ کثیف ہوتا ہے“۔
مولانا روم لکھتے ہیں کہ ”انسان کی اگلی منزل فرشتہ بننا ہے“۔ ہو سکتا ہے یہ وہ انسان ہوںجنہوں نے دنیا میںنیک اعمال کئے۔ دوسروں کے کام آئے اور حق و صداقت پر قائم رہے۔ نہ کہ وہ لوگ جو لوٹ مار، دہشتگردی، بھتہ خوری، کرپشن، مار دھاڑ اور بدکاریوں میں مصروف رہے ایسی روحوں کو تو آئندہ زندگیوں میں سزا ملتی ہے جس کا ذکر تقریباً ہر مذہبی کتاب میں ہے۔
راقم نے بھی ایسے مناظر دیکھے ہر کوئی روحوں کو نہیں بلا سکتا۔ قدرت نے یہ شکتی خاص خاص بندوں کو دی ہے۔ دو ایسی مجالس میںشامل ہونےکا اتفاق ہوا جب روح بلائی گئی تو شیشے کا گلاس گھومنے لگا اور تحریر کئے الفاظ سے فقرات بنتے گئے۔ بعض حقیقتوں کا انکشاف ہوا۔ ایک خاتون کی روح بن بلائے آ گئی جس نے 70 سال پیشتر خودکشی کی تھی۔ مرحومہ ہمارے واقف کار کی بیوی تھی۔ اسکی داستان بہت ہی غمناک تھی۔ اسکے آخری الفاظ تھے۔ ”دیکھو اب بھی میرے منہ سے خون جاری ہے“۔
کاش کوئی مجذوب عالم محترمہ بینظیر بھٹو کی روح بلا کر انکا احوال پوچھے جو اپنے وارثوں اور پارٹی لیڈروں کے پاس آ جا کر تھک چکی ہونگی۔ جو اپنے قاتلوں کو سزا دلوانے عدالت میں بھی گئی ہونگی۔ درویشوں کی رائے ہے کہ بے گناہ مقتولوں کی روحیں اس دنیا میں اس وقت بھٹکتی رہتی ہیں جب تک انہیں انصاف نہیں مل جاتا۔ یورپی رسالوں میں ایسے واقعات پڑھنے کا اتفاق ہوا جہاں مقتول کی روح نے قاتلوں کو گرفتار کروایا۔
بعض محققین کی کتابوں میں لکھا ہے کہ قریبی دوست یا رشتہ دار جو وفات پا چکا ہو بہت یاد آئے تو اس کی روح تمہارے قریب ہی ہوتی ہے۔ کتابوں میں ایسی فوٹوز بھی دیکھیں۔
فلائیٹ لیفٹیننٹ حسیب جو ائیر کریش میں جاں بحق ہوا۔ اسکی موت کا منظر میں نے 48 گھنٹے پیشتر خواب میں دیکھا۔ یہ اطلاع مجھے ملک برکت علی نے رات خواب میں دی۔ ملک صاحب اگریکلچر یونیورسٹی میں پروفیسر تھے جو آج سے 50 برس قبل فوت ہوئے۔ وقت کے بہت بڑے درویش تھے۔ حسیب میرا بھانجا تھا۔ مئی 2015ءکے Reader Digest میں مضمون The Mystery of Past lives شائع ہوا۔ جس میں بعض محققین نے انسانی روح کے متعلق دلچسپ انکشافات کئے ہیں۔ ملاحظہ ہو 1۔ ایک دو سال سے کم عمر بچے نے باپ سے مسکراتے ہوئے کہا ”میں تمہارے پوتڑے بدلتا رہا ہوں“۔ باپ اسکی باتوں کو نظر انداز کرتا رہا۔ جب بچہ چند ماہ تک ایسی باتیں کرتا رہا Ron اور اسکی بیوی Cathy سوچنے پر مجبور ہوئے اور بچے کی باتوں سے محسوس کیا کہ وہ اپنے دادا Sam کی طرف اشارہ کر رہا ہے یہ 18 ماہ کا بچہ پوری بات کر سکتا تھا۔ والدین نے پوچھا کہ دادا Sam تمہارے بہن بھائی تھے۔ اس نے جواب دیا اسکی ایک بہن تھی جو مچھلی بن گئی۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ دادا Sam کی بہن تھی جسے غنڈوں نے قتل کر کے سمندر میں پھینک دیا تھا۔مصنف Stacy Horn لکھا ہے امریکہ میں آج 75 ملین لوگ جن کا تعلق مختلف مذاہب سے ہے انکو یقین ہے کہ موت کے بعد زندگی ہے۔ وہ زندگی کس شکل و صورت میں ہو گی یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔ لکھا ہے Dr Tucker بچوں کا Psychiatrist تھا۔ اس نے اس موضوع پر مزید کھوج لگانے کےلئے UAE ٹیم بنائی۔ ٹیم نے دنیا ممالک سے ایسے کیسز پر تشخیص کے بعد نتیجہ برآمد کیا کہ ان میں سے 2500 بچوں کو سابق زندگی کے واقعات یاد تھے۔
امریکہ میں TV پروڈیوسرز نے Tuckar کی ڈیوٹی ایک 4 سال کے بچے پر لگا دی جس کا Louisiaan تھا۔ وہ کہتا میں ورلڈ وار میں پائلٹ تھا جسے جاپانیوں نے IWO JIMA پر مارا گرایا۔ بچے کے والدین اسے رات کو چیخ مارتے بیدار ہوتے اور شور مچاتے سنتے ”پلین کریش ہو گیا۔ آگ لگ گئی۔ اس بچے کو اس جہاز کے تمام حصوں پرزوں سے واقفیت تھی۔ جو اس عمر کے بچے کو نہیں ہو سکتی۔ بچے نے کہا کہ اس دور میں اس کا نام Jawes تھا۔ تشخیص کرنے والوں نے اس کے بیان کو درست قرار دیا۔ بچے کے والدین نے کتاب Soul Survivor لکھی (ریڈر ڈائجسٹ) مسٹر Tucker کی کتاب Jurney Through Reaven نظر سے گزری لکھا تھا کہ انسان جب سو جاتا ہے اسکی روح Cosmos میں سیرو سیاحت کےلئے کبھی کبھار پرواز کر جاتی ہے۔ اس پر Time Space کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ بعض روحیں تو اپنی نئی قیام گاہیں ڈھونڈنے کےلئے مختلف سیاروں میں آباد شہروں میں بھی چکر لگا آتی ہیں۔
بلھیا اسی نہیں مرنا .... گور پیا کوئی ہو

مزیدخبریں