معذوروں کی بحالی ،حکومتی ترجیحات ؟

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 14 اکتوبر1992 کو منظور ہونے والی قرارداد نمبر 47/3 کے تحت ہر سال 3 دسمبر کومعذوروں کاعالمی دن منایا جاتا ہے ۔ اس دن کا مقصد معذور افراد کے حقوق کے بارے میں لوگوں کو شعور وآگاہی دینا ،حکومتی سطع پر ان کو برابری کی بنیاد پر سہولیات کی فراہمی کی ٹھوس منصوبہ بندی کرنا ہے۔اس قراردادمیں اقوام عالم سے اپیل کی گئی کہ ہماری دنیا میں معذور باشندے،رشتہ دار،ہم وطن اور پڑوسی اس بات کا بھرپور حق رکھتے ہیں کہ انہیں بہتر زندگی گزارنے کا حق دیا جائے ۔1982 ء میں اقوام متحدہ نے معذور افرادکے حقوق کو بنیادی انسانی حقوق کا درجہ دیتے ہوئے تمام ممبر ممالک سے مطالبہ کیا کہ معذور افراد کو صحت ،تعلیم اور روزگار میں برابر کے مواقع فراہم کئیے جائیں ۔علاوہ ازیں اسی سال کو معذوروں کا عالمی سال قرار دیا گیا ۔ اقوام متحدہ کے کنونشن کیمطابق وہ افراد جنہیں طویل المعیاد جسمانی وذہنی کمزوری کا سامنا ہو،جسکی وجہ سے انہیں معاشرے میں اپنا مناسب کردار ادا کرنے میں رکاوٹ پیش آتی ہو،ایسے افراد کو معذور کہا جاسکتا ہے ۔ان کوذہنی ،جسمانی،پیدائشی اور حادثاتی ،ان چار شعبوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔WHO ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 650 ملین افراد اپاہج ہیں ،65 سے 85 فیصد معذور بچے افریقی ممالک میں سکول جانے سے محروم ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں کل آبادی کا 7 فیصد معذور افراد پر مشتمل ہے جبکہ 1998 کی مردم شماری کے مطابق 2.4 فیصد آبادی معذور ہے مگر گذشتہ 18 سال سے مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے مستند اعدادوشمار کسی سرکاری ادارے کے پاس میسر نہیں ہیں ۔لیکن پھر بھی ایک اندازے کے مطابق معذور افراد کی تعداد پونے دو کروڑ تک پہنچ چکی ہے ۔وطن عزیز میں معذور افراد کی کسمپرسی کی وجہ سرکاری سطح پر ان کیلئے سہولیات کا نہ ہونا ہے۔انسانی حقوق کا عالمی قانون خصوصی افراد کیلئے تمام تر بنیادی انسانی حقوق کی گارنٹی دیتا ہے جبکہ ہمارے ملکی قانون میں بھی معذور افراد کیلئے خصوصی مراعات رکھی گئی ہیں ۔قومی بحالی وروزگار معذوران ایکٹ 1981 ء میں معذور افراد کیلئے نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ،علاج کی مفت سہولتیں اور انکے اعضاء کی بحالی کے اقدامات کو شامل کیا گیا ہے ۔قومی پالیسی 2007 ء میں معذوروں کے حقوق اور حثیت کا تعین بھی کیا گیا ہے ۔ان قوانین کے علاوہ بھی حکومت مختلف مواقعوں پرخصوصی اعلانات اور بلند وبانگ دعوے کرتی رہتی ہے مگر عملدرآمد کہیں بھی نظر نہیں آتا ۔صورتحال کا بغور جائزہ لیں توخصوصی افراد کو سرکاری اور نجی دفاتر،پبلک ٹرانسپورٹ،شاپنگ سنٹرز، ریلوے اسٹیشنوں،بس اسٹینڈزاور ہسپتالوں میں رسائی باآسانی ممکن نہیں ہے ۔جگہ جگہ معذور افراد کو اذیت کا احساس ہوتا ہے اور ان کی اکثریت گھروں میں محصور ہوکر رہ جاتی ہے ،مگر بدقسمتی سے معذوروں کی بحالی حکومتی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتی ۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت معذوروں کیلئے مخصوص کوٹہ کہ ہزاروں نشستیں خالی پڑی ہیں اور ان پر بھرتیاں ہی نہیں کی گئیں جبکہ نصف سے زائد بھرتیاں سفارشی ہیں اور ان پر وہ لوگ بھرتی کئے گے ہیں جن کا اس کوٹہ پر کوئی حق بھی نہیں ہے ۔کچھ ماہ قبل اپنے حقوق کیلئے نابینا افراد نے لاہور میں احتجاج بھی کیا تھا جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری حکومت معذروں کو حقوق دینے میں کتنی سنجیدہ ہے ۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 9 اور 14 کیمطابق بھی بنیادی سہولیات معذوروں کا حق ہے لیکن انہیں یہ سہولیات فراہم نہیں کی جارہی ہیں ۔چند سال قبل عالمی ادارے کی ایک رپورٹ کے ہوش شربا انکشاف کے مطابق پاکستان میں نوے فیصد معذور افراد بیروزگار ہیں جنہیں مناسب روزگار و دیگر سہولیات دینے کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں ۔ایک سروے کے مطابق4 سال سے15 کی عمر کے 54لاکھ بچے معذور ی کی زندگی گزار رہے ہیں جنہیں معیاری تعلیم کی سہولت نہیں مل رہی ۔حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کے حقوق انسانی ڈیکلریشن سے لیکر ملینیم ڈیویلپمنٹ گولزتک تمام معاہدوں میں پوری دنیا کو یقین دلایا ہے کہ ہم اپنے تمام بچوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے وہ معذور ہیں یا نہیں ۔معیاری تعلیم ہر عام بچے کی طرح معذور بچوں کا بھی حق ہے لیکن شاید ہی کسی سکول ،کالج اور یونیورسٹی نے اس کا اہتمام کرنے کیلئے اپنے وسائل کا کچھ حصہ ان کو تعلیم دینے اور ہنر دینے پر صرف کیا ہو ،تعلیم وتربیت کے ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں ۔لمحہ فکریہ یہ بھی ہے خصوصی افراد کیلئے کام کرنیوالی این جی اوز جگہ جگہ سمینارز،کانفرنسز کرواتی ہیں جس میں لمبی لمبی تقرریں ہوتی ہیں مگر یہ کانفرنسز گفتند، نشستند، برخاستند ثابت ہوتی ہیں ۔ان دعووں اور وعدوں پر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ معذور افراد کو معاشرے کا حصہ نہیں سمجھا جا تا ۔ان افراد کو اللہ پاک نے اگر زندگی میں ایک آزمائش دی ہے تو بہت ساری صلاحتیں و قابلیت بھی دی ہوتی ہے ۔یہ افراد بھی کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے معاشرے میں ان افراد کو اپنا حصہ سمجھا جائے انکی حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی کی جائے ۔ہمارے سامنے بہت سی مثالیں موجودہیں کہ معذور افراد نے تعلیمی میدان میں بہت سی پوزیشنز لی ہیں ،بہت سے لوگوں نے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہیں جو عام افراد کے بس کا روگ نہیں ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن