نوازشریف اور منتخب امریکی صدر کے درمیان گفتگو مثبت رہی:ٹرمپ ٹرانزیشن ٹیم

واشنگٹن (نوائے وقت رپورٹ+ نیٹ نیوز) ٹرمپ ٹرانزیشن ٹیم نے کہا ہے کہ نومنتخب صدر کی وزیراعظم نوازشریف سے مفید اور مثبت گفتگو ہوئی۔ دونوں رہنمائوں میں مستقبل میں پاکستان‘ امریکہ مضبوط تعلقات کار بنانے کے معاملے پر بات چیت ہوئی۔ ٹرانزیشن ٹیم نے ٹرمپ کی غیرملکی رہنمائوں سے بات چیت کی تفصیل جاری کر دی ہے جس کے مطابق ٹرمپ نے کہا کہ نوازشریف سے پائیدار و مضبوط ذاتی تعلقات کے منتظر ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم نے وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ہونے والی انکی ٹیلیفونک گفتگو کا اپنا ورژن جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ دونوں رہنماؤں کے درمیان 'مثبت گفتگو' ہوئی لیکن پاکستانی متن میں بہت 'خوشنما زبان' استعمال کی گئی ہے۔ جاری کئے گئے گفتگو کے متن کے مطابق، ٹرمپ اور وزیراعظم نواز شریف کی اس حوالے سے مثبت گفتگو ہوئی کہ کس طرح امریکہ اور پاکستان مستقبل میں مضبوط تعلقات استوار کریں گے'۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ مضبوط اور دیرپا ذاتی تعلقات استوار کرنے کے خواہش مند ہیں'۔ ٹرمپ کی ٹیم کے ایک مشیر کے مطابق ٹیلیفونک گفتگو کے پاکستانی متن میں 'نومنتخب صدر کی بات چیت کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا'۔ امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ کی ٹیم کے ایک اور رکن کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل میں 'کردار' ادا کرنے کے حوالے سے ٹرمپ کی پیشکش کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ بی بی سی کے مطابق رپورٹس میں کسی مشیر کا نام لئے بغیر کہا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ایسی باتیں ٹرمپ سے منسوب کی گئیں جو کہنا ان کا مقصد نہ تھا سب سے تنقیدی ردعمل وائٹ ہاؤس کے سابق پریس سیکرٹری اری فلائیسر کی جانب سے آیا، ان کا کہنا تھا، 'پاکستانی حکومت کے لیے نومنتخب صدر کی ٹیلیفونگ گفتگو کو جاری کرنا انتہائی نامناسب تھا'۔ اری فلائیسر، جو اس سے قبل سابق ری پبلکن صدر جارج ڈبلیو بش کی وائٹ ہاؤس ٹیم کا حصہ اور ٹرمپ کی ٹیم سے بھی قریب ہیں، کا کہنا تھا کہ کوئی بھی حکومت ایسے پریس ریلیز جاری نہیں کرتی۔ انھوں نے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، 'ہم نے کبھی اس حوالے سے پریس ریلیز جاری نہیں کیا کہ ایک غیر ملکی رہنما نے (سابق صدر) جارج ڈبلیو بش سے کیا بات کی، ہم صرف یہ کہتے تھے کہ جارج بش نے کیا کہا، لیکن کسی اور کی گفتگو کو ریلیز کرنے کے حوالے سے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، کیونکہ میں پاکستان یا کسی بھی دوسری قوم کا ترجمان نہیں ہوں'۔ 'اس طرح انھوں (پاکستان) نے سفارتی پروٹوکول اور روایات کی مکمل طور پر خلاف ورزی کی اگر وہ میرے ساتھ ایسا کرتے تو میں ابھی فون پر ان کے پریس سیکریٹری کو باتیں سنا رہا ہوتا، ہمارا سفیر ان کے سفیر کے ساتھ فون پر بات کر رہا ہوتا، اوپر سے نیچے تک یہی سب کچھ ہورہا ہوتا'۔ دوسری جانب امریکی میڈیا پر بھی پاکستان کی جانب سے ٹیلیفونک گفتگو کا متن جاری کرنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے نامناسب قرار دیا گیا ہے۔ سی این این کا کہنا تھا، 'عالمی رہنماؤں کی فون کالز کو عموماً بہت محتاط انداز میں تحریر کیا جاتا ہے تاکہ متعلقہ ردعمل سے بچا سکے، جس طرح ٹرمپ کی ٹیم کی جانب سے ردعمل سامنے آیا ہے'۔ واشنگٹن پوسٹ نے پاکستانی متن کو 'حیرت انگیز تحریر' قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'اس میں مکمل طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی گفتگو کو ہی بیان کیا گیا'۔ نیویارک ٹائمز نے اسے عجیب گفتگو' قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'اگرچہ ٹرمپ کی ٹیم نے مواد کی تصدیق نہیں کی تاہم انھوں نے ٹیلیفون کال کو تسلیم کیا ہے'۔ نئی دہلی سے نیٹ نیوز کے مطابق وزیراعظم نوازشریف اور امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیلیفونگ گفتگو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ ٹرمپ تصفیہ طلب مسائل میں سب سے ’اہم مسئلے کے حل‘ کے لئے پاکستان کی مدد کریں گے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت مذکورہ فون کال کی رپورٹس سے آگاہ ہے۔ ہم اس بات کے منتظر ہیں کہ نومنتخب صدر تصفیہ طلب مسائل میں سب سے اہم مسئلے یعنی دہشت گردی کے حل کے لئے پاکستان کی مدد کریں گے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم نوازشریف اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو کے دوران نومنتخب صدر نے کہا تھا کہ وہ کسی بھی قسم کے مسائل سے نمٹنے میں پاکستان کی ہر طرح کی مدد کرنے اور کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ بی بی سی کے مطابق ٹرمپ کے عملے کی جانب سے نواز شریف کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی وضاحت اور گفتگو کا مختلف متعن سامنے آنے کے بعد پاکستان نے خاموشی اختیار کی ہے۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریہ نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا ’ہمارے پاس ان (ٹرمپ کے انتقال اقتدار کے عملے ) کی جانب سے کوئی بیان نہیں آیا اس لئے میں اس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔‘ امریکی میڈیا اور سابق امریکی حکومتی اہلکاروں نے پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے سفارتی آداب کی خلاف وزری قرار دیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے ’وہ کسی اور حکومتی ادارے کی کارروائی سے متعلق تبصرہ نہیں کر سکتے۔‘ ’جب بھی کوئی نیا صدر آتا ہے تو روایت کے مطابق دنیا کے تمام سربراہوں اسے کال کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔‘ ٹرمپ کی گفتگو پر تنقید کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے انتقال اقتدار کے عملے نے اپنے رد عمل میں بیان جاری کیا۔ ٹیم نے دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا اپنا مختلف متن جاری کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ کی ٹیم نے کہا ہے کہ ’منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستانی وزیر اعظم کے درمیان موثر بات چیت ہوئی ہے جس میں باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے پر بات کی گئی۔‘ رپورٹس میں بغیر کسی مشیر کا نام لیے کہا گیا ہے کہ ’پاکستان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ایسی باتیں ڈونلڈ ٹرمپ سے منصوب کی گئی جو کہنا ان کا مقصد نہیں تھا۔‘ترجمان نفس زکریا کا کہنا تھا ڈونلڈ ٹرمپ نے خطے میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے تعلقات بڑھانے کی بات کی۔ انہوں نے پاکستان آنے کی خواہش ظاہر کی، ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے خطے کے تنازعات کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کی بات بھی کی اور ظاہر ہے ان کا واضح اشارہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی طرف تھا۔
واشنگٹن( آن لائن+ صباح نیوز ) امریکہ نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات خاصے پیچیدہ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر اوباما خواہش کے باوجود پاکستان کا دورہ نہیں کرسکے۔ ٹرمپ نوازبات چیت سے متعلق اعلامیے کی درستگی اور لہجے پر ردعمل نہیں دے سکتے ۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان جوش ارنیسٹ نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ٹرمپ نوازبات چیت سے متعلق اعلامیے کی درستگی اور لہجے پرردعمل نہیں دے سکتے۔ اس معاملے کی وضاحت کیلئے نومنتخب صدر ٹرمپ کی ٹیم سے بات کی جائے۔ جوش ارنیسٹ کا کہنا تھا کہ تمام صدورمحکمہ خارجہ کے اہلکاروں سے مشورہ لیتے رہے ہیں اور عہدہ سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ بھی ایسا کریں گے۔ایک سوال کے جواب میں ترجمان کا کہنا تھا کہ صدراوباما نے ایک مرتبہ پاکستان جانیکی خواہش ظاہرکی تھی،تاہم کئی وجوہات کے سبب اوباما خواہش پوری نہ کر سکے۔ گزشتہ 8 سال میں خصوصاً القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں ہلاکت کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات ناہموار رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا صدر اوباما پاکستان کا دورہ کرنا چاہتے تھے لیکن دونوں ملکوں کے پیچیدہ تعلقات کی وجہ سے ایسا نہ کر پائے۔جوش ارنسٹ نے کہا نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بہت سے ملکوں کا دورہ کرنے کے بارے میں سوچیں گے اور یقینی طورپران ممالک میں پاکستان بھی شامل ہوگا۔ وہ بیرونی دورہ پر گئے تو پاکستان بھی جائینگے۔ امریکی صدر کے کسی بھی ملک کے دورے سے اس ملک کے عوام کو ٹھوس پیغام ملتا ہے۔ ترجمان وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیراعظم نوازشریف کی گفتگو سے متعلق حکومت پاکستان کا اعلامیہ پڑھا ہے لیکن اس کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتا۔ٹرمپ اور نوازشریف کی ٹیلیفون پر گفتگو سے متعلق ردعمل نہیں دے سکتے۔ اس حوالے سے نومنتخب صدر کی ٹیم سے بات کی جائے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...