جی ہاں ہمیں مان لینا چاہیے کہ ہم بطور قوم سیاسی اور مذہبی ہیجان کا شکار ہیں۔ ہیجان خیز رویوں کارد عمل بھی ہیجان انگیز ہوتا ہے۔ قوم کو پہلے سیاسی اعتبار سے ہیجانی کیفیت سے گزرنا پڑا اور اب مذہبی طور پر ہمیں جس کیفیت سے گزرنا پڑ رہا ہے اس میں دلیل اور مباحثے کی گنجائش نہیں بچی۔ یہ وہ کیفیت ہوتی ہے کہ جس میں بقول خورشید ندیم کے معاشرتی سطح پر تقسیم کا عمل گہرا ہو جاتا ہے اور نفرت بڑھنے لگتی ہے۔ "عقل اور ہیجان آمنے سامنے " کے عنوان سے ایک سال پہلے کی تحریر میں خورشید ندیم لکھتے ہیں : "پیری مریدی اور فرقہ واریت کا سارا کاروبار اس وجہ سے زندہ ہے کہ مرید اور کارکن نہ سوچتا ہے اور نہ کچھ ماننے پر آمادہ ہے۔پیر صاحب ہیجان برپا کریں تو مرید جان دینے نکل پڑتا ہے۔"
یہ بات تو انفرادی ہیجان کی تھی۔ مگر آج صوتحال یہ ہے کہ ہمارے ادارے بھی تیزی سے ہیجان کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس ہیجانی کیفیت کی ایک جھلک کچھ دنوں پہلے انصاف کے ایوانوں میں دیکھنے کو ملی۔ پہلے اسلام آباد کے معزز جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فوج کی سیاست میں مداخلت سے متعلق بھری عدالت میں اور پھر اپنے حکم میں وہ باتیں کہہ دیں جو سیاست دان، صحافی اور تجزیہ کار حضرات ڈھکے چھپے الفاظ میں کہتے تھے۔
معزز جج نے اس پر بھی اکتفا نہ کیا بلکہ اپنے حکم نامے میں بھی حالیہ مذہبی دھرنے کے حوالے سے فوج اور حکومت کے کردار پر آئینی سوال اٹھا دیے۔ یہ وہ باتیں تھیں جو شاید اس انداز میں بڑے بڑے تجزیہ کار اور سیاست دان بھی محض سرگوشیوں میں کرتے تھے۔ عدالت عالیہ میں یہ ریمارکس اور حکم نامہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے اور یہ اس ہیجان خیز صورتحال کا نتیجہ ہے جو بظاہر خود حکومت اور اسکے اداروں کی پیدا کردہ ہے۔ یہ معاملہ عدالت عالیہ تک نہیں رہا اور کچھ دنوں بعد سپریم کورٹ میں بھی دھرنے کے معاملے پر ایک بھرپور سماعت ہوئی جس میں معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وہ کھری باتیں کیں جس کی ہمت ہمارے حکمرانوں کو بھی نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے والی سماعت میں عدالت نے آئی ایس آئی اور آئی بی کی رپورٹوں کو مسترد کرتے ہوئے دوبارہ رپورٹیں طلب کی تھیں اور ہدایت کی تھی کہ خفیہ اداروں کے اعلیٰ افسر یہ رپورٹ پیش کرینگے۔ مگر آخری سماعت میں تو آئی ایس آئی کے وہ صاحب بھی پیش نہ ہوئے جو اس سے پہلے آئے تھے۔ وزارت دفاع کے ایک افسر نے کہا کہ آئی ایس آئی ان کے ماتحت ہے اور وہ حاضر ہیں۔ بہت سوں کے لیے یہ بھی ایک خبر تھی کہ آئی ایس آئی وزارت دفاع کے ماتحت ہے۔ بہرحال معزز جج نے کچھ سوچ کر اپنے ریمارکس کا رخ میڈیا کی طرف کر دیا۔
سامنے کھڑے سرکاری وکلاء اس طرح ہاں میں ہاں اور سر ہلا رہے تھے جیسے مولانا خادم رضوی کے مریدین۔ میڈیا کو نوٹس دیے بغیر ٹی وی چینلوں کے عدالت میں ڈیوٹی پر موجود نمائندوں کو غیر ضروری طور پر مخاطب کر کے سوالات اٹھائے گئے۔ ریمارکس میں طاقت ور اداروں پر تنقید کرنے کے بعد حکم ناموں میں محض میڈیا پر انصاف کا ہتھوڑا چلانا مسئلے کا حل نہیں بلکہ مزید مسائل کی وجہ ہے۔ میڈیا کے متعلق ایسے ریمارکس سے صحافیوں اور میڈیا پر حملہ کرنے والوں اور انکے خلاف شدت پسندی پر اکسانے والوں کی مزید حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ایسے ریمارکس تو آج سے پہلے جنرل مشرف کے دور کی پی سی او عدلیہ بھی دیتی رہی۔ سب جانتے ہیں کہ ایسے دھرنوں کے پیچھے کون ہے۔ اگر ایسے سازشیوں سے متعلق ریمارکس دئیے جاتے ہیں تو انہیں طلب کرنے کے احکامات بھی دینے ہوں گے۔ پیمرا جیسے متعلقہ اداروں کو با اختیار بنانا اور آزادی رائے ، معلومات تک رسائی اور منصفانہ ٹرائل جیسے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ اعلیٰ ترین عدالت کی ترجیح ہونی چاہیے۔ پہلے ہی میڈیا کے خلاف بھی تمام الزامات بغیر کسی دباؤ یا مداخلت کے متعلقہ فورمز پر آنے چاہییں۔اعلیٰ ترین عدالت میں اتنے جارحانہ ریمارکس کمزور اداروں کیلئے مزید مشکلات اور خطرات کا باعث ضرور بنتے ہیں۔ ویسے بھی پیمرا جیسے ادارے کا یہ بھی گلہ بجا ہے کہ آج تک میڈیا کے خلاف شکایات پر جو کارروائی کی گئی ان میں سینکڑوں مقدمات عدالتوں میں چلے گئے اور اکثریت میں ایسی کاروائی کیخلاف حکم امتناعی کے سہارے میڈیا کے ادارے کئی سال سے پیمرا کا منہ چڑا رہے ہیں۔ نصرت جاوید صاحب سے "اندھی نفرتوں اور عقیدت"کے الفاظ مستعار لیتے ہوئے عرض ہے کہ ہمارے ادارے بھی اب اسکا شکار ہو چکے ہیں۔
میڈیا میں بھی ایسے ہی اندھے پن کی کمی نہیں۔آج سے پہلے میڈیا میں فوج جیسے طاقت ور ادارے کے سیاسی کردار کے متعلق اگر کوئی بات چھپ جاتی تھی تو اگلے روز اسکی تردید یا وضاحت کے علاوہ فوج کے حق میں بھی تحریر چھپنا اتنا حیران کن نہیں ہوتا تھا۔ مگر اب ہم یہی معاملہ عدلیہ کے ادارے کے حوالے سے بھی دیکھ رہے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے دھرنا کیس میں فوج سے متعلق ریمارکس اور حکم نامے میں اٹھائے سوالات کے فوراً بعد لاہور ہائی کورٹ میں ایک سماعت کے دوران فوج کے کردار کی بخوبی تعریف کی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج نے بجا طور پر قومی سلامتی میں فوج کے کردار کو سراہا۔
اسی طرح گذشتہ دنوں تجاوزات سے متعلق ایک کیس میں سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج نے بھی اپنے ریمارکس میں دھرنا سے متعلق فوج کے کردار پر عدالت میں موجود وفاقی وزیر کی خبر لی۔ اس کا حل ایک ہی نظر آتا ہے کہ فوج سے ریٹائر ہونے والے "ریڈی میڈ دفاعی تجزیہ کار" حضرات پر ریٹائرمنٹ کے کم از کم پانچ سال بعد تک بات کرنے یا سیاست کرنے پر پابندی کا قانون پاس کرایا جائے۔ مگر بات پھر وہیں پر آ کر رک جاتی ہے کہ "بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟"
مختصر یہ کہ اگر ہم نے ملک کو آئین اور قانون کے راستے پر لانا ہے تو ہمیں ہیجان انگیز بیانات، ریمارکس اور تجزیوں سے باہر نکل کر ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اس حوالے سے سب سے اہم ذمہ داری حکومت کی ہے جبکہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کو بھی اس معاملہ میں موثر کردار ادا کرنا ہو گا۔