امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی1995ء کی انسانی حقوق کی رپورٹ میں قادیانیوں کے بارے میں نہایت تفصیل کے ساتھ پاکستان کا ذکر موجود ہے۔ یہ رپورٹ یکطرفہ اور حقائق کے منافی ہے۔ اس رپورٹ میں تحریر کیا گیا تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیکر ان کے ساتھ بہت ہی برا سلوک کیا جا رہا ہے۔ غالباً یہ بھی تحریر ہے کہ ان کی املاک کو ان سے چھینا جا رہا ہے۔ ان کو عبادت کی اجازت نہیں دی جاتی ، غرض کون سا دکھ تھا کہ جس کا رونا نہ رویا گیا ہو۔ ہر بات تو درست ہے کہ ان کو جمہوریت ، قانون ، سماج ، معاشرتی اور مذہبی ہر طرز کے ساتھ اپنی بات کہنے کا قومی اسمبلی میں پورا حق دیا گیا تھا اور ان کے راہنما نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے اور اپنی جماعت کے افراد کے علاوہ کسی مسلمان کو مسلمان ہی تسلیم نہیں کرتے۔ یہ ہی وہ موقع تھا جب پارلیمنٹ نے یکسو ہو کر متفقہ طور پر ان کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ یہ کوئی سیاسی معاملہ نہ تھا۔ہر سو ایک ہی آواز بلند ہو رہی تھی، قومی اسمبلی میں جن ارکان نے اس بارے میں قرار داد پیش کی تھی ان میں مولانا مفتی محمود، مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری ،مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد، مولانا سید محمد علی رضوی، مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، چوہدری ظہور الہیٰ ، سردار شہریار خان مزاری، مولانا ظفر احمد انصاری، مسٹر عبدالحمید جتوئی، مولانا احمد رضا قصوری ، محمود اعظم فاروقی، مولانا صدر الشہید، مولانا نعمت اللہ، مخدوم نور محمد، مسٹر عمر خان، مسٹر غلام فاروق ، سردار شوکت حیات ، رائو خورشید علیخان، مولابخش سومرو، علی احمد تالپور انیس عطا محمد خان۔
سپیکر نے کل ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی بنا دی قومی اسمبلی نے ناصر احمد پر11دن تک 24گھنٹے اور لاہوری جماعت کے امیر پر سات گھنٹے کی جرح کی۔ اس دوران وزیر اعظم بھٹو اور اپوزیشن کے درمیان بھی مذاکرات جاری رہے۔ خصوصی کمیٹی کے دو ماہ میں 28اجلاس ہوئے یہ نشستیں 96گھنٹہ پر مشتمل تھیں۔بھٹو اور اپوزیشن کے مذاکرات میں پانچ بار نازک موڑ آئے اور قریب تھا کہ معاملہ ایوان کی بجائے باہر حل ہوتا، واضح رہے کہ مسٹر بھٹو نے 6ستمبر1970ء کو نشان حیدر عزیز بھٹی کے مقام شہادت پر اپنے ترنگ میں آ کر کہا تھا کہ وہ بر سر اقتدار آ کر جنرل اختر ملک کی یاد گار بنوائیں گے۔ جنرل اختر جنگ میں کام نہ آئے تھے بلکہ ترکی میں سڑک کے ایک حادثہ میں ہلاک ہوئے تھے، ان کی نعش ربوہ لائی گئی تو مرزا ناصر احمد نے بہشتی مقبرہ میں دفن نہ ہونے دیا۔
رابطہ عالم اسلامی اپنے مکہ کے اجلاس جس میں مسلمانوں کی140تنظیموں نے حصہ لیا تھا یہ فیصلہ کیا تھا کہ قادیانیت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہ بھی ایک امر حقیقی ہے کہ ملک کے روز ناموں میں سے نوائے وقت ہی واحد اخبار تھا جس نے قادیانی مسئلہ پر مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ جوانمردی کا ساتھ دیا جناب مجید نظامی اور جناب صلاح الدین ہی دو ایڈیٹر ایسے تھے جو ثابت قدم رہے اور ان کے اداروں نے ختم نبوتؐ کا ہی ساتھ دیا۔
ذکر ہو رہا تھا امریکہ کا اور اسکی انسانی حقوق کی رپورٹ کا امریکہ کا کہنا تھا اور اب بھی ہے کہ وہ قادیانی فرقہ کو ربوہ ہی میں آباد کرے گا، اور جس طرح دنیا بھر سے یہودی کو اسرائیل میں اکٹھا کیا گیا ایسے اقدامات کے لئے حکومت پاکستان پر دبائو جاری رکھے گا۔ قادیانی خاندانوں کو مغربی ممالک فی الفور شہریت دے دیتے ہیں اور ان کے ذریعہ پاکستان کو دنیا بھر میں بد نام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وہ تمام قلم کار جوامریکہ برطانیہ یا ایسے ہی ممالک سے پاکستان آتے رہتے ہیں ان کی تحریروں اور گفتگو کے ذریعہ یہ بات منظر عام پر آئی ہے کہ (STRATEGIC COMMUNCATION) نہ تزویراتی حکمت عملی و رابطہ وسیلہ برائے پروپیگنڈہ ماہرین پاکستانی سیاستدانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر آپ پاکستان کی اشرافیہ حکمران طبقہ یا حکمران بننا چاہتے ہیں تو آپ کو امریکی پالیسی کے تحت اس وقت ہی امداد ، سہولت، سفارت کاری رابطے اور حکمت عملی ملے گی جب آپ پاکستان میں مغربی طرز کی مکمل جمہوریت ، غیر مسلموں کی خاطر پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانے ، امریکہ اور بھارت کی علاقہ میں بالادستی ، مخلوط انتخاب، مشترکہ انتخابی فہرستوں، بھارت کے ساتھ کاروباری تعلقات بڑھانے اور چین سے کم کرنے ، افواج پاکستان میں کمی ایٹمی طاقت میں کمی اور ایسے دیگر معاملات پر زیادہ سے زیادہ بات کریں اور امریکہ کو بعض یقین دہائیاں کروا دیں کہ اس کے مفادات کا ہرصورت تحفظ کریں گے تو آپکی ہر طرح سے مدد ممکن ہو گی اور بے نظیر بھٹو ایسے معاملات طے کرنے میں بے مثال مہارت رکھتی تھیں۔ وہ تو(IAEA)بین الاقوامی نیو کلیئر ادارے کو ڈاکٹر قدیر تک رسائی دینے کا وعدہ بھی کر چکی تھیں۔
پاکستان میں تقریباً دس سال سے بین الاقوامی ادارے انتخابی اصلاحات کے نام پر کروڑوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ خود امریکی حکومت اور اس کے غیر سرکاری ادارے بھی اس کام میں بظاہر حکومت پاکستان اور پاکستان الیکشن کمشن کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ مدد پاکستان میں شورائی یا خلافت کے نظام کے احیاء کے لئے تو نہیں ہو رہی ہم بھکاری بن کر ہر کسی سے بھیک مانگنے اور لینے کو تیار ہیں ۔ جاننا ضروری ہی نہیں سمجھتے کہ قرض کی قیمت میں خودداری کے علاوہ کیا کیا دینا پڑے گا۔ ابھی ایوانوں میںحکومتی رٹ نظر نہیں آتی تو نہیں، ہاں ٹی وی ٹاک شوز، عدالتوں کے باہر یا پھر پریس کانفرنس میں نظر آتی ہے اور جو نظر آتی ہے جس ملک کا وزیر داخلہ بے بسی کااظہارکر رہا ہو اس کو یاد کرنا چاہیے کہ ریاست کی کچھ حقیقتوں سے صرف اپوزیشن کے دنوں میں نظر چرائی جا سکتی ہے۔ فیض پانے والوں کا بھی ایک طریقہ ہوا کرتا ہے تصوف کی دنیا میں ہر کسی کو فیض نہیں ملتا۔ وزیر اعظم ہر کوئی نہیں بنا کرتا۔342کے ایوان میں ایک ہی وزیر اعظم ہوتا ہے اور سبھی نورتن تو بادشاہ نہیں ہوتے۔ ذاتی خودداری ، قابلیت، عالمیت، فلسفیانہ نظریات، مغربی جمہوریت اورمکمل اختیار واقتدار ہر کسی کی مزاج نہیں ہوتا۔
اپنی چال جب چلنا بھول جائے تو پھر سمجھ لینا چاہئے کہ قادر مطلق صرف خدائے بزرگ و بر تر ہے اور اختیار بھی اس کے پاس ہے۔ رک کر چلیں ، ٹھہر کر سانس لے لیں، اپنی صفوں کو درست کر لیں، شوکت اسلام سے وہ سب واقف ہیں جن کے گھروں میں اصلاحی صاحب ، جو یقینا بہت ہی بڑے عالم تھے ، کی تعلیمات آج بھی حاصل کی جاتی ہیں اور ان پر عمل بھی ہوتا ہے۔
مذہبی زعماء قائدین علماء اور رہبر و راہنما یہ بتاتے ہیں کہ اقتدار کے پل پل کا جواب قیامت کے روز دینا ہو گا۔ دیکھیں مظلوم اس ملک میںکیسی اور کس طرف نگاہیں لگائے بیٹھے ہیں۔ ضروری تو نہیں کہ سب کام صرف فرد واحد ہی کر سکے، اگر ایسا ہے تو ابھی زندہ مثالیں ملک میں اور بیرون ملک موجود ہیں۔ مصر کے معزول صدر محمد مرسی نے بھی وہی نصاب پڑھا ہے جو طیب اردگان نے ، دونوں کے حالات الگ ، مقدر الگ، نصیب الگ الگ۔
ہمارے وزیر قانون مستقی ہو گئے۔ کیا ان کا قصور تھا؟ یا اجتماعی غلطی کا شکار ہوئے اس سوال کا جواب کیا راجہ ظفر الحق دیں گے۔ اگر انہوں نے دینا ہوتا تو بھی نہ دیتے انہوں نے خود مجسم وفا بنا رکھا ہے، ضیاء الحق کے بارے سوالات کا جواب آج تک نہیں دے سکے۔ ویسے تو مؤتمر عالم اسلامی سے بھی ان کا گہرا رابطہ ہے مگر میاں نواز شریف کے بارے میں ان کے جذبات حالات ارشادات اور احکامات پارٹی کے اندر اور باہر سبھی نہ صرف جانتے ہیں بلکہ یقین بھی رکھتے ہیں، انصاف کے ترازو کے پلڑے برابر رکھیں گے کہنا ہو گا تو کان میں سرگوشی بھی کر دیں گے۔اسلام آباد میں گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا اور جو کچھ اب عدالتوں میں ہو رہا ہے اس سے تو سبھی واقف ہیں مگر 30/35دنوں بعد جو ہو گا اس پر ابھی سے نظر ڈالنی چاہئے۔ کیا ریاست کے ادارے وعدے پورے کریں گے؟ یا پھر غیر آئینی مطالبات کرنے والوں کو آئین کا راستہ قانون کے ذریعہ دکھایا جائے گا۔
مسجد کا رنگ بازار میں اور بازار کا رنگ مسجد میں نظر آنا بند ہو گیا ہے۔ دستور و قانون تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اخلاقی قدریں تبدیل ہو چکی ہیں، سرد جنگ کے نئے طور طریقے متعارف ہو رہے ہیں، رد الفساد کی کوشش ہو رہی مگر کسی جگہ خیر نظر نہیں آ رہی۔ مفاد اور شر پھیلانے والے منظر عام پر ہیں، تعمیر و ترقی تعلیم و تربیت کے انداز بدل رہے ہیں، ہر طرف بگاڑ ہی بگاڑ ہے ایسے میں ایک نئی پولیس فورس قائم کرنے کی بات بھی ہو رہی ہے۔ اب ہمارے پاس ہمارے اسلاف کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ محسن انسانیتؐ کی دی ہوئی ہدایات کے سوا کچھ نہیں۔ متفقہ فساد پھیلانے والے ریاست سے محفوظ نہیں ہوتے، اگر ہم نے انداز حکمرانی نہ بدلا تو اور لوگ آ جائیں اور قبرستان میں ابھی بہت جگہ خالی ہے۔