حکومت کے سو دنوں کا کھٹا مٹھا تجزیہ

موجودہ حکومت کے پہلے سو دن کی کہانی خاصی الجھی ہوئی اور انتہائی پیچیدہ دکھائی دیتی ہے۔ اس پیچیدگی کا باعث یہ ہے کہ عام انتخابات کے موقع پر لوگوں کی توقعات کا عالم یہ تھا کہ حلف اٹھاتے ہی ڈرامائی طور پر تمام مسائل فوری طور پر حل ہو جائینگے۔ اسد عمر پٹرول ڈیزل کی قیمتیں نصف کردیں گے ۔ جس سے ضروریات زندگی کی ہر چیز سستی ہوجائے گی نتیجے میں ملک میں ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ ہو گا ۔ ریلوے، پی آئی اے اور سٹیل مل سمیت تمام ادارے خود بخود خسارے سے نکل کر کمائی کرنے لگیں گے جس سے مہنگائی میں نمایاں کمی ہو جائیگی اور بنیادی ضروریات کی فراہمی میں اس حد تک آسانیاں پیدا کی جائیں گی کہ کسی فرد کو محرومی کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا ۔ حکومت ہر محکمے میں اصلاحات لائے گی ۔خاص کر پولیس فورس کو خود مختار محکمہ بنادیا جائیگا ۔کوئی ایم این اے یا ایم پی اے کسی پولیس والے پر اثر انداز نہ ہو سکے گا۔لیکن آئی جی اسلام آباد ایک ڈی پی او اور ایک ڈپٹی کمشنر کو تبدیل کیا گیا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم بڑے سیدھے بندے ہیں وہ ہر بات صاف صاف کہہ دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں وہ کس سادگی سے فرمارہے تھے کہ ٹی وی دیکھتے ہوئے جب وہ کسی غریب پر ظلم ہوتادیکھتے ہیں تو انہیں سخت تکلیف ہوتی ہے ایسے میں خاتون ِ اول بشری بیگم انہیں احساس دلاتی ہیں کہ آپ ملک کے وزیراعظم ہو۔ یہ مسائل حل کروانا آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔ خان صاحب فرماتے ہیں پھر میں متعلقہ محکموں کو فون کرتا ہوں۔حالانکہ یہاں خان صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ متعلقہ محکموں میں اصلاحات لاتے کہ کسی طرح کسی غریب پر کوئی طاقتور ظلم نہ کر سکے۔ خان صاحب نے اداروں کو مضبوط کرنے کے بہت وعدے کیے تھے لیکن انکے ساتھی اور وہ خود بھی انتظامی افسران پر براہ راست اثر انداز ہورہے ہیں۔ اداروں پر اثر انداز ہونے کی بجائے اداروں کے چیک اینڈ بیلنس کا موثر نظام بنایا جائے تو ہی عوام کے مسائل کم ہوسکتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ پچھلے ادوار میں اداروں کو من مرضی سے چلانے کی بہت سی کہانیاں منظر عام پر آتی رہی ہیں۔ اور جب اس نئی حکومت کو اقتدار منتقل ہوا تو ملک کو بہت سے مسائل درپیش تھے۔ عمران خان نے قوم کو جو خواب دکھائے تھے قوم ان خوابوں کی تعبیر چاہ رہی تھی۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ انتظامیہ کو اچھے انداز میں تیار کریں اور جس جس نے بھی اس ملک کی دولت لوٹی ہے اسے قانون کے شکنجے میں لائیں ثبوت اور گواہوں کے ساتھ عدالت پیش ہوں اور عدالت انہیں سخت سے سخت سزائیں دیتی رہے۔ وزیر خزانہ کے پاس ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کا کوئی فارمولہ نہیں ہے۔ اگر گزشتہ تین ماہ کی کارکردگی کو بظاہر دیکھا جائے تو اس میں بجلی و گیس کی قیمتوں اور جی ایس ٹی میں اضافہ سمیت پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ہر شے کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ نظر آتا ہے مگر غور کیا جائے تو ایک اور تصویر اُبھرتی ہے جسکے تحت ایسا اس لیے ہے کہ مزید نوٹ نہیں چھاپے گئے۔ حکومت نے خود پر تنقید برداشت کی مگر افراطِ زر میں اضافہ قبول نہ کیا۔ یہ ایک بڑی قربانی ہے جس کی وجہ سے موجودہ حکومتی سیاسی جماعت کو کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے اپنے فائدے کی بجائے ملک کا مفاد عزیز رکھا۔ اس طرح اگر مثبت اقدامات کی لسٹ بنائی جائے تو سب سے بڑا کامنی لانڈرنگ کرنیوالوں کیخلاف اعلان جنگ ہے۔ یہ حکومتی کی سختی کا نتیجہ ہے کہ سندھ میں بہت سے بے نامی اکاونٹ سامنے آچکے ہیں جن میں کروڑوں, اربوں روپے جمع کروائے گئے تھے۔ ۔ہمیشہ کی طرح بلوچستان میں مخلوط حکومت بن پائی اور ابھی تک اپنا وجود بچانے میں مصروف رہے گی۔ انرجی سے گھریلو صارفین کے ساتھ ساتھ سرکاری و غیر سرکاری ادارے بھی مستفید ہو سکیں گے اور زیادہ بجلی صنعتوں کو فراہم کی جا سکے گی جس سے یقینا صنعت کاروں کا اعتماد بحال ہو گا اور وہ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرینگے۔ ملک میں ایک مدت بعد قوم نے سیاستدانوں اور اداروں کے درمیاں ایک قومی سوچ کو پروان چڑھتے دیکھا ہے۔ علاوہ ازیں سرکار نے حکومتی اخراجات میں خاطر خواہ کمی کرنے کے دعوے کئے ہیں اور اس طرح کے اور بھی کئی اہم اقدامات کئے گئے جن کا فائدہ عام آدمی کو پہنچنے کی توقع ہے اور ایسے اقدامات قوموں کی تعمیر میں بھی اہم سنگ ِمیل ثابت ہوتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انکے اثرات فوری طور پر سامنے نہیں آتے۔ موجودہ صورت حال میں فوری خوشخبریوں اور اصلاحات کا نظام حالات سنوارنے کی بجائے مزید بگاڑ کی طرف لے جانے کا باعث بن سکتا تھا کیوں کہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کے باعث پہلے ہی ملک آج بے شمار مشکلات کا شکار ہے۔ اس وقت کا تقاضا ہے کہ دیرپا اور مستقل منصوبے بنائے جائیں۔ قوموں کی زندگی میں مشکلات کے دو تین سال اہمیت نہیں رکھتے لیکن اگر یہ تمام منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہو گئے تو یقینا خوشحالی ہمارا مقدر بنے گی بلکہ ہمیں غیروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اذیت بھی برداشت نہیں کرنی پڑ ی۔گزشتہ دنوں خان صاحب مرغیوں اورکٹوں کا ذکر کر رہے تھے کہ اس سے ملکی معیشت بہتر ہوسکتی ہے ضرور ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسے چھوٹے کاروبار یونین کونسل کی سطح کے نمائندوں کے ذریعے کروائے جانے چاہیے۔ خان صاحب کو تو بتانا چاہیے کہ پہلے سو دنوں میں انہوں نے کتنی لوٹی دولت واپس ملکی خزانے میں جمع کروادی ہے۔ ایک عام پاکستانی کے لیے کیا کیا بہتری کی گئی ہے۔ چھوٹے کاروبار کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...