جناب عمران کی حکومت کو یہ طعنہ بھی دیا جاتا ہے کہ یہ 100 دن گزر جانے کے باوجود ڈھیلی ڈھالی ہے۔ مگر یہی بات اپوزیشن کے حوالے سے بھی جائز طور پر کہی جاسکتی ہے۔ اپوزیشن میں اتحاد نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اپوزیشن کے سب سے vocalاور Active رہنما مولانا فضل الرحمٰن ہیں۔ یہ اتفاق بھی حیرت انگیز ہے کہ مولانا کے صاحبزادے تو قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے ہیں۔ مگر مولانا خود ناکام رہے۔ اس ناکامی سے مولانا کو رنج کم ہوا ہے اور غصہ زیادہ آیا ہے۔ ابھی قومی اسمبلی کا اجلاس ہی نہیں ہوا تھا کہ مولانا نے اپوزیشن کو متحد کرنے کی بھرپور کوشش شروع کر دیں۔ مولانا کا ارادہ تھا کہ متحدہ اپوزیشن رکنیت کا حلف اٹھانے سے انکار کر دے۔ ظاہر ہے یہ ممکن نہیں تھا۔ پی پی کو سندھ اسمبلی میں اکثریت حاصل ہوئی تھی اور قومی اسمبلی میں اس کے ارکان کی مناسب تعداد ہے۔ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی بڑی اکثریت ہے۔ اس لئے انہوں نے بھی اس فیصلے سے انکار کردیا تھا۔ مولانا فضل الرحمٰن کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔ سپیکر کے الیکشن میں مسلم لیگ نے پی پی کا ساتھ نبھایا لیکن وزیراعظم کے الیکشن میں پی پی نے (ن) لیگ کا ساتھ نہیں دیا۔ صدارت کا الیکشن ہوا تو پی پی نے اعتزازاحسن کو امیدوار بنا کر مسائل پیدا کر دیئے۔ جناب زرداری صاحب ہارنے کا کھیل نہیں کھیلتے مگر صدارتی الیکشن میں انہوں نے ایسا ہی کیا۔ وہ چاہتے تو خورشید شاہ‘ نوید قمر یا شیری رحمن کو آگے لا کر ہوا کا رخ تبدیل کر سکتے تھے۔ مگر یہ بھی نہ ہو سکا۔
جناب آصف علی زرداری کا خیال ہے کہ جب تک وہ متحدہ اپوزیشن کے عزائم سے دور رہیں گے‘ انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ یہ بات درست بھی ہے کہ زرداری صاحب کی گرفتاری کے بعد پی پی پھر متحدہ اپوزیشن کے ارادے سے کیوں دور رہے گی۔ کہانی لکھنے والوں کو بھی اس راز کا علم ہے۔ اس لئے زیادہ امکان یہ ہے کہ مستقبل قریب میں زرداری صاحب کو گرفتار نہیں کیا جائے گا اور اس بنا پر متحدہ اپوزیشن کا مولانا فضل الرحمٰن کا خواب پورا نہیں ہوگا۔ یہی مسائل (ن) لیگ کو بھی درپیش ہیں نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔
مولانا فضل الرحمان اور نواز شریف کے اچھے تعلقات ہیں۔ آصف زرداری بھی مولانا کی عزت کرتے ہیں مگر فی الحال اپوزیشن کے متحد ہونے یا احتجاجی تحریک چلانے کے امکانات نہیں ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے رہنما ابھی تک تو ایک دوسرے سے ملنے اور شکل دیکھنے کو تیار نہیں ہیں لیکن کب تک ملاقاتیں بھی ہوں گی اور ملیں گے بھی، بس زیادہ دیر نہیں ہے۔
ہے محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
گزر جائیں گے جب یہ دن تو ان کی یادیں ہو گی
دوسری طرف خارجہ معاملات کا جائزہ لیں تو بھارت پاکستان کے دوستی کے روئیے پر رعونت کا اظہار کر رہا ہے۔ ڈپلومیسی کی دُنیا کے آداب ہوتے ہیں جس سے بھارت ناآشنا نظرآتا ہے یہ کوئی عزت کی بات ہے ہم بار بار انڈین لیڈرز کو دعوت نامے ارسال کریں اور وہ مسترد کرتے رہیں، یہ میاں نوازشریف کی جانب سے تو دعوت ہے نہیں کہ نریندر مودی بھی کچے دھاگے میں بندھے چلے آئیں گے۔ ششما سوراج نے دعوت رد کر دی اور انڈین پنجاب کے وزیراعلٰی نے بھی آنے سے معذرت کر لی کہ چین اس صورتحال کو تشویش سے دیکھتا ہے اور امریکہ بھارت کے ہاتھوں ہماری بے عزتی پر خوش ہوتا ہے بمبئی حملوں کی 10 ویں برسی پر صدر ٹرمپ نے پیغام جاری کیا ہے۔ خارجہ معاملات کے حوالے سے یہ میاں نوازشریف نے بڑی غلطی کی کہ اُنہوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات کے معاملے میں سرد مہری اختیار کی شُتر مرغ کی طرح مٹی میں منہ چھپانے سے کچھ نہیں ہو گا، امریکہ آج بھی دُنیا کا طاقتور ترین ملک ہے۔ امریکہ تو افغانستان کے بعد عراق پر کیوں چڑھ دوڑا WMD ہے۔ وسیع پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیاروں (WWI) کی آڑ میںکے نام پر عراق کی تباہی مچا دی عرب بہار کے نام پر عراق لبیا الجزائراور شام سب کا بیڑہ غرق کر دیا ہم امریکہ سے نہیں لڑ سکتے اس لئے جنرل مشرف کا فیصلہ دُرست تھا 9/11 نے امریکہ کو بدمست ہاتھی بنا دیا تھا۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ کرکٹ مختلف کھیل ہے مختلف ڈپلومیسی اور چین کو بھی شکائیتں ہیں، امریکہ کو بھی بھارت سے خوشگوار تعلقات نہیں ہے کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ خارجہ معاملات پر وزیر خارجہ کی گرفت ڈھیلی ہے۔ اور یہاں بھی بعض وزراء مداخلت کرتے ہیں اگرایسا ہے تو غلط ہے۔ انگریزی کی مثال ہے So many cook in the kitchen spoil the good بظاہر امکان ہے کہ بھارت اور پاکستان کے معاملات فی الحال یوں ہی رہیں گے۔؎
آپ آتے بھی نہیں اور بُلاتے بھی نہیں
باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں
امریکا اور بھارت بہت قریب ہوگئے ہیں ، یہ صورتحال ہمارے حق میں نہیں ہے…کوئی ہمیں سنجیدگی سے نہیں لیتا، غضب خدا کا امریکا کی وزارت خارجہ نے بمبئی حملوں میں ملوث عناصر کی گرفتاری میں مدد دینے پر 50لاکھ ڈالر کے انعام کا اعلان کیاہے… اس موقع پر امریکا کے وزیر خارجہ نے ایک بیان بھی جاری کردیاہے …یہ سفارتی دنیا کا سب سے عجیب واقعہ ہے۔ امریکا سے ایسے انوکھے امکان کی ہرگز توقع نہیں تھی۔ہر ملک اپنے مفادات کے تحت تعلقات پیدا کرتا ہے ۔ ایک زمانے میں بھارت اور چین بھی ایک دوسرے کے دوست تھے ، تب نعرے لگتے تھے ۔ ’’نہرو اور چواین لائی ہندو چینی بھائی بھائی ‘‘… چین سے موجودہ تعلقات کی اصل بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے ڈالی۔ بھٹو ڈپلومیسی کے ماہر تھے ۔ اپنی اس قابلیت سے انہوں نے لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کروائی ، جس میں یاسر عرفات ، شاہ فیصل ،کرنل قذافی ، شیخ مجیب الرحمن جیسی شخصیات نے شرکت کی، وہ بھارت بھی گئے، اور ہمارے نوے ہزار قیدی بات چیت سے آزاد کر ائے … ایٹم بم بنانے کی بنیاد ڈالی، اور دنیا بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے، سب کو معلوم ہے۔ گولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوجیوں نے بھنڈرانوالہ کی تلاش میں بوٹوں سمیت چڑھائی کر دی تھی۔ ایک سکھ گارڈ نے وزیراعظم اندرا گاندھی کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ میوزیم میں اندرا گاندھی کی وہ ساڑھی موجود ہے جو اس وقت انہوں نے زیب تن کی ہوئی تھی، اس میں 32 گولیوں کے نشان ہیں۔ جس روز یہ واقعہ ہوا اس دن دہلی میں تین ہزار سکھوں کو قتل کیا گیا۔ اس موضوع پر بھارت میں ایک فلم بھی بن چکی ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ اندرا گاندھی کے بعد ان کے بیٹے وزیراعظم راجیوگاندھی کو بھی ایک علیحدگی پسند خاتون نے خودکش حملے میں ہلاک کر دیا تھا… یہ بھارت کی تاریخ ہے، جسے بھارت چھپانا چاہتا ہے مگر تاریخ بھی کہیں خفیہ رکھی جا سکتی ہے۔ واضح ہو چکا ہے کہ ہم Diplomacy کے محاذ پر کوئی کارنامہ انجام دینے میں ناکام رہے ہیں… یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ افغانستان میں پاکستان دشمن حکومت کو برداشت کیا جائے… اس حوالے سے ہمارے ملک کا واضح تعلق ہے۔ ہم نے افغانستان کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ افغانستان کی کسی امریکہ نواز حکومت نے پاکستان کو قربانیوں کا اچھا صلہ نہیں دیا ہے۔
مرے تھے جن کے لئے رہے وضو کرتے۔