پاکستان اور روس کی باہمی بحری مشقوں ’’عریبین مون سون‘‘ کا شمالی بحیرہ عرب میں انعقاد کیا گیا ہے۔ ترجمان پاک بحریہ کے مطابق روسی بحریہ کے دو جہازوں نے ان میں شرکت کی۔ مشقوں کا مقصد دونوں بحری افواج کے مابین مشترکہ آپریشن کی صلاحیتوں کو فروغ دینا ہے۔ پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی بھی حال ہی میں روس کا دورہ کر چکے ہیں۔
روس کے ساتھ ماضی قریب میں بھی مشترکہ مشقیں ہو چکی ہیں۔ اپنی دفاعی صلاحیت جانچنے اور اس میں مزید اضافہ کرنے کے لئے ایسی مشقوں کا اہتمام ہوتے رہنا چاہئے۔ ایسی مشقیں ایک دوسرے سے سیکھنے اور تجربات سے استفادہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں علاوہ ازیں اس سے اچھے تعلقات کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ ایسی مشترکہ مشقوں کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان خیرسگالی بڑھتی ہے۔ روس کے ساتھ اس بحری مشق سے یہ بھی ظاہر ہو گیا ہے کہ روس کی خطہ کے ملکوں سے تعلقات کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے کہ اس نے برصغیر کے دونوں بڑے ملکوں پاکستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں توازن کی راہ اختیار کر لی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے اور خصوصاً مودی اور ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت نصف صدی سے زائد عرصہ سوویت یونین اور روس کا قریبی اتحادی رہنے کے بعد مکمل طور پر امریکہ کی گود میں چلا گیا ہے۔ بھارت امریکہ تعلقات میں اس تبدیلی کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ بھارت کو افغان امور میں امریکی ناظم الامور کی سی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ ٹرمپ نے ہندوستان پر مزید مہربانیاں کرتے ہوئے اسے سٹریٹجک پارٹنر بنا لیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ شراکت داری چین یا روس کے مقابلے میں ہے۔ پاکستان کو روس کے ساتھ روابط کو مشترکہ جنگی (بری، بحری اور فضائی) مشقوں سے آگے بڑھ کر تجارتی، صنعتی اور ثقافتی شعبوں میں تعلقات کو مزیدبڑھانا چاہئے۔ مشقوں میں حصہ لینے والے دونوں جہازوں کے عملے اور افسروں نے کراچی کا بھی دورہ کیا اور مزار قائد پر حاضری دی اور پھولوں کی چادر چڑھائی۔ علاوہ ازیں ان کی بڑی پرتپاک میزبانی کی گئی چنانچہ وہ یہاں سے خیرسگالی کے ان مٹ نقوش لے کر وطن لوٹے ہیں۔ یقیناً وہ ہم وطنوں کو پاکستانیوں کے روس کے بارے میں پرجوش جذبات سے آگاہ کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات اور تعاون کے لئے نئے مواقع پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔