اس سال سیاسی ہلچل زیادہ رہی اسلئے خواتین کے ایشوز کو وقت اور توجہ کم ملی

2016_17 میں خواتین کے لئے قانون سازی کے حوالے سے خاصی پیش رفت ہوئیں لیکن 2018میں ایسا نہ ہونے کے برابر رہا ۔عورتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں پر پابندیاں لگائی گئیں ۔عاصمہ جہانگیر اور مدیحہ گوہر جو کہ خواتین کے حق میں موئثر طریقے سے آواز اٹھاتی تھیں وہ دنیا سے رخصت ہوگئیں ۔اس سال ملک میں سیاسی ہلچل بہت زیادہ رہی اتنی زیادہ رہی کہ خواتین کے اہم ایشوز کو کم وقت اور توجہ ملی ۔ایک طرف خواتین کو لیکر دل دہلا دینے والے واقعات سامنے آئے تو دوسری طرف ہراسمنٹ کے قانون کا بہترین نفاذ دیکھنے کو ملا ۔ ’’پاکستانی مین اگینسٹ ریپ ‘‘کے نام سے بننے والا فورم ا سال بھی خاصا ایکٹیو رہا ، اس سال کے فروری تک اس فورم کے 14چیپٹرز رجسٹرڈ ہوئے جو کہ بہت ہی خوش آئند ہے۔ان خیالات کا اظہار سماجی ورکر ’’ڈاکٹر فوزیہ سعید‘‘ نے نوائے وقت کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا ۔انہوں نے پورے سال کا جا ئزہ لیتے ہوئے ہمیں یہ بتایا کہ خواتین کے لئے کیا کام ہوا اور کیا نہیں کیا گیا ۔ان سے ہونے والی باتوں کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔ڈاکٹر فوزیہ سعید نے کہا کہ رواں سال آغاز میںہی پانامہ سیکنڈل کی نذر ہو گیا لوگوں کی توجہ حقیقی ایشوز سے ہٹی رہی نہ ان ایشوز کو وقت ملا نہ توجہ ملی ۔میڈیا بھی تین سیاسی جماعتوں(مسلم لیگ ن،پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف) کے گرد ہی گھومتا رہا۔اس برس ایسی ایسی تنظیموں کو کام کرنے سے روک دیا گیا جو کہ بہت ہی ایکٹیولی کام کر رہی تھیں ان تنظیموں کو شور شرابے کے ساتھ نہیں باقاعدہ سٹریٹجی کے تحت خاموشی سے بند کیا گیا۔خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم وائس کو بند کر دیا گیا یہ کیس عاصمہ جہانگیر مرحومہ نے لڑا اور وہ کیس جیت گئیں یعنی دوبارہ اس این جی او کو کام کرنے کی اجاز ت ملی ۔اسی طرح کے پی کے کی گل لئی جنہوں سماجی شعبے میں اتنا کام کیا کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا ان کی تنظیم Aware Girlsکو کام کرنے سے روکا گیا ۔یعنی سماجی تنظیموں کا دائرہ کار اور ان کی تعداد کو کم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ۔اگر ہم یہ کہیں سول سوسائٹی اور خواتین کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے لئے یہ سال اچھا نہیںرہا تو بے جا نہ ہو گا ۔اس کے علاوہ بہت سار ی ڈونر تنظیموں کو بھی بند کیا گیا ان میں سیو دا چلڈرن اور ایکشن ایڈ قابل ذکر ہے ۔چند تنظیموں کو رجسٹریشن کی دوبارہ اجازت ہی نہ ملی کچھ نے ہاتھ پائوں مار کر رجسٹریشن کروا لی اور بیشتر ڈونر تنظیموں کو تو خدا حافظ ہی کہہ دیا گیا ۔یہ وہ تنظیمیں تھیں جو پاکستان میں تعلیم اور خواتین پر بہت سارا کام کر رہی تھیں یہ تنظیمیں اپنی فنڈنگ لیکر باہر کے ملکوں میں چلی گئیں جس کا نقصان پاکستان کو خاصا زیادہ ہوا ۔داکٹر فوزیہ سعید نے مزید کہا کہ ہراسمنٹ کے قانون کا نفاذ اس سال بھی کامیابی سے ہوا اور ہو رہا ہے اس پراجیکٹ کو ملیحہ حسین لیڈ کر رہی ہیں وہ اس قانون کو پرائیویٹ اور گورنمنٹ کے اداروں میں عملی طور پر نافذ کرنے کے لئے دن رات کوشاں ہیں وہ سینئر مینجمنٹ اور کمیٹی کے ممبران سمیت ہر دفتر کے ایچ آر کے لوگوں کو ٹریننگ بھی کروا رہی ہیں ۔اینٹی ویمن پریکٹسز کا قانو ن 2011میں بنا اس میں چار چیزیں تھیں ،عورت کو جائیداد میں حصہ نہیں دیں گے تو سزا ہو گی، لڑکی کی شادی قرآن مجید سے نہیں کروا ئی جا سکتی ،بدلہ صلح میں عورت کو نہیں دیا جا سکتا،لڑکی کی جبراً شادی نہیں کی جا سکتی ۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس قانون پر اس طرح سے عمل درآمد نہیں ہو سکا جس طرح سے ہونا چاہیے تھا شاید اس قانون کے پیچھے تنظیمیں نہیں تھیں اس لئے اس قانون کے عملی نفاذ کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی گئی ۔باقی پنجاب گورنمنٹ نے اپنے دور میں خواتین کے لئے خاصا کام کیا اور وراثت کے بٹوارے کو لیکر ایسے رولز پاس کئے جن کے تحت اگر سربراہ فیملی انتقال کر جائے اور بچے چھ ماہ تک حصے لینے کا دعوی نہیں کرتے تو گورنمنٹ خود ہی گھر کی عورتوں اور مردوں کے درمیاں بٹوارہ کر دے گی یہ بہت ہی اچھا اقدام ہے اس پر 2017کے آخر تک عمل درآمد ہوا لیکن اس سال بالکل بھی اس کا عملی نفاذ نظر نہیں آیا ۔پچھلے سال گھریلو تشددکے حوالے پنجاب گورنمنٹ نے قانون پاس کیا اس قانون کا عملی نفاذ بھی ہوا اور اس کا اثر اس سال بھی رہا ہے۔وائلس اگینسٹ ویمن پر پولیس ریفارمز کرنا بھی شہباز شریف کاقابل تحسین اقدام ہے۔خواتین کی سپورٹس میں خاصی ڈویلمپنٹ ہوئی خواتین کو کرکٹ میںاپنی قسمت آزمانے کے مواقع دئیے گئے،اسی طرح کبڈی کی ٹیموں کو بھی پریکٹس کروانے کیلئے کیمپ لگائے گئے ،سپورٹس میں ہونے والی اس ڈویلپمنٹ کا اثر اس سال بھی نظر آیا ۔کے پی کے کی حکومت نے خواتین کے لئے کوئی قابل ذکر بل نہ بنایا نہ پاس کیا۔ہاں اس سال ہونے والے عام انتخابات میں ایک قدم اٹھایا گیا کہ خواتین کے ووٹ جس حلقے میں کم ہوں گے اس کے نتائج کینسل کر دئیے جائیں دو حلقوں کے نتائج کینسل ہوئے بھی ،لیکن یہ کام کے پی کے حکومت کا نہیں تھا بلکہ اس کام کا سہرا الیکشن کمیشن کے سر ہے ،یہ کام بنو کی سماجی کارکن شاد بیگم کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔کے پی کے میں 70برسوں میں ایسے ایسے حلقوں میں خواتین نے ووٹ کاسٹ کئے جہاں خواتین کا ووٹ ڈالنا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔اس سال الیکشن لڑنے والی خواتین کی تعداد کافی زیادہ رہی وہ الگ بات ہے کہ جیتنے والی خواتین کی تعداد کم رہی ۔ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر فوزیہ سعید نے کہا کہ اگر ہم ماضی قریب میں دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ خواتین کے معاملے میں جس صوبے نے مثالی اقدامات اٹھائے وہ صوبہ سندھ رہا ہے گھریلو تشدد کا بل بلوچستان اور پنجاب نے بھی پاس کیا لیکن سندھ نے نہ صرف یہ بل پاس کیا بلکہ ایسا کرنے والے کے لئے سخت سزا بھی رکھی اور اس پر عمل درآمد بھی ہوا ۔انہوں نے لڑکی کی شادی کی عمر 18سال رکھی،دوسرے کسی صوبے کی ہمت نہیںہوئی کہ وہ بھی ایسی کوئی چیز سامنے لیکر آئے ،صوبہ سندھ کے بنائے گئے اس
قانون کی وجہ سے اس سال بہت ساری بچیاں اس قانون کا سہارا لیکر اس ظلم سے بچ گئیں ۔ہندو میرج لاء 2017گزشہ برس پاس ہوا ،فیڈرل میں رامیشن کمار نے کوشش کر کے اس سال پاس کروایا اس قانون کے بھی اس سال مثبت اثرات دیکھنے کو ملے اس قانون کے آنے بعد تو ایسا محسوس کیا کہ جیسے ہم پتھر کے دور سے 2018میں آئے ہیں۔اس سال کرشنا کماری کا ہندو سینٹر منتخب ہونا خوش آئند رہا خوشی ہوئی کہ غریب گھرانے کی خاتون آگے آئی ،کرشنا کماری کئی برسوں سے خواتین کے حقوق کے لئے کام کر رہی ہیں ۔شائشہ پرویز ملک ،نزہت صادق ،شیری رحمان اور کرشنا کماری اس سال چھائی رہیں انہوں نے خواتین کے لئے بہت کام کیا ۔اس کیعلاوہ شیری رحمان سینٹ میں پہلی مرتبہ لیڈر آف اپوزیشن منتخب ہوئیں ۔
میں سمجھتی ہوں کہ پاکستانی خواتین میں بہت جذبہ اور ہمت ہے ان کو مواقع ملیں تو وہ بہت آگے جا سکتی ہے جیسا کہ اس وقت ہر شعبے میں خواتین مردوں کے برابر کام کر رہی ہیں امید ہے کہ نئی حکومت خواتین کے لئے ٹھوس قانون سازی کرنے کے علاوہ پہلے سے موجود قوانین پر عمل در آمد کروانے کے لئے اہم اقدامات کرے گی ۔

ای پیپر دی نیشن