شاید پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ غیر طبعی اموات ہوتی ہیں۔ زلزلے، سیلاب، آتش فشانی، روڈ ایکسیڈنٹ، فضائی حادثات، ریل گاڑیوں سے اموات، فیکٹریوں، کارخانوں، پلازوں میں آگ لگنے کے علاوہ ڈوروں سے گلے کٹنے، ٹرینوں کے نیچے آنے، پلوں سے نیچے گرنے، نفرت حسد، دشمنی سے قتل و غارت کرنے، کاروکاری اور خودکشی کے علاوہ ڈاکٹروں کی غلط تشخیص اور نااہلی لاپرواہی سے مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ تعداد روزانہ دو سو سے تین سو افراد ہے۔ یعنی ہر سال ہزاروں پاکستانی بے وقت غیر طبعی اموات کا شکار ہوتے ہیں لیکن ایک تعداد وہ بھی ہے جو نہ تو زندہ ہے اور نہ ہی مردوں میں شمار ہوتی ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر روز ٹینشن، ڈیپریشن، فرسٹریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ انکے اعصاب بُری طرح کمزور ہو جاتے ہیں اور ابتدائی امراض کی صورت میں شوگر ، بلڈ پریشر ظاہر ہونے لگتا ہے۔ یادداشت اور دل کے امراض جنم لینے لگتے ہیں۔ جلد کی بیماریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ انسانی اعضاء جواب دینے لگتے ہیں اور انسان وقت سے پہلے بوڑھا ہو جاتا ہے۔ پاکستانیوں کے اعصاب کمزور ہونے اور قوتِ برداشت ختم ہونے کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں بنائے گئے لاکھوں بلکہ کروڑوں سپیڈ بریکرز ہیں۔ خدا جانے وہ کون سا بڑا بیوقوف تھا جس نے پاکستان میں سپیڈ بریکرز کی ابتداء کی۔ ہمارے ہاں ہرچیز کی نقالی اور مغرب کی پیروی کی جاتی ہے۔ لوگ بغیر سوچے سمجھے پاکستان میں آکسفورڈ سسٹم لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تک نہیں سوچتے کہ ہماری دینی اقدار، ثقافت ، تہذیب ، زبان اور طریقۂ ہائے زندگی اس سے یکسر مختلف ہے۔ مغرب میں کہیں کہیں انتہائی ضرورت کے تحت اور حفظِ ماتقدم کے طور پر سپیڈ بریکرز بنائے گئے ہیں جن کی تعداد برائے نام ہے لیکن پاکستان میں 90ء کی دہائی سے پاکستانیوں پر ایک عذاب مسلط ہے۔ آج یہ صورت ہے کہ ایک پتلی سی گلی میں بھی چھ جگہ سپیڈ بریکرز بنا دئیے گئے ہیں۔ مین روڈز پر بھی اس قدر زیادہ سپیڈ بریکرز ہیں کہ گاڑی کچھوے کی چال چلتی ہے۔ پھر سپیڈ بریکرز بنانے کے بعد اُن پر کسی قسم کے ریفلیکٹرز نہیں لگائے جاتے۔ سڑک اور سپیڈ بریکرز کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے۔ ہزاروں سپیڈ بریکرز نظر تک نہیں آتے۔ جس کی وجہ سے ہر روز حادثات رونما ہوتے ہیں۔ ہزاروں سپیڈ بریکرز اگر حکومت نے بنائے ہیں تو لاکھوں سپیڈ بریکرز عوام نے خود بنا دئیے ہیں۔ اگر سپیڈ بریکرز کی اتنی ضرورت بھی ہے تو کم از کم سپیڈ بریکرز کو مناسب اونچائی کے ساتھ اور Smooth بنانا چاہئے لیکن تقریباً تمام سپیڈ بریکرز انتہائی بے ڈ ھنگے، کرایہہ اور غیر متوازن بنائے گئے ہوتے ہیں مثلاً کئی سپیڈ بریکرز اتنے چوڑے اور اونچے بنائے گئے ہیں کہ جب گاڑی اُن کے اوپر سے گزرتی ہے تو بُری طرح جھٹکے لگتے ہیں۔ گاڑی کو نیچے سے رگڑیں لگتی ہیں اور ان سپیڈ بریکرز سے اتنی مشکل سے گاڑی گزرتی ہے کہ گاڑی لگنے کی باقاعدہ آواز آتی ہے۔ خود ساختہ سپیڈ بریکرز کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ خود ساختہ سپیڈ بریکرز کو بہت ساری اینٹیں بے ڈھنگے پن سے رکھ کر اُن پر سیمنٹ کی پسپائی کر دی جاتی ہے۔ پاکستان میں لاکھوں بلکہ تقریباً سوا کروڑ سپیڈ بریکرز ایسے ہیں جن پر ریفلیکٹرز نہیں ہیں۔ وہ سڑک کے ہم رنگ ہوتے ہیں اور دکھائی نہیں دیتے۔ جب گاڑی اپنی سپیڈ سے آ رہی ہوتی ہے تو نظر نہ آنے کی وجہ سے گاڑی اور گاڑی چلانے والے کو شدید جھٹکا لگتا ہے۔ کبھی کبھی گاڑی بے قابو بھی ہو جاتی ہے اور بعض مواقعوں پر گاڑی الٹ بھی جاتی ہے۔ کم سے کم صورت میں بھی گاڑی چلانے والے کا سر بُری طرح ٹکرا جاتا ہے اور جھٹکا لگنے سے چوٹیں لگ جاتی ہیں۔ سپیڈ بریکرز نے پاکستانیوں کی زندگی عذاب بنا کر رکھ دی ہے۔ لاہور کو زندہ دلان کا شہر بنانے کے بجائے ایک پنجرہ، چڑیا گھر بلکہ عقوبت خانہ بنا دیا ہے۔ صرف اقبال ٹائون، سمن آباد، واپڈا ٹائون ، جوہر ٹائون کے سپیڈ بریکرز گنے جائیں تو انکی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ پورا لاہور سپیڈ بریکرز سے اٹا پڑا ہے جس سے لاہور کی خوبصورتی بھی تباہ ہو گئی ہے اور وہ راستہ جو ہم بیس منٹ میں طے کر سکتے ہیں، وہی راستہ تقریباً ایک گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ جب بھی یہ پوچھا جاتا ہے کہ بھئی سپیڈ بریکرز بنانے کی آخر کیا تک ہے؟؟ تو جواب ملتا ہے کہ لوگ خاص طور پر لڑکے گاڑی بہت تیز چلاتے ہیں جس سے حادثات کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس جواب سے ہمارے معاشرے کی بیمار سوچ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سپیڈ کنٹرول کرنے کے لیے آپ نے جگہ جگہ بلکہ ہر ہر نکڑ پر سپیڈ بریکرز اور بیرئیرز لگا دئیے ہیں تاکہ رکاوٹیں کھڑی کر کے سپیڈ کنٹرول کر سکیں۔ اس سے جہاں گاڑیاں برباد ہوتی ہیں۔ انسانی اعضاء اور اعصاب متاثر ہوتے ہیں۔ وقت ضائع ہوتا ہے، پٹرول زائد خرچ ہوتا ہے اور شدید کوفت ہوتی ہے۔ کیا ہمارے ہاں اخلاقیات اور پاسداری ختم ہو چکی ہے۔ کیا یہ چیز پاکستانیوں کے اخلاق ، تہذیب اور قانون سے باہر ہے کہ آپ اپنی گاڑی موٹر سائیکل ٹرک کو مناسب سپیڈ میں چلائیں۔سپیڈ بریکرز یا سخت ترین قوانین کا نفاذ ہمیشہ بدتہذیب قوموں پر لاگوں ہوتا ہے۔ پاکستان میں لاکھوں سپیڈ بریکرز اس بات کی علامت ہیں کہ ہم خود پر کنٹرول نہیں کر سکتے کیونکہ بدتہذیب، بداخلاق قومیں ہمیشہ منتشر اور پراگندہ ہوتی ہیں۔
سپیڈ بریکرز مُنتشر قومیں بناتی ہیں…
Dec 03, 2019