آج عالمی یوم معذوراںہے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میںبھی کسی بھی طرح سے معذور افراد کی بحالی،ہمدری اور یکجہتی کیلئے بہت سے سیمینار، کانفرسیں، واک ،مذاکرے اور دیگر پروگرام منعقد ہونگے دیگر ممالک کا تو پتہ نہیں لیکن پاکستان میں عملی اقدامات کی بجائے زبانی جمع خرچ کرنے پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے اور پھر ہر خاص دن گفتند،نشتند ،بر خاستند کے مصداق گذر جاتا ہے ۔ویسے تو معذور افراد معاشرہ بہت سے مسائل کا شکار ہیں لیکن ان مسائل میں سب سے بڑا ،اہم اور بنیادی مسلہ تعلیم کے مطلوبہ حصول کیلئے بہم رسائی کا نہ ہونا ہے۔پاکستان میں اس وقت تعلیم کو دو شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں جنرل ایجوکیشن یعنی نارمل افرد کیلئے اور سپیشل ایجو کیشن مخصوص افرادکیلئے۔اقوام متحدہ کے 2030 تک مقرر کردہ پائیدار سترہ اہداف (GOALS)(SDG) میںتعلیم چوتھے نمبر پر ہے اور عدم مساوات کا خاتمہ دسویں نمبر پر ہے تاکہ کرہ عرض پر موجود تمام افراد اپنے بنیادی حقوق سے محروم نہ رہ جایئں۔جسمانی اورذہنی لحاظ سے محروم افراد کا بھی تعلیم پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ نارمل افراد معاشرہ کا لیکن کیا وجہ کہ پاکستان میں انکی تعلیم کیلئے اس سطح کا کام کیوں نہیں ہورہا جیسے کہ دیگر ممالک میں۔اقوام متحدہ کے ادارہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(WHO)کے مطابق پاکستان ،بھارت اور بنگلہ دیش خطہ کی10% آبادی کسی نہ کسی معذوری میں مبتلا ہے اور اس دس فیصد کا 30% بچوں پر مشتمل ہے پاکستان میں ہونیوالی حالیہ مردم شماری کے مطابق 2.54% بچے معذور ہیں۔مخصوص بچوں کی تعلیم کے پس منظر میں جایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت چند ایک سرکاری تعلیمی ادارے تھے جبکہ غیر سرکاری تنظیمی اداروںکی تعداد زیادہ تھی اور خدمت میں پیش پیش تھے ۔بارہ سال بعدکہیں جا کر1959 میں ذہنی و جسمانی پسماندہ بڑے چھوٹوں کیلئے پیشہ وارانہ تعلیم تربیت کیلئے سفارشات مرتب کی گیں اور 1972کے سالانہ بجٹ کی تعلیمی پالیسی کے تحت خصوصی تعلیم کیلئے بجٹ میں اضافہ کر دیا گیا۔2006میں معذور بچوں کی تعلیم کیلئے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا۔اس وقت صوبہ پنجاب میں تین سو کے قریب سپیشل ایجو کیشن سنٹر ہیں جبکہ دیگر صوبوں میں انکی تعداد نصف سے بھی کم ہیں صوبوں کے درمیان مخصوص بچوں کے تعلیمی اداروںکی موجودگی عدم توازن اور انکو سکولوں تک لانے کی نا کامی کی وجوہات میں سے اہم ترین وجہ انتظامی سٹرکچر میںنقائص کا ہونا ہے ۔ مخصوص بچوں کی تعلیمی ضروریات کوپورا کرنے کے حوالہ سے موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ صوبہ پنجاب کاکردگی کے لحاظ سے کچھ بہتر کام کررہا ہے اور تعلیمی انتظام و انصرام کیلئے الگ وزارت ہے جبکہ سندھ ،بلوچستان اورکے پی کے میں محکمہ سوشل ویلفیئر کی وزارت ہی سے اس سلسلہ کا کام چلایا جا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کے لاکھوں بچوں میں سے صرف 5% کی سکول انرولمنٹ یعنی اندارج ہے جبکہ 95% فیصد مذکورہ بالا رکاوٹوںکی بدولت سکولوں سے باہرہیں جو ایک المیہ سے کم نہیں۔ان رکاوٹوں میں سے سب سے بڑی رکاوٹ معذور بچے کے گھر سے سکول تک کا فاصلہ ہے۔بین الا قوامی میعار کے تحت مخصوص بچوں کیلئے ہر ایک کلو میٹر کے فاصلہ پر سکول ہونا چاہئے لیکن پنجاب میں منظور،حمید ریسرچ کے تحت اوسط فاصلہ 12اور زیادہ سے زیادہ 48 کلومیٹر ہے اہم بات یہ کہ نارمل بچے کیلئے روزانہ کا یہ سفر نا ممکن ہے تو معذوری کی حالت میںسپیشل طالب علموں سے یہ سفر کیوں کر اور کیسے ممکن ہو پائے گا؟
اس صورت حال سے نبٹنے اور تعلیمی مسائل کے حل کے لئے 1989 میںاقوام متحدہ بچوں کے حقوق کے ایک کنونشن میںبچوں کے بلا امتیاز تعلیمی حقوق پر قراداد منظور کی اور پھر 1994 میں یونیسکو نے تعلیم درجہ بندی کو ختم کرنے کیلئے شمولیاتی تعلیمی (Inclusive Education ) پالیسی متعارف کروائی۔جس کے تحت خاص بچوں کو عام تعلیمی اداروں میں داخل کر کے تعلیم دی جا سکے,جسے سب سے پہلے امریکہ کی درسگاہوں میں متعارف کروایا گیا۔ پاکستان میں2006 کے گیارہ سال بعد2017نیشنل ایکشن پلان حتمی شکل دیتے ہوئے شمولیاتی تعلیم کو ایجوکیشن پالیسی میں شامل کر لیا گیا جس آج پاکستان کے بہت سے نجی اور سرکاری سکولوں میں شمولیاتی تعلیم بڑی کامیابی جاری ہے۔Inclusive Education) ) شمولیاتی تعلیم معذور بچوں کو عام بچوں کے سکول میں ان کے ساتھ پڑھنے اورسیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے جس کے مثبت پہلو میں اضافی تعلیم بجٹ کے بغیر عام سکولوں میںخاص بچوں کی تعلیم تک رسائی عام،امتیاز اور احساس کمتری کا خاتمہ اور تعلیم حقوق کی دستیابی شامل ہیں لیکن افسوس اس امر کا کہ ستر فیصد پاکستانی نجی اور سرکاری سکول شمولیاتی تعلیم سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔ قوم کے ان مخصوص بچوں کوتعلیم کی فراہمی کے لئے ایک بار پھر تعلیمی پالیسی کا جائزہ لینا ہو گا اور مستقل قانون سازی کے تحت ملکی تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو پا بند کرنا ہو گا اور سب اداروں میں سٹاف کی بھرتی کے وقت مخصوص بچوں کی تعلیمی ضروریات کو مد نظر رکھنا چاہے تا معذور بچوں کے والدین کا خواب تعبیر ہو سکے۔