احسان الحق
30 نومبر کو پی ڈی ایم کاملتان میں ہونے والا جلسہ اس لحاط سے تاریخ کا حصہ رہے گا کہ اس جلسے میں بھٹو خاندان کی تیسری نسل سے بلاول بھٹو زرداری کے بعد ایک اور جواں سالہ رہنما آصفہ بھٹو زرداری نے اپنے سیاسی سفر کا باضابطہ آغاز کیا۔ اس جلسے کو ملتان کے گیلانی خاندان کی سیاسی ری لانچنگ کی تقریب سے بھی تشبیہ دی جا رہی ہے۔سیاسی پنڈتوں کے مطابق اس جلسے میں آصفہ بھٹو زرداری کا عملی سیاست کا آغاز پہلے سے طے تھا اور بلاول بھٹو زرداری اگر کرونا وائرس میں مبتلا نہ بھی ہوتے تو شاید انہیں کسی اور بہانے سے اس جلسے سے دور رکھا جاتا تاکہ آصفہ بھٹو زرداری کی زور دار انٹری کو یقینی بنا یا جا سکے۔ذرائع کے مطابق سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اس انٹری کے بارے میںکافی عرصہ پہلے سے ہی’’ ہدایات‘‘ جاری کر دی گئی تھیں جس کا اظہار وہ دبے لفظوں میں بعض نجی محفلوں میں بھی کر چکے تھے اور خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی نے اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آصفہ بھٹو زرداری کی سیاسی لانچنگ کے ساتھ ساتھ اپنی ری لانچنگ کرنے کا بھی فیصلہ کیا اوراپنے سمیت اپنے چاروں بیٹوں کو اس جلسے کے لئے غیر معمولی طور پر متحرک کیا۔گیلانی خاندان کی خوش قسمتی ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے اس جلسے کو ’’مس ہینڈل‘‘ کئے جانے کے باعث گیلانی خاندان نے احتجاجی ریلیوں میں روایتی جیالوں کی طرح نہ صرف خود کو پیش پیش رکھابلکہ یوسف رضا گیلانی کے دو بیٹوں کو معمولی دفعات میں مقامی انتظامیہ نے گرفتار کر کے گیلانی خاندان کو ’’زندہ‘‘ کرنے میں بھی اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ آصفہ بھٹو زرداری ملکی سیاسی تاریخ میں مستقبل میں اپنا کردار کیسے ادا کر پائیں گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن سیاسی پنڈت آصفہ بھٹو زرداری کو سیاست میں لانے کو سابق صدر آصف علی زرداری کی دور اندیشی کا نام دے تشبیہ دے رہے ہیں اور خیال ظاہر کیا جا رہا ہے مریم نواز شریف کی جلسوں میں برھتی ہوئی مقبولیت کو ذرا کم کرنے کے لئے آصفہ بھٹو زرداری کا مستقبل میں ایک اہم کردار سامنے آئے گا اور آئندہ کچھ عرصے بعد آصفہ بھٹو زرداری بے نظیر ثانی کے طور پر جلسوں سے خطاب کریں گی اور پی ڈی ایم کے ساتھ ساتھ آئندہ عام انتخابات میں آصفہ بھٹو زرداری بلاول بھٹو زرداری کی جگہ لے سکتی ہیں جس کا پی پی پی کو کافی سیاسی فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے۔پی ڈی ایم کے ملتان میں ہونے والے جلسے کو جس طرح مس ہینڈل کیا گیا اور چار گھنٹے کے جلسے کو تین دن تک طویل کیا گیا اس بارے اب پی ٹی آئی کے اندر سے بھی آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں اور خاص طور پر ملتان سے تعلق رکھنے والے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ملتان کے جلسے کو مختلف ٹی وی چینلز پر نہ صرف شدید تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ جلسے کو کامیاب بنانے میں انتظامیہ کے کردار کو ایک بڑا کردار قرار دیا۔ اس مس ہینڈلنگ کے باعث ملتان کا گیلانی خاندان جو پچھلے تقریباً آٹھ سال سے سیاسی قرنطینہ میں تھا اسے دوبارہ فعال کر دیا گیا ہے۔شاہ محمود قریشی کے بقول ملتان کے شہری جو پی پی پی کو تقریباً بھول چکے تھے لیکن اس جلسے کو جس طرح ہینڈل کیا گیا اس سے نہ صرف گیلانی خاندان دوبارہ زندہ ہو گیا بلکہ اس سے پورے جنوبی پنجاب میں پی پی پی بھی دوبارہ زندہ ہو گئی ہے تاہم پی پی پی کس حد تک زندہ ہوئی ہے اس کا اندازہ تو آئندہ بلدیاتی یا عام انتخابات میں ہی ہو سکے گا لیکن شاہ محمود قریشی کی یہ بات بالکل صیحح ہے کہ پی ڈی ایم کے اس جلسے کو اگر ایک عام جلسہ سمجھا جاتا تو پی ڈی ایم اس جلسے سے اتنا سیاسی فائدہ نہ اٹھا سکتی جو وہ اٹھانے میں کامیاب رہی ہے ۔ملتان میں ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے سے کس سیاسی جماعت نے کتنا سیاسی فائدہ اٹھایا اس سے قطع نظر پنجاب حکومت کی نیت پر بھی شک نہیں کیا جا سکتا جو اس جلسے کی اجازت نہ دے کر عوام کو کرونا وائرس سے محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔واضح رہے کہ جنوبی پنجاب میں ملتان میں کرونا وائرس کی شرح سب سے زیادہ ہے جس کے باعث حکومت پنجاب نے اس جلسے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا جسے حکومت کی کمزوری سمجھا گیا۔
پی ڈی ایم کا ملتان میں ہونے والا جلسہ کئی روز گزر جانے کے باوجود ابھی تک اس لحاظ سے بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ جنوبی پنجاب کے گڑھ ملتان میں ہونے وا لے جلسے میں میزبان جماعت پی پی پی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم سید احمد محمود اپنے دو ایم این اے بیٹوں مخدوم مرتضیٰ محمود ،مخدوم مصطفے محمود اور ایک ایم پی اے بھتیجے مخدوم عثمان محمود سمیت جلسے میں سرے سے نظر نہیں آئے اور اس جلسے سے قبل رحیم یار خان سمیت مختلف شہروں میں ہونے والے پی پی پی کے ڈویژنل کنونشزمیں مخدوم سید احمد محمود یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ساتھ تھے تاہم جلسہ شروع ہونے سے چار پانچ روز قبل جب پنجاب حکومت کی جانب سے جلسے کی اجازت نہ دیئے جانے کے باعث سیاسی ماحول خاصا گرم ہو گیا اور بات گرفتاریوں تک جا پہنچی تو پھر مخدوم احمد محمود نے شاید اپنی نئی حکمت عملی کے تحت منظر سے ہٹ جانا ہی مناسب سمجھا۔مخدوم سید احمد محمود کی جلسے سے چند روز قبل سیاسی منظر سے غائب ہونے کے بعد رحیم یار خان سمیت دیگر شہروں میں پی پی پی کے جیالوں میں وہ جوش وخروش نہ رہا کہ جس کی اس جلسے سے چند روز قبل تک توقع ظاہر کی جا رہی تھی۔پی ڈی ایم کے ملتان کے ہونے والے جلسے کے تناظر میں رحیم یار خان میں مسلم لیگ ن بھی واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم نظر آئی جب مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی چوہدری جعفر اقبال نے اپنے پورے گروپ سمیت پی ڈی ایم کے جلسے کے سلسلے میں ہونے والے پارٹی کے اجلاسوں اور ملتان جلسے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔مسلم لیگ ن اور پی پی پی میں ہونے والے سیاسی اختلافات مستقبل کی سیاست پر کیا اثرات چھوڑیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم پی ڈی ایم کے اکابرین کو چاہیئے کہ وہ عوام پر رحم کریں اور کرونا وائرس کی شدت کے پیش نظر تیرہ دسمبر کو لاہور میں ہونے والے جلسے سمیت اپنے ہونیوالے آئندہ کے تمام سیاسی اجتماعات مؤخر کر دیں تاکہ کرونا جیسے موذی مرض سے محفوظ رہا جا سکے۔