امین یوسف
ملک کے سب سے بڑے صنعتی کمپلیکس پاکستان اسٹیل ملز جو کبھی ایک فعال اور مضبوط ادارے کے طور پر ملک کے کئی صنعتوں کے لئے ایک امید کی کرن تھا اب تباہی اور بربادی کا منظر پیش کررہا ہے ۔ من حیث القوم ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔موجودہ حکومت نے پاکستان اسٹیل ملز کے لئے تنظیم نو کا منصوبہ تیار کیا، جس کے مطابق ملز کو منافع بخش بنانے کے لئے نجی شعبے کے انتظام کے ذریعے چلاناہے وفاقی وزیرحماد اظہر کا موقف ہے کہ پاکستان اسٹیل ملک کے کا عملہ اور اخراجات بہت زیادہ ہیںحکومت نجی شعبے کو شامل کرکے اور زائد عملے کو کم کرکے اسے منافع بخش ادارہ بنانا چاہتی ہے۔حالانکہ پی ٹی آئی نے حکومت نے اقتدارمیں آنے سے قبل کئی مرتبہ اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ پاکستان اسٹیل سے کسی ملازم کو نہیں نکالا جائے گا۔ وفاقی حکومت نے اپنے موجودہ پلان کے تحت گذشتہ دنوں ادارے سے 4500سے زائد ملازمین کو فارغ کردیا ۔جس پر پیپلز پارٹی کی قیادت اورحکومت سندھ کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی۔ ذرائع کے مطابق انتظامیہ نے برخاست ملازمین کے رہائشی ایڈریس پر برطرفی کے خطوط بھیجے۔کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے جون میںملازمین کو ایک ماہ کی تنخواہ کے ساتھ واجب الادا مراعات دینے کی بھی منظوری دی تھی جس سے سرکاری خزانے پر 18 ارب روپے سے زائد کا بوجھ برداشت کرنا پڑا۔ برطرف ملازمین کا تعلق گروپ 2، 3 اور 4 سے ہے اور ان میں جونیئر افسران، اسسٹنٹ منیجرز، ڈپٹی منیجرز، منیجرز، ایس ای ڈی جی ایم اور ڈی سی او ملازمین شامل ہیں۔تاہم، پی ایس ایم اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ اور نان ٹیچنگ عملہ؛ ڈرائیور، فائر مین، فائر ٹینڈر آپریٹرز، پبلک ہیلتھ عملہ، سیکیورٹی گارڈز اور چوکیدار، باغبان، پیرا میڈیکل اسٹاف، کچن اسٹاف، آفس عملہ اور محکمہ خزانہ کے تمام محکموں کے کارکنان ابھی بھی نوکری پر ہیں۔ برطرفی کی خبر سے ملازمین اور ٹریڈ یونینوں کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا جس میں سیاسی عنصر بھی شامل ہو گیا۔ملازمین جو پہلے ہی انتظامیہ کے خلاف سراپا احتجاج تھے،سڑکوں پر آگئے۔سندھ کے وزیر محنت سعید غنی کا موقف تھا کہ وفاقی حکومت ملازمین اور ان کے اہل خانہ کے معاشی قتل عام کی ذمہ دار ہے۔ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ فوری طور پر ملازمین کی برطرفی کا فیصلہ واپس لے اوراسٹیل ملز کو معاشی طور پر قابل عمل بنانے کے لئے فوری طور پر پیکیج کا اعلان کرے ۔اسٹیل ملز کے برطرف ملازمین نے وفاقی حکومت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے گذشتہ روز اپنے احتجاج کو مزید بڑھاتے ہوئے گلشن حدید کے قریب ریلوے لائن پر دھرنا دیاجو کہ رات گئے تک جاری رہا جس سے پاکستان ریلوے کا نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا۔ کینٹ اسٹیشن سے دوپہر ایک بجے سے گاڑیوں کی روانگی نہ ہوسکی ‘اندرون ملک سے کراچی آنے والی تمام ٹرینوں کو حیدرآباد میں روک دیا گیا۔ ٹرینوں کی بندش سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا جبکہ مال بردار ٹرینوں کی بندش سے تاجروں کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔پاکستان اسٹیل عوامی شعبے میں 1.1 ملین میٹرک ٹن پیداواری صلاحیت کاحامل ملک کاسب سے بڑا صنعتی یونٹ ا بند ہے لیکن وفاقی حکومت ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کر رہی ہے۔وزارت صنعت و پیداوار کی سمری کے مطابق، پی ایس ایم کا-19 2018 میں اپنے ملازمین پر کل اخراجات 9.54 بلین روپے ریکارڈ کیا گیا جو کل پیداوار اور آپریٹنگ اخراجات کا 75.7 فیصد ہے۔ادارے کی مالی حالت کی وجہ سے حکومت 2013 سے ملازمین کو ماہانہ تنخواہ دے رہی ہے۔پاکستان اسٹیل نے اپنے14700 سے زائد ملازمین کے لئے کوئی انسانی وسائل کا منصوبہ تیار کیے بغیر جون، 2015 میں اپنی تجارتی سرگرمیوں کو روک دیا۔جس کے بعد 2019 میں پی ایس ایم ملازمین کی تعداد کم ہو کر9350 ہوگئی ہے۔وفاقی حکومت کے مطابق پاکستان اسٹیل پچھلے ساڑھے پانچ سالوں سے غیر عملی طور پر کام کررہا ہے اس کے باوجود حکومت نے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں کو اربوں کی ادائیگی کرنا ہے۔تنخواہوں کی مد میں حکومت کو 35 ارب روپے اور پنشن میں 20 ارب روپے ریٹائرڈ ملازمین کو ادا کرنے تھے،اطلاعات کے مطابق اسٹیل ملز پر230 ارب روپے قرض کی ذمہ داریاں ہیں اور سالانہ 15 سے 20 ارب روپے کا نقصان پہنچ رہاہے، جبکہ ملازمین کو 750 ملین روپے تنخواہ کے طور پر دیئے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ، ملز کے بیل آؤٹ پیکیجوں پر 9 ارب 20 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
1968 میں پاکستان اسٹیل کے لئے کمپنیز ایکٹ کے تحت ایک الگ کارپوریشن تشکیل دی گئی۔کمپنی ایکٹ 1913 کے تحت کراچی اور پاکستان میں دیگر مقامات پر اسٹیل ملوں کو قائم کرنا اور چلانے کا مقصد تھا۔1969ء میں، پاکستان اسٹیل نے کراچی میں اسٹیل مل کے قیام کے بارے میں فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنے کے لئے اس وقت روس کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔جس کے تحت اسٹیل مل کی تعمیر کے لئے تکنیکی مالی مدد فراہم کرنے پر اتفاق کیا۔اس بڑے منصوبے کا سنگ بنیاد 30 دسمبر 1973 کو اس وقت کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا تھا۔تعمیراتی اور تیکنیکی کام روسی ماہرین کی نگرانی میں پاکستانی تعمیراتی کمپنیوں کے کنسورشیم نے انجام دیا۔پاکستان اسٹیل کو نہ صرف مرکزی پیداواری یونٹوں کی تعمیر کرنا تھی بلکہ کام اور مہارت کی بے مثال مقدار میں شامل بنیادی ڈھانچے کی سہولیات بھی موجود تھیں۔ اس ادارے کا باقاعدہ آغاز 15 جنوری 1985 کو پاکستان کے اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق نے کیا تھا۔ملک میںاسٹیل کی ضرروریات کو پورا کرنے والے ادارہ کوکس طرح اور کس نے تباہی کے دہانے پر پہنچایا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، میرٹ کے بجائے سیاسی مداخلت،بے تحاشہ اوربلاجواز بھرتیوں نے بھی ادارے کو اس مقام پر پہنچانے میں کردار ادا کیا۔ اسٹیل مل کو گذشتہ ادوار میں بھی کئی مرتبہ نجی شعبہ کے حوالے کرنے کا پلان ترتیب دیا گیا لیکن اس پر بوجہ عملدرآمد نہیں کیا جاسکا۔ موجودہ وفاقی حکومت کیا ملازمین کی برطرفیوں اور انہیں مراعات دینے کے باوجود ملک کے سب سے بڑے صنعتی یونٹ کو بحال کرنے میں کامیاب ہو پائے گی یہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔
پاکستان اسٹیل مل کے 4500 سے زائد ملازمین فارغ
Dec 03, 2020