ملتان میں پیپلز پارٹی سرخرو لاہور کا جلسہ مریم اور کارکنوں کا امتحان

سہیل عبدالناصر
سیاست کا  آتش فشاں، راکھ  اُگل رہا ہے جس نے بصیرت اور بصارت دونوں کو دھندلا دیا ہے۔ بات   آگ اور لاوا  اگلنے  تک پہنچی تو بے قابو ہو جائے گی۔اس دھندلاہٹ کے اندر  حالات، واقعات اور خبروں کا تیز بہائو سنبھلنے اور  سمجھنے  کا موقع ہی  نہیں دے رہا جس  نے حکومت اور سیاسی جماعتوں کی قیادت  کو  بھی کنفیوز کر رکھا ہے۔  پنجاب  حکومت نے  ملتان میں پی ڈی ایم کا جلسہ روکنے کیلئے پکڑ دھکڑ کی، بعد از خرابی بسیار،  جلسہ کی اجازت بھی دینی پڑی۔ صوبائی حکومت نہ صرف  اپنے ہی وفاقی وزراء کی  تنقید کا نشانہ  بنی  بلکہ منگل کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں  بھی یہ معاملہ زیر  غور آیا۔اس دوران ، وزیر اعظم عمران خان نے  لاہور میں چوہدری برادران سے ملاقات کر کے، ایک  کلیدی اتحادی جماعت  کی ناراضگی  دور کر دی ہے۔  والدہ کی  وفات کی وجہ سے  پیرول پر رہا، مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف نے گرینڈ  نیشنل ڈائیلاگ کی تجویز کو آگے بڑھایا ہے۔ مسلم  لیگ سے راہیں الگ کرنے والے ان کے دیرینہ  رفیق اور مفاہمت  کے علمبردار چوہدری نثار علی خان نے بھی تعزیت کیلئے ان سے  ملاقات کی جس میں سیاسی امور  بھی زیر غور آئے۔ یہ ملاقا  ت بھی شہباز شریف کیلئے تقویت کا باعث بنی ہے۔  بری فوج  میں   اعلیٰ سطح کی ترقیاں، تقرر اور تبادلے  بھی  ہو گئے  جن کا انتطار تھا۔ چیف آف آرمی  سٹاف جنرل قمر جاید باجوہ اب  اس فرض سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔ پی ڈی ایم کے  پلیٹ فارم سے اپوزیشن  پانچ  پاور شو کر چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر   ملتان کا جلسہ  سابق وزیر اعظم  سید یوسف رضاگیلانی  کے نام  رہا۔ پی ڈی ایم کی احتجاجی  تحریک  کے  دبائو  اور تحرک کو برقرار کھنے کیلئے جمعہ اور ہفتہ کو احتجاج کی کال دے دی گئی ہے۔ حکمت عملی پر غور کرنے کیلئے آٹھ دسمبر کو اتحاد کے قائدین  کا اجلاس منعقد ہو گا جب کہ  تیرہ دسمبر کو  لاہور کا فیصلہ کن جلسہ منعقد ہو گا۔ ملتان میں پیپلز پارٹی سرخرو رہی،  لاہور کا مجوزہ جلسہ  مسلم لیگ(ن)   کی قیادت، بطور خاص مریم نواز  اور کارکنوں  کا امتحان ہو گا۔ ملتان میں پنجاب حکومت کی حکمت عملی نے وفاقی حکومت  کو  بھی دفاعی پوزیشن میںدھکیل دیا ہے۔یوں دکھائی دیتا ہے کہ  سردست پی ڈی ایم کا حکومت سے نہیں بلکہ کرونا کی قاتل لہر اور سرد موسم کی شدت سے مقابلہ ہو گا۔کرونا وائرس کی دوسری لہر  مسلسل قیمتی زندگیاںنگل رہی ہے۔ خدشہ ہے کہ  آئندہ دنوں میں متاثرین  کی تعداد مزید اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی سردی کی شدت میں  بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ دونوں عوامل، آٹھ دسمبر کو پی ڈی  ایم کے سربرہراہی  اجلاس میں یقیناً زیر غور آئیں گے۔  ملتان کے  جلسہ میں ہی  آصفہ بھٹو کی عملی سیاست میں پہلی اور باضابطہ رونمائی کرا دی گئی ۔ صاف دکھائی دے رہا تھا  کہ یہ  دبنگ نہیں بلکہ خاصی غیر متاثر کن انٹری تھی۔ آصفہ نے لکھی ہوئی مختصر تقریر پڑھی۔ تیز ہوا ان کے نوٹس  اڑائے جا رہی تھی۔پیپلز پارٹی کے جیالوں نے   آصفہ کے  خد وخال اور گفتگو میں بے نظیر بھٹو کی شبیہہ تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن  ان کی تقریر میں  کوئی غیر معمولی پیغام  نہیں  دیا گیا  ۔ پاکستان میں سیاست خاندانی کاروبار ہے ۔ مسلم لیگ(ن) میں مریم نواز،  پیپلز پارٹی میںبلاول بھٹو اور ان کی بہنیں،جمیعت علماء اسلام میں  مولانا اسعد محمود،  عوامی نیشنل پارٹی میں ایمل ولی خان  اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی میں محمود خان اچکزئی کے بھائی سمیت خاندانی سیاسی لیڈروں کی تیسری نسل اب  قومی سیاست کے میدان میں ہے۔ جنید صفدر سمیت  چوتھی نسل بھی کوچہ سیاست میں  آنے کیلئے پر تول رہی ہے۔خاندانی آمریت مسلط کرنے  کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کا  ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے۔ والدہ کی وفات پر چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی نے نواز شریف سے فون پر  تعزیت کی ہے۔سابق وزیر اعظم تنہائی میں ضرور سوچتے تو ہوں  گے کہ چوہدری شجاعت اور چوہدری نثار علی خان جیسے  نابغے گنوانے  کے   بعد پارٹی کے اندر اب کوئی  ایسا رہنماء نہیں رہا جو انہیں  ببانگ دھل درست مشورہ دے سکے۔ چنانچہ  کیا اب وہ وقت نہیں آگیا کہ سیاسی  جماعتوں کے مالک خاندان ، بتدریج، ان جماعتوں کو پارٹی کیڈر کے سپرد کرنے  کے عمل کا آغاز کریں جس کی بدولت پاکستان میں  سیاسی اور جمہوری عمل  پائیدار اور مضبوط ہو  گا۔ اس ضمن میں بھارت، پاکستان سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ، طرزعمل  کے اعتبار سے  بجا طور پر ایک فاشسٹ پارٹی بن چکی ہے لیکن بہرحال  ہم خیال گروہوں ، کارکنوں اور قائدین کا  ایک پارٹی سٹرکچر میں سمونے کا تجربہ اس حد تک کامیاب رہا ہے کہ بھارت کی قومی  اور علاقائی سیاست  سے  کانگرس جیسی جماعت کی چھٹی ہو گئی ہے۔ پاکستان میں مخلص سیاسی کارکنوں، دانشوروں اور راہنمائوں کی کوئی کمی نہیں۔ پاکستان کو جدید جمہوری ریاست بنانے کیلئے  اس حوالے سے دلیرانہ پیشرفت کرنے کی  اشد ضرورت ہے۔ کرکٹ کھیلی تو وزیر اعظم عمران خان نے ہے لیکن شریف خاندان ، نہایت  مستقل مزاجی اور مہارت  کے ساتھ  جارحیت اور مفاہمت کے دونوں بیانیئے بڑھانے  کے تمام تر مواقع سے استفادہ کر کے کھیل کی مہارت کا عمدہ مظاہرہ کر رہا ہے۔ملتان کے  جلسہ میں مریم نواز نے کہا ہے کہ  صرف دو  سلیکٹرز، وزیر اعظم عمران خان  کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔  بالکل واضح ہے کہ مریم نواز  کے مخاطب کون ہیں۔ اس کے برعکس، ان کے چچا، شہباز شریف نے  والدہ کی  نماز جنازہ اور تدفین کے  فوراً بعد  گرینڈ  نیشنل  ڈائیلاگ کی تجویز کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...