حکومتی پابندی برقرار لاہور کا جلسہ کرنے دینے کا عندیہ بھی

ندیم بسرا
ملک میں پی ڈیم ایم کے جلسے اور کورونا کے وارکا تسلسل جاری ہے ،سیاسی جلسوں سے حکومت میںدبائو اور کورونا کے بڑھتے کیسزمیں شہریوں میں ذہنی اذیت ،دونوں طرف برقرار ہے دیکھا جائے توسرد موسم میں شدت دونوں طرف ہی قائم ہے ۔’’ملتان جلسہ  کسی صورت نہیں ہونے دینگے ‘‘اس قسم کے بیانات حکومتی ترجمانوں کی طرف سے مسلسل داغے جاتے رہے مگر ہوا کیا، جلسہ ہوہی گیا ۔اگر حکومت نے جلسہ اسی طرح منعقد کروانا تھا تو اس سے پہلے جو مشق حکومت کے سرکاری اداروں کی طرف سے کی گئی۔ کنٹینٹر لگا ئے گئے ،پکڑ دھکڑ،گرفتاریاں ،رکاوٹیں یہ سب حکومت کی بہترین حکمت عملی کو ظاہر نہیں کرتی ۔جس طرح مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے کہا کہ تین گھنٹے کے جلسے کو تین دن کا جلسہ بنانے پر حکومت کا شکریہ اداکرتا ہوں ۔یہ بیان بھی حکومت کے لئے کسی چیلنج  سے کم نہیں۔ خود وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ تصادم کے حق میںنہیں جلسہ کی تمام رکاوٹیں ہٹادیں اس طرح کی صورت حال میں پی ڈی ایم کا جلسہ ہوجانا ہی بہتر تھا ۔اب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جلسوں پر پابندی برقرار ہے مگر اس کو ورکیں گے نہیں ۔ قانون کے مطابق کاروائی ہوگی اور لاہور کے جلسے کو بھی ہونے دینے کا عندیہ دیا ہے ،اس تناظر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کی اصل پالیسی ہے کیا ؟۔اس قسم کی پالیسی کو براقرار رکھنے کے لئے کیا حکومت  آگے بھی کچھ سوچ رہی ہے ؟ ۔میرا خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اس ساری سیاسی صورت حال کو از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ پی ڈی ایم کے جلسوں سے حکومت پر دبائو ضرور بڑھا ہے مگر حکومت ابھی تک اپنے پائوں پر قائم ہے اورعوامی تائید حکومت کوحاصل ہے۔اس کی بڑی مثال ’’گلگت بلتستان ‘‘میں پی ٹی آئی کی واضح کامیابی اور حکومت کا بن جانا ہے ۔عمران خان کو یہ کریڈٹ توجاتا ہے کہ انہوں نے نوجوان قیادت  کو آگے لانے کے لئے قوم میں نئی روح پھونکی ۔ ملتان کے جلسے میں آصٖفہ زرداری کی زبردست انٹری اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ملک کی بھاگ دوڑ نوجوان نسل کے ہاتھ ہے۔یہ نوجوان نسل کون ہونی چاہئے ؟ ۔اس میں یہ ضرور ہونا چاہئے کہ نئی نوجوان قیادت انہیں جماعتوں کے سربراہوں کے بیٹے ،بیٹیاں ،بھانجے بھتیجیاں شامل نہ ہوں۔عمران خان کا کہنا ہے کہ  ملک میں موروثی سیاست کا خاتمہ  کیا جائے ،روایتی موروثی سیاست ختم کرکے ہی ملک  کامیابی کی طرف بڑھتا  ہے۔ اگر سیاسی لیڈرز کے رشتہ دار ہی  ملکی سیاسی  جماعتوں سربراہ بنیں گے تو اہل لوگ کبھی آگے نہیں آسکیں گے بلکہ چند خاندانوں کو نوازنے والی بات رہ جائے گی ۔دوسری جانب جب حکومت جلسوں پر پابندی برقرار رکھنے کی بات کرتی ہے تو یہ بات تو سو فیصد درست ہے کہ ملک میں کورونا کی وباء پھر پھیل رہی ہے جس سے عوام کی زندگیوں کو خطرات کا سامنا تو ہے عوام کی جان و مال کی ذمہ داری حکومت  پر ہی ہوتی  ہے اور انہی کو سوچنا پڑتا ہے مگر اپوزیشن کے سوچنے اور سمجنھے کا اپنا انداز ہے۔ عمران خان کا یہ ماننا ہے کہ اپوزیشن کے جلسوں کا مقصد ’’این آر او‘‘ مانگنا ہے جو کبھی نہیں دیا جاسکتا۔ اب بات پھر لاہور کے جلسے پر آکر رک جاتی ہے۔ لاہور کی بات ہوگی تو پنجاب کی بات ہوگی تو اب حکومت پنجاب اس جلسے کے لئے کیا حکمت عملی وضح کرتی ہے کیونکہ وزیراعظم عمران خان نے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار پر مکمل اعتماد کیا ہوا ہے وہ یہ بات بار ہاکہ چکے ہیں کہ’’ عثمان بزدار بہترین وزیر اعلی‘‘ ہیں اور وزیراعلی پنجاب اپنے اقدامات سے یہ بات ثابت بھی کررہے ہیں جس طرح وہ سچی لگن اور محنت کے ساتھ پنجاب کی ترقی کے لئے اقدامات کررہے ہیں یقینا وہ قابل ستائش ہیں ۔پنجاب کی ترقی کے بڑے منصوبے راوی اربن پر سب کی نظریں جمی ہوئی ہیں اس کے علاوہ شہروں میں گرین الیکٹرک بسیس چلانے کامنصوبہ ،شہروں میں انڈر پاسز ،مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے مشینری کو حرکت دینا،کھلی کچہریوں میں لوگوں کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دینا،تھانہ کچہری کا کلچر تبدیل کرنا سمیت دیگر عوامی مسائل کی  طرف توجہ دے رہے ہیں ۔عثمان بزدار کے قریبی حلقوں کا یہ ماننا ہے کہ وہ روایتی سیاست پر یقین نہ رکھنے والے اور اپنے آپ کو سستی شہرت کے حامی خیالات کے انسان نہیں ہیں وہ اپنے کام کو عوام کی فلاح کے وقف کرنے والے انسان ہیں ۔پنجاب کی بیوروکریسی کی بات کریں تو ان کا کہنا ہے کہ ماضی کے حکمران ان سے’’ تضحیک آمیز سلوک ‘‘رواں رکھتے تھے مگر وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار شفیق اور محبت کرنے والے انسان ہیں ان سے جب بھی ملاقات کرتے ہیں تو ان کے ساتھ عزت و احترام کارشتہ برقرار رکھتے ہیں اور ان کے احکامات کی مکمل بجاآوری بھی کی جاتی ہے یقینا اس قسم کے اقدامات سے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی شخصیت کے مثبت پہلووں  اجاگر  ہوئے ہیں۔ عمران خان کا ان پر اعتماد اور پنجاب میں ترقی کایہ سفر جاری رہا تو پنجاب ملک کے سبھی صوبوں کے لئے مثالی صوبہ ثابت ہوگا جس کی تقلید کرنا سبھی صوبوں پر لازم ہوجائے گا ۔میرے ایک دوست محبوب اسلم نے مجھے یہ ایک خوبصورت شعر بجھوایا سوچا اس کو قارئیں تک ضرور پہنچائوں۔
’’اس دور نادہند میں کیا مانگتے ہیں آپ ؟؟
‘‘انسان ‘‘کھو گیا ہے خدا مانگتے ہیں آپ ‘‘

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...