علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ …ع
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی طرح میری نظر میں شاعری بھی قلم کی دنیا میں صنف ِ نازک کی حیثیت رکھتی ہے جس کی نوک پلک‘ وزن یا ردیف قافیہ میں ذرا بھی اونچ نیچ ہو جائے تو اسکی نزاکت جاتی رہتی ہے۔ ایک خوبصورت شعر اسی صورت میں اثرپذیر ہوتا ہے جب شاعر ایک خاص کیفیت میں معمور ہو کر خود پر آمد ہونیوالے لفظوں کو لڑی میں پرو کر قرطاس پر اس طرح بکھیرتا چلا جاتا ہے کہ ان لفظوں کی تاثیر دل کی گہرائیوں میں اترتی چلی جاتی ہے اور پھر نہ صرف روح کو ہی تروتازہ کرتی بلکہ دل و دماغ کو ایسی لطافت عطا کرتی ہے کہ لب مسکرائے بغیر نہیں رہتے۔ زیر نظر کتاب ’’کلام سعید‘‘ سعید آسی صاحب کا ایسا مجموعہ ہے جو اپنے اندر جہاں خوبصورت یادیں لئے ہوئے ہے‘ وہیں غم و اداسی کے کئی مدوجزر بھی سموئے ہوئے ہے۔
آسی صاحب کو میں نے بنیادی طور پر ایک صحافی کی صورت میں دیکھا ہے جن کے بہترین اداریے اور کالم قارئین کیلئے دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ اداریوں میں ان کا آہنی قلم حکمرانوں اور سیاست دانوں کے کردار و بیان سے اصل مفہوم کشید کرکے عوام الناس کے سامنے لاتا ہے اور انکے کالموں کی صورت میں یہی قلم مسائل کے دلدل میں پھنسے عوام کی آواز بن کر اشرافیہ کے ضمیروں کو جھنجوڑتا ہے۔ صحافت کے میدان کی تلخیاں لکھنے والے قلم کے ساتھ شاعری جیسی نرم و نازک پگ ڈنڈی پر چلنا ایک انوکھا تجربہ لگتا ہے کیونکہ صحافت اور شاعری دونوں ہی ہم ساز نہیں ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ بقول انکے شاعری کیلئے انہوں نے کسی استاد سے اصلاح نہیں لی۔وہ اپنے پنجابی مجموعہ ’’رمزاں‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اپنے شعری سفر دے آغاز توں ہن تک میں نہ کسے شاعر نوں باقاعدہ استاد پکڑیا تے نہ ای کسے کولوں اپنی شاعری دی اصلاح کران دی ضرورت محسوس کیہتی اے۔ صرف اپنی ہک غزل طالب جالندھری نوں وکھائی سی پر اوہناں نے میرے ہک شعر دی جس طرح ’’اصلاح‘‘ کیہتی اوہدے نال شعر دا مفہوم ای بدل گیا۔ ایس لئی اصلاح نوں قبول نہ کیہتا۔‘‘ لہٰذا انکی شاعری پڑھ کر ہرگز یہ محسوس نہیں ہوتا کہ انہوں نے کسی استاد کی اصلاح کے بغیر ہی تُک بندی کی ہے‘ ہر ردیف کا تعلق قافیے سے اس طرح جوڑ دیا کہ وہ اپنی مثال آپ نظر آتا ہے۔ چنانچہ کلام سعید سے جب خود ہم کلام ہوئے تو اپنے ہی دل کی نازک رگیں ٹوٹتی محسوس ہوئیں۔ انکی شاعری میں زخم خوردہ اور غم زدہ لمحات بھی نظر آئے تو کہیں پر محبوب کی مجبوریوں سے سمجھوتہ کرتی بھی نظر آئی۔ ایک جگہ اپنے محبوب سے کچھ اس طرح ہم کلام ہوئے کہ…؎
سوچ میں بیٹھے ہیں ہم تم‘ اس سے آگے کیا کریں
کیا یہی اچھا نہیں کہ کوئی سمجھوتہ کریں
کلام سعید کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس میں آسی صاحب کے تین شاعری کے مجموعے ’’تیرے دکھ بھی میرے دکھ ہیں‘‘… پنجابی مجموعہ ’’سوچ سمندر‘‘ اور پنجابی قطعات ’’رمزاں‘‘ کو یکجا کیا گیا ہے جو قارئین ان مجموعوں سے محروم رہ گئے تھے‘ وہ کلام سعید میں ان تینوں سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ خوبصورت ٹائٹل اور سنہری کناروں سے مزین صفحات پر اس مجموعے کو قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل نے سجایا ہے جس کا کریڈٹ علامہ عبدالستار عاصم صاحب کو جاتا ہے۔ پنجابی زبان کی شیرینی سے کون نہیں واقف‘ اسکی ادائیگی میں اگر ’’نزاکت‘‘ شامل ہوجائے تو اس زبان کا ایک ایک لفظ شہد کی مٹھاس میں گھلا محسوس ہوتا ہے اور سننے اور پڑھنے والا شہد کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو…؎
میرا تہاڈا وَیر ازل دا
چلدا اے تے چلدا رہسی
اوہدی ہار مقدر سمجھو
جیہڑا وی چپ کرکے بہسی
’’سوچ سمندر‘‘میں انکی سوچ واقعی سمندر کی طرح گہری نظر آتی ہے۔ شرط یہی ہے کہ دن کے بکھیڑوں سے فارغ ہو کر کلام سعیدسے رات کی تنہائی میں ہم کلام ہوا جائے تو اسکی ایک ایک رمز کو جان کر اس سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ کلام سعید کی نشست سے فارغ ہوا تو خود کو ایک عجیب سی اداسی میں گھرا پایا جس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ کلام سعید قاری پر اپنا سحر طاری کردیتی ہے۔ کتاب کے انتساب پر نظر ڈالی جائے تو مصنف کے عمر بھر کے اکیلے پن کی تھکان اترتی نظر آتی ہے ۔ کہتے ہیں:
’’اپنی شریک حیات ثمینہ سعید کے نام جس نے ہر دکھ سکھ میں یہ نازک اور مقدس رشتہ نبھایا اور امتدادِ زمانہ میں کبھی مجھے اکلاپے کا احساس نہیں ہونے دیا۔‘‘
عمراں تیکر روگی بنیئے
عمراں تیکر ساتھ نبھایئے
چلیں تسلی ہوئی کہ عمر کے کٹھن لمحات گزارنے کے بعد ایک خوبصورت زندگی شریک حیات کی صورت میں ہر پل انکے ساتھ موجود ہے جس نے انہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑا۔