پاکستان کی سماجی کیفیت کسی بھی لحاظ سے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ بلدیاتی نظام کو معطل کیا جائے جس معاشرے میں لوگوں کے بنیادی حقوق جوے شیر لانے کے مترادف ہوں لوگوں کو انصاف، حقوق اور اپنے دیگر مسائل کے حل کیلئے اذیت ناک مراحل سے گذرنا پڑتاہو وہاں کم از کم بلدیاتی نظام لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا فریضہ تو ادا کرتا رہتاہے کسی بھی حکومت کی اولین ترجیح عوام کی خوشنودی کا نظام ہوتا یہ ہماری قومی کی بد نصیبی نہیں تو اور کیا ہے بلدیاتی سطع پر قانون بھی تخلیق کر لیا گیا ہے اسکے باوجود موجودہ حکومت ڈھائی سال گزرنے کے باوجودبلدیاتی انتخاب کروانے میں لیت ولعل سے کام لے رہی ہے جس کی عدالت عظمٰی کو بھی تشویش ہے لیکن حکومت کے پاس کرونا سمیت کئی بہانے موجود ہیں بقول شاعر۔۔
جو آنا چاہو ہزار رستے نہ آنا چاہوتو عذر لاکھوں
مزاج برہم،طویل رستہ،برستی بارش،خرا ب موسم
1973 کے آئین کی شق نمبر 140/aکے تحت صوبائی حکومت بلدیاتی انتخاب کروانے کی پابند ہے مہذب ممالک نے عوامی مفادات کی خاطر اور انکے بنیادی مسائل کے حل کیلئے اپنی اپنی مقامی حکومتوں کے نظام کو بھر پور فعال کر رکھا ہے اور میرے نزدیک ریاست کی فعالیت اور ترقی کی اہم ترین وجہ عوام کا ریاست کی بقاء کیلئے ہر دم تیار رہنا ہوتاہے لیکن جب عوام مایوسی کا شکار ہو جائیںتو اسکے منفی اثرات ریاست پر پڑتے ہیں اب حکومت نے بلدیاتی الیکشن نہیں کرانے تھے تو اس وقت تک سابقہ بلدیاتی نظام کو نہ چھیڑا جاتا جب تک نئے نظام کے نفاذ کا خاطر خواہ انتظام نہ ہو جاتا میں زمینی حقائق بیان کر ریا ہوں ہمیں بلدیاتی نظام کی عمیقیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے میرے مطابق اس نظام کا یہ اعزا ز یہ ہے کہ اگر اسکی وسعت سے استفادہ کیا جائے تو اس نظام کا سماجی قطر اتنا وسیع ہے کہ کشمیر،گلگت بلتستان سمیت پاکستان کے چاروں صوبوں میںملکی سلامتی کی بنیادوںکو محیط کر سکتا ہے جس پر ہماری نگاہ نہیں جا رہی اس نظام میں جہاں وفاق کو تقویت ملتی ہے وہاں صوبوں میں پھیلی ہوئی مختلف کیفیات پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے مانا کے یہ انگریزوں کا بنایا ہوا نظام ہے لیکن ہم نے اپنے ملک کے عوامی مسائل ،سماجی ڈھانچے،جغرافیائی اور نظریاتی معاملات کو مد نظر رکھ کر اس نظام کو قومی بقاء کے مطابق ڈھالناہے اس نظام کو صفائی، گلیوں کی مرمت ،سٹریٹ لائیٹ تک محدود نہ رکھاجائے اس سے امن اور خوشحالی کے ضمن میں بھی استفادہ کرنا ناگزیرہے کیونکہ یہ نظام کسی بھی ملک میںلوگوں کے بنیادی مسائل حل کرنے کا نظام ہے دیگر مسائل کی طرح امن اور خوشحالی بھی پاکستانی عوام کے بنیادی ہی مسائل ہیں آج قوم عجیب مخمصے میں پھنسی ہوئی ہے شہری بلدیاتی الیکشن کی امید لگائے بیٹھے ہیں حکومت یہ سمجھتی ہے کہ بلدیاتی الیکشن ان کیلئے رسک ہے دوسرے صوبائی حکومت آنے والی مقامی حکومت کو حکومت میں حکومت سمجھ رہی ہے تیسرا بیورو کریسی بلدیاتی نظام کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتی ہے جبکہ تہتر سالوں سے عوام نے ان سب کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام کے ساتھ ہمیشہ سوتیلی ماں والا سلوک کیا گیا ہے پاکستان میں آزاد بلدیاتی نظام ایک خواب بن کے رہ گیا ہے۔
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ایم این اے یا ایم پی اے کو بلدیاتی عہدداران کا بدل ہو سکتے ہیں ایسا نہیں ہے ان تینوں کی کیمسٹری ہی الگ الگ ہے قومی یا صوبائی ممبران کبھی بھی بلدیاتی عہدیداران کا کا بدل نہیں ہو سکتے دنیا کے ٹاپ ٹین ممالک بنیادی جمہوری نظام کی آبیاری کی وجہ سے مہذب ملک کہلاتے ہیں مانا کہ بلدیاتی ادارہ وفاقی اور صوبائی حکومت کے بعد آتا ہے لیکن بلدیاتی نظام کی یہ سائنس ہے کہ یہ مصائب زدہ زیر دستوںکے زیادہ قریب ہوتا ہے ہمارے معاشرے میںعوام کے مسائل کی کوئی اہمیت نہیں اگر آپ شہریوں کی قدر و منزلت کے معیار کوعمیق تحقیقی فکرو نظر کی روشنی میں پرکھیں تو اس اذیت ناک سچائی سے انکار ممکن نہیں ہوگا کہ پاکستانی عوام سے کئے گئے وعدوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی رہی بات بلدیاتی نظام کی تو اسکے ساتھ تویہ المیہ رہا کہ اس نظام کو ڈنگ ٹپائو پروگرام کے تحت چلایا گیا اگر ہمارے مقتدر حلقے قیام پاکستان سے بنیادی جمہوری نظام کی آبیاری کرتے تو کیا مجموعی طور پر ہماری سیاسی تربیت نہ ہوتی ہماری سیاست میں وسیع النظری پیدا نہ ہوتی۔ ہمارے عوام اپنے حقوق و فرایض سے آشنا نہ ہوتے یہ ہی روٹین ہماری قومی سیاست میں ایک ٹھہرائو پیدا نہ کرتی جو دنیا کی دوڑ کیلئے لازم و ملزوم ہوتی ہے پاکستان بلدیاتی نظام کے ضمن میں مزیدتاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا خدارا اس قوم پر رحم کیا جائے اگر موجودہ حکومت اپنی سیاسی گھما گہمی میں بلدیاتی نظام کے نفاذکو بھول گئی تو اس کا صاف مطلب ہے کہ ملک آگے نہیں پیچھے کی طرف جائے گا جس کی ذمے دار موجودہ حکومت ہوگی ۔