مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی والدہ محترمہ بیگم شمیم اختر اس دار فانی سے رخصت ہوگئیں۔ پوری شریف فیملی کیلئے اس سے بڑھ کر دکھ اور صدمہ کا لمحہ نہیں ہو سکتا۔ محترمہ بہت نیک اور عبادت گزا ر خاتون تھیں۔ گھریلو ملازموں سے زیادہ ’سچا مخبر ‘ کوئی نہیں ہوتا۔ 2007ء میں عمرہ کیلئے گیا۔ مسجد نبوی کے بالمقابل اوبرائے ہوٹل میں شریف فیملی مقیم تھی۔ مجھے ان کے ایک ملازم (نام یاد نہیں رہا) نے بتایا کہ ہم تو آدھا سپارہ پڑھیں تو سر میں درد ہو جاتا ہے مگر میاں صاحب کی والدہ فجر کے بعدسات آٹھ گھنٹے تلاوت کر کے نہیں تھکتیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت اور زندگی عطا فرمائے۔
بیگم کلثوم نواز کی جدوجہد کے دوران کیپٹن صفدر کی وساطت سے ان سے انٹرویو کا موقع ملا جسے میں نے اپنی کتاب ’بیگم کلثوم نواز کی سیاسی جدوجہد ‘ کا حصہ بنایا تھا مگر یہ کتاب تادم تحریر اشاعت کی سرخروئی حاصل نہ کر سکی کہ ہر پبلشر تقریباً تین سو صفحات پر مشتمل کتاب شائع کرنے کا معاوضہ تین سے پانچ لاکھ روپے کا بتاتا ہے لیکن جوں ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب بیگم کلثوم نواز سے متعلق ہے تو یہ تخمینہ اڑان بھر کر پندرہ لاکھ اور اس سے کم دس لاکھ تک پہنچ جاتا ہے اور ساتھ ہی ایسے مشوروں سے نوازا جاتا ہے کہ آپ ان سے کہیں ان (شریف فیملی) کیلئے اتنے پیسے کوئی مسئلہ نہیں وہ فوراً دے دینگے۔
خدائے بزرگ و برتر نے آج تک سوائے اخباری مالکان کے کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی نوبت نہیں آنے دی چنانچہ وہ کتاب آج بھی شرمندہ اشاعت نہیں ہو سکی۔ محترمہ بیگم شمیم اختر سے بیگم کلثوم نواز کی سیاسی جدوجہد اور ذات کے حوالے سے یہ گفتگو ساس کی نظروں میں بہو کی حقیقی آئینہ دار ہے ۔ مرحومہ کو خراج عقیدت کے طور پر نذر قارئین ہے۔
س۔ بیگم کلثوم نواز اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔مشرف آمریت کیخلاف باقاعدہ جدوجہد کا فیصلہ کس نے کیا تھا۔ میاں شر یف صاحب نے، میاں نواز شریف صاحب نے یا خود بیگم کلثوم نواز صاحبہ نے۔
بیگم شمیم اختر۔ یہ فیصلہ بہت غور و خوض کے بعد بیگم کلثوم نواز نے خود کیا تھاا ور میری موجودگی میں میاں شریف صاحب سے رہنمائی حاصل کی ۔ ا س کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر میری پوتی مریم نواز بھی موجود تھی ۔ یہ ماشاء اللہ بہت سمجھ دار ہے ۔ اس نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا اوربیگم کلثوم نواز کے اس فیصلے سے اتفاق کر لیا گیا۔
س۔ بیگم کلثوم نواز مکمل طور پر ایک گھریلو خاتون ہیں ۔ اپنی تحریک کا آغاز کرنے کیلئے جب انہوں نے پہلی بار گھر کی دہلیز پار کی تو ان لمحات میں آپ کے ذاتی جذبات کیا تھے ۔
بیگم شمیم اختر۔قدرتی طور پر فکرمندی تو تھی کیونکہ مقابلہ جنرل مشرف سے تھا جس کے پیچھے فوج کی قوت تھی اور کچھ یہ بے یقینی سی بھی تھی کہ مسلم لیگ کے کارکن اور عوام کتنا ساتھ دینگے۔ بہرحال انہیں رب کے حوالے کیا اور ان کیلئے کامیابی اور خیر خیریت کی اپنے رب کے حضور دعا کرتی رہی۔
س ۔ میاں شریف صاحب کی کیا کیفیت تھی۔
بیگم شمیم اختر۔ انکے ساتھ طویل رفاقت میں کسی بھی معاملے میں فکر مند نہیں دیکھا مگر اس روز وہ مجھے کچھ فکر مند سے نظر آئے لیکن وہ بہت مضبوط شخصیت کے مالک ہیں۔ اپنی فکر مندی کچھ زیادہ ظاہر نہیں ہونے دی۔
س ۔ کیا آپ کو اور میاں شریف صاحب کو یقین تھا کہ آپ کی بہو جو ایک گھریلو خاتون ہیں ، ایک فوجی ڈکٹیٹر سے ٹکر لے سکیں گی۔
بیگم شمیم اختر۔بے شک وہ گھریلو خاتون ہیں لیکن وہ پڑھی لکھی ہیں۔ معاملہ فہم ہیں۔ میاں نواز شریف کی شریک زندگی کی حیثیت میں سیاسی و ملکی معاملات سے ان کا بالواسطہ تعلق رہا ہے۔ سیاسی معاملات میں میاں نواز شریف سے انکی بات چیت چلتی رہتی تھی اس لئے یہ اعتماد تھا کہ انشاء ا للہ اپنی تحریک بہت اچھی طرح چلا سکیں گی۔
س۔ آپکے بیٹے میاں نواز شریف اور میاں شہبازشریف جیل میں ہیں ۔ آپکے پوتے حسین نواز کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ آپکو سب سے زیادہ فکر کس کی ہے۔
بیگم شمیم اختر۔فکر تو سب کی ہے مگر قدرتی طور پر حسین کی زیادہ فکر ہے وہ بچہ ہے اور اس کا سیاست سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔
س۔ کیا آپ کو خدشہ ہے کہ بیگم کلثوم نواز کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
بیگم شمیم اختر۔ان حالات میں خدشات تو ہر قسم کے ہو سکتے ہیں مگر میں سمجھتی ہوں کہ بیگم کلثوم نواز کو گرفتار کیا گیا تو شدید عوامی ردعمل ہو گا اس لئے شاید جنرل مشرف اس حد تک نہ جائے ۔ ویسے بیگم کلثوم نواز ہر صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے عزم لیکر میدان میں آئی ہیں۔
س ۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شر یف سے گرفتاری کے بعد آپ کی پہلی ملاقات کہاں ہوئی ۔اٹک جیل میں یا کراچی کی عدالت میں۔ آپ کی اس وقت کیا کیفیت تھی۔
بیگم شمیم اختر۔ ایسی حالت میں ایک ماں کی جو کیفیت ہو سکتی ہے تاہم ہم ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے رہے۔
س ۔ آپ کو یہ خبر سب سے پہلے کب ملی کہ میاں نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ہے آپ کا فوری ردعمل کیا تھا۔
بیگم شمیم اختر۔ہمارے ایک ملازم نے خبر دی۔ پھر کلثوم کا فون آیا مگر فوراً ہی ہمارا رابطہ کٹ گیا۔ دوہری پریشانی تھی ۔ ایک نواز شریف کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا دوسرے کلثوم ماڈل ٹاؤن میں بچیوں کے ساتھ اکیلی تھیں ۔ وہ جب تک جاتی عمرہ نہیں پہنچ گئیں، وقت بہت ذہنی اذیت میں گزر ا البتہ میاں شریف مجھے حوصلہ دیتے رہے۔ اللہ بہتر کرے گا۔
س۔حسین نواز سے ملاقات کیلئے جب بیگم کلثوم نواز نے بھوک ہڑتال کی کیا اس میں میاں شریف اور آپ کا مشورہ شامل تھا۔
بیگم شمیم اختر۔ یہ ان کا اپنا فیصلہ تھا مجھے اور میاں صاحب کو انکی صحت کی فکر تھی تاہم ان کایہ فیصلہ مؤثر ثابت ہوا اور انکی سائرہ(حسین نواز کی اہلیہ) اور مریم کیساتھ ملاقات کرادی گئی۔ البتہ یہاں موجود فوجیوں نے بھوک ہڑتال ختم کرانے کی بہت کوشش کی ۔ یہ خبر کسی طرح میڈیا تک پہنچ گئی اور جنرل مشرف پر دباؤ بڑھ گیا۔ (جاری)