اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کی وزرائے خارجہ کونسل کا 47 واں اجلاس 27 اور 28 نومبر 2020 کو نائیجر کے شہر''نیامی '' میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کا عنوان '' امن اور ترقی کے لیے دہشت گردی کے خلاف اتحاد'' تھا۔ اس اجلاس کو مشرق وسطیٰ اور دنیا میں تیزی سے وقوع پذیر ہونیوالے واقعات کے تناظر میں خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ دنیا بھر کی نظریں اس اجلاس پر لگی ہوئیں تھیں۔ اس اجلاس کی خاص بات اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی وفد کے ساتھ شرکت تھی کیونکہ کرونا وبا سے پیدا صورتحال سے زیادہ تر بین الاقوامی اجلاس ''ورچوئل سیشن '' کے ذریعے منعقد کیے جا رہے ہیں۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC)کی وزرائے خارجہ کونسل کے 47ویں اجلاس میں پاکستان کی جانب سے پیش کی جانے والی مقبوضہ کشمیر اور اسلامی فوبیہ کے متعلق قردادوں کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔
اسلامی تعاون تنظیم کے 57 اسلامی ممالک رکن ہیں۔ جبکہ 5 مسلم آبادی والے ملکوں کو مبصر کی حیثیت حاصل ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم دنیا کی تقریباً 1.8 ارب آبادی کی نمائندہ تنظیم ہے اور دنیا کی کل آبادی ایک اندازے کیمطابق 7.8 ارب ہے۔ مبصر ملکوں میں بوسنیا ہرزیگونیا، وسطی افریقی جمہوریہ، شمالی قبرص، تھائی لینڈ اور رشیاء شامل ہیں۔ اسلامی تعاون تنظیم کی بنیاد 25ستمبر 1969 کو رکھی گئی اور اس کا ہیڈ کوارٹر سعودی عرب کے شہر جدہ میں واقع ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کا پہلا اجلاس مراکش کے شہر رباط میں 3ستمبر 1969 کو منعقد ہوا۔ جبکہ پاکستان نے اسلامی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے 11ویں اجلاس کی میزبانی 3 ستمبر 1980 کو اسلام آباد میں کی۔پاکستان نے اسلامی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے 21 ویں اجلاس کی دوسری دفعہ میز بانی کراچی میں 25سے 29 اپریل 1993 کو کی۔ تیسری دفعہ پاکستان نے اسلامی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے34 ویں اجلاس کی میزبانی 15 سے 17 مئی 2007 تک اسلام آباد میں کی۔
اس اجلاس میں اسلامی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کا 48 واں اجلاس اسلام آباد میں منعقد کروانے کا فیصلہ کیا گیا جو کہ آئندہ سال 2021 میں ہو گا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اجلاس کے اختتام پر اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کو نسل کے اراکین کو خصوصی طور پر آئندہ 48 ویں اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ نائیجر میں او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے 47 ویں اجلاس میں پاکستان کی پیش کی گئی قردادوں کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر 7 سے زائد دہائیوں سے سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہونے کے باوجود بھارت کی طرف سے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموںو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دیناسراسر سلامتی کونسل کے قراردادوں کی توہین ہے۔ جس کا مقصد مقبوضہ خطہ میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا اور شہریوں سے استصواب رائے کا حق چھیننا ہے۔ پاکستان کے کامیاب افغان امن مذاکرات میں کردار کو سراہا گیا۔ اسلامی تعاون تنظیم کو قائم ہوئے 50 سال سے زائد ہو چکے ہیں مگر اسلامی تعاون تنظیم دنیا میں مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ مسئلہ فلسطین ہو یا مسئلہ کشمیر۔ مسئلہ فلسطین مشرق وسطیٰ میں اہم ترین تنازعہ تصور کیا جاتا ہے۔ جو کہ مشرق وسطیٰ میں کئی جنگوں کا سبب بن چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ اسلامی تعاون تنظیم کے 57 ممالک میں سے 56 اقوام متحدہ کے رکن بھی ہیں۔ جبکہ صرف ایک ملک فلسطین اقوام متحدہ کا رکن نہ ہے۔ او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس اس وقت منعقد ہوا جب اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان باقاعدہ روابط کا چرچا عام ہے۔ اسرائیلی وزیر تعلیم نے سعودی عرب اور اسرائیلی احکام کی اعلیٰ سطح کے رابطوں کی تصدیق کی ہے جبکہ دوسری طرف عرب ممالک میں متحدہ عرب امارات سر فہرست ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اورتمام سفارتی تعلقات اسرائیل کے ساتھ قائم کر لیے ہیں جبکہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات میں باقاعدہ جہازوں کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کی بنیاد رکھتے وقت مسئلہ فلسطین کو خصوصی موضوع بحث بنایا گیا تھااور خیال کیا جارہا تھا کہ مسلم ممالک مؤثر حکمت عملی اپنائیں گے اور اسرائیل کو مجبور کرینگے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو خالی کر دے جبکہ اسرائیل نے دارالخلافہ تل ابیب کو تبدیل کر کے یروشلم کر دیا۔ مزید براں کہ 6 دسمبر 2017 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے باقاعدہ طورپر یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی ایمبیسی تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ ایک دفعہ پھر تنازعہ فلسطین نے شدت اختیار کر لی تھی مگر وقت کے ساتھ تبدیلی دارالخلافہ بھی عرب ممالک پر اثر نہ ڈال سکی بلکہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہونا شروع ہو گئے۔
او آئی سی وز رائے خارجہ کونسل کا 46واں اجلاس متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابو ظہبی میں 1 اور 2 مارچ 2019کو منعقد ہوا تھا اور اس اجلاس کی خاص بات بھارت کی وزیر خارجہ ششما سراج کی خصوصی دعوت پر اجلاس میں شرکت تھی۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے آئندہ اجلاس میں بھی بھارت کو شرکت کی دعوت دی جاتی رہے گی اور بھارت کی موجودگی میں او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے پلیٹ فارم سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی قردادیں پیش کرنا مشکل ہو جائیگا۔ مگر پاکستان کی مؤثر اور کامیاب خارجہ پالیسی سے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے 47 ویں اجلاس میں بھارت کو دعوت نامہ نہ دیا گیا بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر پاکستان کی پیش کردہ قراداد کو متفقہ طور پر منظور بھی کر لیا گیا۔
پاکستان کی جانب سے اسلام فوبیا کے خلاف پیش کی جانیوالی قرارداد دور حاضر کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ فرانس کے وزیر اعظم کے توہین رسالت ؐ موضوع پر متنازعہ بیان نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروع کیا ہے۔ اس تناظرمیں او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے پلیٹ فارم سے اسلام مخالف پروپیگنڈہ کیخلاف مؤثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب ضروری ہے کہ دہائیوں سے ممالک کے درمیان تصفیوں کی جانب پیشقدمی کی جائے اور بین الاقوامی قوانین کا احترام کیا جائے۔ مسلم ممالک کے درمیان مربوط روابط سے ہی تصفیہ طلب مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔