عام دنوں جیسا ایک دن 22نومبر 2020 بھی ہے لیکن اس دن میں ایسا بھی ہوا جس نے مستقبل قریب یعنی چند ہفتوں یا چند مہینوں میں پاکستان کو کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا ضرور کرنا ہے!! وہ آزمائش اسطرح ہوگی کہ 22کروڑ پاکستانیوں میں سے چند لاکھ، چند لاکھ سے مراد پانچ، دس، پندرہ نہیں یا اس سے زائد نہیں ہیں، چند لاکھ سے مراد ایک ڈیڑھ لاکھ زیادہ سے زیادہ ہے۔ یہ ایک ڈیڑھ لاکھ سے کم چند ہزار پر بھی مشتمل ہو سکتے ہیں۔ ملک و قوم کیلئے آزمائش اسطرح بنیں گے کہ انہوں نے آنیوالے دنوں میں ہر وہ کام کرنا ہے جو اداروں اور حکومت کیخلاف جاتا ہو اسلئے کہ !22نومبر 2020کو پشاور میں دو سیاسی خاندانوں اور انکے خریدے ہوئے تین چار بندوں کے اکٹھ نے جو اجتماع کیا اس میں!! مولانا فضل الرحمان نے فتوی صادر فرمایا کہ ہم جس کام پر نکلے ہیں اس سے واپس جانا گناہ کبیرہ ہے۔ تقریباََ نصف درجن لوگوں کے جس اجتماع میں یہ فتویٰ صادر ہوا، ان میں نصف درجن لوگوں کو پاکستان کے میڈیا کا کچھ حصہ ہی نہیںپی ٹی آئی کی حکومت بھی ، اپوزیشن بھی اور پی ڈی ایم وغیرہ کا نام دیکر لفظ اپوزیشن کی وہ توہین کر رہی ہے جو اس سے پہلے کسی ڈکٹیٹر نے بھی نہیں کی اس لیے کہ! اپوزیشن کا کردار جمہوریت میں عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا اور حکومتی کارکردگی پر تنقید برائے اصلاح کرناہوتا ہے، کوئی NROمانگنا، اپنے اداروں، اپنے عدالتی فیصلوں کیخلاف جانا یا بھارتی موقف کی بھرپور حمایت کرنا وغیرہ اپوزیشن کا کام نہیں ہوتا۔ اس نصف درجن گروہ کا کوئی کام جمہوریت کے زمرے میں نہیں آتا، انکی ہر بات انکے ذاتی مفاد کے گرد گھومتی ہے تو انہیں اپوزیشن وغیرہ نہیں کہا جا سکتا، یہ جب اپوزیشن ہی نہیں تو اپوزیشن کا سیاسی اکٹھ پی ڈی ایموغیرہ کس طرح ہو سکتے ہیں؟ نہیں ہو سکتے تو پاکستانی قوم انہیں کوئی سیاسی یا جمہوری نام و عہدہ دینے کو تیار نہیں ہے۔پی ٹی آئی حکومت اور میڈیا یا چند بچے کچھے مفروروں، اشتہاریوں کو کوئی نام و مقام اپنی خوشی سے دے رہے ہیں تو 22کروڑ پاکستانی اس میڈیا و حکومت کو کیسے روک سکتے ہیں؟ بد امنی و انتشار پھیلانے کیلئے ایک لاکھ سے کم چند ہزار لوگ بھی کافی ہوتے ہیں جنہیں کوئی بھی ملک دشمن طاقت اسلام کو بدنام کرنے اور ملک کو دہشت گرد ثابت کرنے کیلئے استعمال کر سکتی ہے۔ ان لوگوں کو کسی مذہبی فتویٰ کا سہارا ملا ہو تو اسکے بعد ٹی ٹی پی، بلوچستان کا بھارت میں پناہ لئے طبقہ اور دیگر تمام دہشت گرد تنظیمیں جن کا بھارت میں موجود ہونا ثابت ہو چکا ہے، ثبوت ساری دنیا کے سامنے پیش کیے جا چکے ہیں، کو بڑی آسانی سے بھارت ان لوگوں میں شامل کر سکتا ہے جو خصوصی طور پر مولانا کے مدرسوں و سوچ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھارت سے پیسے لیکر جو پاکستانی مسلمان پاکستان میں چھپ کر دہشت گردی کرتے ہیں، وہ لوگ فتویٰ ہولڈر مدرسوں اور مدرسوں کی تنظیموںکے نوجوانوں میں شامل ہو کر کھلے عام انتشار ہی نہیں قتل عام بھی کرینگے۔ ایک عام سے ذہن میں یہ بات آسانی سے آسکتی ہے کہ اس فتویٰ پر عمل درآمد کرنیوالوں میں اپنے لوگ شامل کرنا بھارت کیلئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ جسکا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو توڑنے کیلئے گزشتہ چند دنوں میں جو بھارتی سازشیں ثبوتوں کے ساتھ سامنے آئی ہیں، ان پر عمل درآمد کا بہترین ذریعہ ہوگا یہ ’’فتویٰ‘‘۔ فتویٰ کیمطابق حکومت کو ختم کرنے کیلئے جب چند ہزار مذہبی انتہا پسند، مرنے مارنے کا جذبہ لیکر سڑکوں پر نکلیں گے تو صرف مولانا کے لوگ ہی نہ ہونگے، وہ مشرقی پاکستان جیسی مکتی باہنی ہوگی جس میں بھارتی ’’را‘‘ کے علاوہ تمام دہشت گرد تنظیمیں بھی شامل ہونگی!! جب دشمن ایجنسیاں دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ فتویٰ ہولڈروں میں شامل ہونگی وہ جو بھارت چاہے گا وہ کرینگی مثلاََ جلائو، گھیرائو کے علاوہ وہ ان فتویٰ ہولڈروں اور سرکاری اہلکاروں پر قاتلانہ حملے اس لیے کرینگی کہ وہ خونی ڈرامہ کھیلا جا سکے جو مکتی باہنی بنا کر بنگال میں بھارت نے کھیلا تھا اور پاکستان کے دو ٹکڑے کیے تھے۔ بھارت کی جو سازشیں سامنے آئی ہیں انکا سارا دارومدار ہی اس بات پر ہے کہ اس نے کسی بھی طرح پاکستان میں پاکستانیوں کے ذریعے کوئی انتشار شروع کروا کر اس انتشار کو مکتی باہنی کے ہاتھ میں دے دینا ہے۔ یہ بات ہر محب الوطن پاکستانی کی سمجھ میں آتی ہے تو پھر مولانا، زرداری، اچکزئی، شیرپائو اور اسفندیار کی سمجھ میں کیوں نہیں آئی ہوگی؟ فرض کریں یہ باقی لوگ بے خبر ہوتے تو فتویٰ صادر ہونے کے بعد اس پر احتجاج ضرور کرتے کہ مولانا احتجاج کو مذہبی رنگ کیوں دے رہے ہیں؟ 22نومبر 2020 کو پشاور میں فتویٰ صادر ہوا تو ہوشمندوں کے ہوش میں آجانے کا مقام تھا، لیکن22اور 23نومبر کے ٹاک شوز دوسرے موضوعات میں مشغول رہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ مذہبی رہنماء بھی خاموش ہیں جس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ تمام مذہبی لوگوں نے مولانا کے اس فتویٰ کو قبول کر لیا ہے لیکن! ساری دنیا اور ساراپاکستان مولانا کے اس فتویٰ کو اس لیے قبول نہیں کرینگے کہ اس نتیجے میں حکومت ختم ہو یا نہ ہو، یہ ضرور ہوگا کہ پاکستان بھارت کے برابر ہوگا یا اس سے آگے نکل جائیگا۔کیونکہ بھارت چاہتا بھی یہی ہے کہ کرونا کے سلسلے میں بھارت کے مقابلے میں جو کامیابی پاکستان کو ملی ہے وہ ختم ہوجائے اور رہی سہی معیشت بھی پاکستان کی تباہ ہو جائے۔ بھارت میں ایک لاکھ کے قریب مریض روزانہ سامنے آرہے ہیں۔ اس کے ایک ہزار سے زیادہ لوگ ہر روز کرونا سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ بنگلہ دیش اور بھارت کو جو سپلائی آرڈر ساری دنیا نے دے رکھے ہیں اب وہ آرڈر پاکستان کو دیے جا رہے ہیں، فیصل آباد جیسے صنعتی علاقوں میں کام اس قدر بڑھا ہے کہ لیبر کم پڑ گئی ہے، مشکل کے باوجود پاکستان ترقی کرنے لگا ہے تو یہ بات بھارت کیسے برداشت کر سکتا ہے ؟ نہیں کر سکتا، اس لیے کہ وہ کیسے نہ چاہے گا کہ بھارت سے زیادہ کرونا پاکستان میں پھیلے جو اسی صورت میں پھیل سکتا ہے ، جب پاکستان کے اندر احتیاطی تدابیر پر عمل نہ ہو، اور یہ عمل تب تک نہیں ہو سکتا جب حکومتی اور عدالتی احکامات کو نظر انداز کرنے کیلئے کوئی مضبوط جواز نہ ہو اور وہ جواز اس فتویٰ کی صورت میں مولانا نے فراہم کر دیا ہے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے تاریخ اس بات کو کبھی نظر انداز نہیں کر ے گی کہ جس عالمی وباء کرونا کی پہلی لہر میں بھارت تباہ اور پاکستان بچ گیا تھا، دوسری لہر میں پاکستان پوری طرح کرونا کا شکا ر ہو کر تین حصوں میں تقسیم ہو جائے، اسکا تمام تر بندوبست مولانا اور انکے ساتھیوں نے کیا تھا۔ دوسری جو بات تاریخ کا حصہ بنے گی وہ یہ ہے کہ چھ سات رکنی گروہ جسے کبھی اپوزیشن تو کبھی پی ڈی ایم کا نام دیا جاتا ہے، اس گروہ نےNROکا خیال اس دن ذہن سے نکال دیا تھا جس دن گجرانوالہ میں اس گروہ کا جلسہ ہوا تھا!! وہ جلسہ پاکستان پر ہائیبریڈ وار کا ایک اجتماعی اٹیک تھا، اجتماعی اسطرح کہ اس دن اس گروہ نے بھی وہ کچھ کیا جو ہائیبریڈ وار کی پہلی ترجیح ہے۔ تیسری جو بات اس گروہ کے میڈیا سیل نے نظر انداز کر دی ہے لیکن وطن پرست
میڈیا اورسوشل میڈیا نے ضرور اٹھانی ہے وہ یہ ہے کہ !!! پاکستان کی ریاست ہی نہیں ، پاکستان کی عدلیہ بھی کر رہی ہے وہ یہ کہ نقل مکانی اور بھیر بھاڑ سے گریز کریں۔ ساری دنیا میں کرونا سے بچنے کیلئے سوشل ڈسٹینس پر زور دیا جا رہا ہے ، سب سے بڑھکر فرمان نبوی ؐبھی یہی ہے کہ خود بھی بچو اور دوسروں کو بھی بچائو، ان سب باتوں کیخلاف جانا مولانا کیلئے کس طرح جائز
ہے؟ چوتھی بات ایک سوال ہے وہ یہ کہ ایسا کونسا غیر شرعی و غیر اسلامی کام حکومت سے سر زد ہوا جسے روکنے کیلئے کسی کو قتل کرنے پر اکسانا، کسی کو قتل ہونے پر مجبور کرنا مولانا گروپ کیلئے ضروری ہے؟ اسطرح کے ہجوم میں کرونا کا کوئی مریض جائیگا تو دوسروں کی موت کا سبب بنے گا۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ مولانا اپنا فتویٰ واپس لے لیں، اس لیے کہ نقصان ہوگا پاکستان کے تمام انسانوں کا اور فائدہ صرف بھارت کو ہوگا۔