مملکت خداداد پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے ، واقعی بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ قائد اعظم اور قائد ملت کی وفات کے بعد کوئی ایسا لیڈر نہیں مل سکا جو اس ملک کو سنبھالنے کی مکمل اہلیت رکھتا ہوں۔ خواجہ ناظم الدین، سردار عبدالرب نشتر اور حسین شہید سہروردی جیسے تحریک پاکستان کے عظیم رہنمائوں کو حکومت چلانے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ اُن کی راہ میں روڑے اَٹکائے گئے اور ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسے لوگ مسلط کردیئے گئے۔ جنہوں نے جمہوری نظام کی بساط لپیٹ دی۔
’’طاقت کو خُدا کا عطیہ سمجھو مگر اُس کو حاصل کرکے خود کو خُدا نہ سمجھو‘‘ بڑامشہور قول ہے، جو تقریباً تمام ہی سیاسی پارٹیوں کے دفاتر میں آویزاں رہا، لیکن اِس پر کسی نے بھی عمل نہیں کیا۔ ایوب خان سے لے کر میاں نواز شریف ہوں یا موجودہ وزیراعظم عمران خان۔ سب نے اقتدار کا سہرا سر پرسجا کر خود کو آلِ فرعون تصور کیا اور عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھا۔ عوام کے ذریعے آنے والوں نے عوام کے ساتھ ہمیشہ غلاموں والا سلوک کیا، لیکن اللہ کی قُدرت دیکھئے سب کا انجام فرعون سے مختلف نہ ہوا۔
موجودہ سیاست جتنی گند آلودہ، خرافات اور جھوٹ سے پُر ہوچکی ہے، پاکستان کی تاریخ میں اُس کی نظیر نہیں ملتی۔ نظریاتی اختلافات اَبد سے ہیں اور اَزل تک رہیں گے۔ لیکن جس طرح کی طرزِ سیاست آج کل کی نوجوان لیڈرشپ اور اُن کے بُزرگ چیلے کررہے ہیں، الامان والحفیظ۔
کسی کی فحاشی پر مبنی ویڈیوز جاری کی جارہی ہیں تو کسی کی آڈیو ریکارڈنگ۔ تو کسی کی خواتین پر ذاتی حملے۔ یہ کہاں کی سیاست ہے؟ اس کا ایک اسلامی معاشرے اور اسلامی مملکت میں کیا تصور؟ (ن) لیگ نے شہید بینظیر بھٹو کی جس طرح کردار کشی کی تھی اُسی طرح کی سیاست اَب بھی پارٹی کی طرف سے جاری ہے اور اِس میں اپنا حصہ تحریک انصاف بھی حتیٰ المقدور ملارہی ہے۔
آج کل سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو جاری ہوئی تو دوسری طرف مریم نواز کی آڈیو جاری کردی گئی۔ تنقید اور اختلافات اپنی جگہ مگر ذاتی زندگیوں پر حملے ناقابل قبول ہیں اور مہذب معاشرے میں اس کا تصور نہیں ہوتا۔ مگر ہمارے یہاں مہذب ہے کون؟اخلاقیات کا تو جنازہ نکلا ہوا ہے۔ اپنے لیڈر کی خرافات، بُرائی اور بدعنوانی کو بھی اِتنی ڈھٹائی سے دفاع کررہے ہوتے ہیں جیسے یہی لوگ اُنہیں ہاتھ سے پکڑ کر جنّت میں لے کر جائیں گے۔ بقول حبیب جالبؔ
وظیفہ خواروں سے کیا شکایت،
ہزار دیں شاہ کو دُعائیں
مَدار جن کا ہے نوکری پر،
وہ لوگ تو نوکری کریں گے!
اَخلاقی گراوٹ اِس قوم کا طرئہ امتیاز بن چکا ہے۔ جہاں پر شعور کو صندوق میں بند کردیا گیا ہو۔ عقل و تمیز کو دفن کردیا ہو، تہذیب و تمدن سے جن کا دور سے بھی پالا نہ پڑا ہو، وہ کیا سیاست کریں گے اور کیا سیاست کی بات کریں گے۔ اِسی لیے علامہ اقبالؔ نے کہا تھا:
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جُدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
آج سیاست میں صرف چنگیزی ہی باقی ہے۔ پہلے کی سیاست پاکیزہ ہوا کرتی تھی، ایک دوسرے کے نظریے کا احترام کیا جاتا تھا۔ خود کو اللہ رب العز ت کے سامنے جواب دہ تصور کیا جاتا تھا۔ یہ باتیں اور اَخلاقیات اَب قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔
پہلے سیاست لوٹوں پر ہوتی تھی، اَب سیاست لوٹوں سے نکل پر ٹوٹوں پر منحصر ہونے لگی ہیں۔ اُمید تو یہی ہے کہ اگلا الیکشن ٹوٹوں کی بنیاد پر ہی لڑا جائے گا اور ہر جگہ ایک دوسرے کی ذاتی زندگی پر کیچڑ اُچھالا جائے گا، پگڑیاں اُچھالی جائیں گی۔ گھر کی عورتوں کی تذلیل ہوں گی۔ فقرے کسے جائیں گے۔ اخلاقیات اور تہذیب کا جنازہ نکالا جائے گا۔
روشن پاکستان، نیا پاکستان، ریاست مدینہ بہت خوبصورت اور دلکش نعرے ضرور مگر اندر سے بالکل کھوکھلے ہیں۔ عمارت اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک اُس کی بنیاد مضبوط نہ ہو۔ ہمارے یہاں بنیاد ہی بدنیتی پر مبنی ہے تو عمارت کہاں قائم رہ سکتی ہے۔ نیت میں فُتور ہو تو اعمال صالح نہیں ہوسکتے۔
نوجوان نسل کو جس راہ پر لگادیا گیا ہے وہ تباہی و بربادی کے سِوا کچھ نہیں۔ سوشل میڈیا ٹیمیں بناکر جو خرافات سوشل میڈیا پر پھیلائی جارہی ہیں۔ فحاشیات، لغویات اور بکواسیات کا جو ٹرینڈ چل گیا ہے، اُس سے نکلنا بہت مشکل ہوگا۔ جس کا پورا پورا کریڈٹ ن لیگ اور پی ٹی آئی کی قیادت کو جائے گا۔ اور یہ تاریخ میں سیاہ باب کے ساتھ درج رہے گا۔
’’ٹوٹوں‘‘ اور ’’لوٹوں‘‘کی سیاست
Dec 03, 2021