دنیا اور آخرت میں کامیابی کا دارومدار ہمارے اعمال پر ہے

مولانا زبیراحمد صدیقیؔ
 دنیا و آخرت میں کامیابی، حصول عزت اور سرخروئی کا مدار، محنت و مجاہدہ، بروقت امور کی ادائیگی، احساس ذمہ داری کے ساتھ فرائض کی فوری انجام دہی اور عزم و ہمت پر ہے، دنیا میںوہی لوگ کامیاب وکامران ہوتے ہیں، جو اپنی ذمہ داریوں کو بروقت سرانجام دیتے ہیں ۔ اسی سے روزی کا حصول، ملازمت، کاروبار، امتحان میں کامیابی، نیک شہرت، معاشرہ میں محبوبیت اور لوگوں کا رجحان وابستہ ہوتا ہے۔ آخرت میں کامیابی، جنت کا حصول، رضاء الٰہی کا پا لینا بھی اسی جذبہ، نیک ارادے، اعمال، مجاہدہ وریاضت، فرائض کی بروقت ادائیگی، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تکمیل، تندہی کے ساتھ اعمال صالحہ کا ارتکاب، معاصی اور گناہوں وغیرہ سے اجتناب بھی اسی سے وابستہ ہے۔
 اس کے مد مقابل سستی و کاہلی، ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بے بسی، احساس ذمہ داری میں کوتاہی، محنت سے جی چرانا، بد اعمالی، دنیا و آخرت میں محرومی کا ذریعہ بنتی ہے۔معاشرہ میں سستی و کاہلی، بے بسی اور کم ہمتی کا مرض روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، مرد وزن،نوجوان، بچے ، بوڑھے سبھی ان عادتوں میں مبتلاء نظر آتے ہیں، دینی طور پر نماز میں کوتاہی، روزہ رکھنے میں سستی، زکوٰۃ و صدقات کی ادائیگی میں کاہلی، فرضیت حج کے باجود ادائیگی میں تاخیر، بچوں، بچیوں کی شادی میں سستی،تلاوت قرآن ، ذکر و اذکار، صبح وشام کی دعائیں، اور دیگر دینی معمولات میں سستی، دینی ذمہ داریوں کی ادائیگی، حصول علم، پیش آمدہ مسائل کے بارے میں سوالات وغیرہ سے لاپروائی ، موت کی تیاری، قبر، حشر اور آخرت کی تیاری وغیرہ جیسے اہم امور سے ہمارے معاشرے کی کوتاہی اور سستی ڈھکی چھپی نہیں۔ والدین کی خدمت ،اولاد کی تربیت ونگرانی اور دنیوی طبقات، سرکاری، نجی ملازمین کی اپنے اپنے فرائض منصبی اور ذمیہ کاموں میں کوتاہی بھی عام سی بات ہے۔ کام کو ٹالنا’’ صبح نہیں شام، آج نہیں کل، ابھی تو وقت ہے، دیکھ لیں گے، میری عمر ہی کیا ہے، ذرا عمر گزرے گی تو اللہ کو بھی راضی کر لیں گے، ابھی دفتر، درسگاہ، مسجد جاتے ہیں ،وقت باقی ہے، تھوڑی دیر میں تیاری شروع کریں گے وغیرہ‘‘ وہ خوبصورت عنوانات ہیں جو ہمیں سستی و کاہلی کی جانب گامزن کرتے ہیں سستی بڑھتے بڑھتے بے بسی کی شکل اختیار کر لیتی ہے’’ مجھ سے کام نہیں ہوتا، میں مسجد نہیں جاسکتا مجھ سے چھ گھنٹے مطالعہ نہیں ہوتا، میں دس سال نہیں پڑھ سکتا، مجھے گھر کے علاوہ چین نہیں آتامجھ سے دکان میں نہیں بیٹھا جاتا، ملازمت مشکل ہے‘‘ جیسی باتیں بے بسی کی علامات ہوتی ہیں۔
 دنیوی طور پر بھی اناپرستی کے ہاتھوں سستی کے مارے لوگوںکی کمی نہیں، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد محض احساس تفاخر کی وجہ سے مرضی کا کام نہ ملنے پر بے روز گار، ہاتھ پہ ہاتھ دھرے، گھروں میں حقیقی فاقہ کشی پر مجبور ہے، طالب علم تعلیم میں کوتاہی کی وجہ سے ناکام اور تعلیم سے محروم ہوتے نظر آرہے ہیں، گھر کا دروازہ خراب ہے بلب ٹھیک نہیں، پنکھاکام نہیں کر رہا، چار پائی درست کروانی ہے،سبزی نہیں آئی، بچوں کو اسکول چھوڑنا ہے، دس منٹ باقی ہیں، گھروالے ہمہ وقت چیختے اور چلاتے رہے ہیں، اور صاحب خانہ ’’ابھی کرتا ہوں، کل کر دوں گا، ہاں بس دیتا ہوں بچوں کی فیس‘‘ کرتے کرتے پورے گھرانے کو ایذاء اور تکلیف میں مبتلا کر دیتے ہیں۔سرکاری ملازم وقت پر دفتر نہیں پہنچ پاتے، فائلیں بند پڑی ہیں، مطالعہ کی ہمت نہیں یا فرصت نہیں، سرکاری اور نجی کام جمود کا شکار ہیں، یہ سب امور سستی کی کارستانیاں ہیں، جو بالآخر ملازم کو عزت و روزگار سے محروم کر دیتی ہیں، تاجر اور صنعت کار دفتر جانے سے کتراتا ہے، سستی کی وجہ سے ماتحتوں، ذیلی شعبہ جات کی نگرانی نہ ہوسکنے کی وجہ سے اچانک معلوم ہوتا ہے کہ کاروبار کا دیوالیہ نکل گیا۔
 بیشتر خواتین و حضرات اپنی صحت سے متعلق سستی کا شکار رہ کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں، دل، جگر، گردہ کے امراض غفلت کی وجہ سے موت تک لے جاتے ہیں، لوگ سستی کی وجہ سے آج کا کام کل پرٹال دیتے ہیں بالآخر معاملہ سنگین بیماری یا موت تک جا پہنچتا ہے۔اسی کاہلی اور سستی جیسے موذی امراض سے نجات کے لیے جناب رسول اللہ ؐ کی مبارک ادعیہ میں ایک بہترین دعا منقول ہے:
’’حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ؐ کہا کرتے تھے: ’’اے اللہ! میں عاجزی، سستی، بزدلی، اور بڑھاپے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ اور عذاب قبر سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں، نیز زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔‘‘(صحیح البخاری:۶۳۶۷)
اہل علم نے عجز وکسل میں میں فرق تحریر فرمایا ہے’’عجز‘‘ عدم قدرت اور ’’کسل‘‘ اچھے کاموں کے کرنے کو بوجھ سمجھنے کو کہتے ہیں۔ اگر کام کرنے کی قدرت و ہمت ہی نہ ہو تو یہ عجز ہے، اور اگر کام کرنے کی قدرت و استعداد تو ہو لیکن سستی کی وجہ سے بندہ کام نہ کرے یا کام کو بوجھ سمجھے تو یہ کسل ہے اور اسی کا نام سستی ہے۔جبن سے مراد بزدلی جو اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی میں رکاوٹ ہو، اور بڑھاپے سے مراد ایسا بڑھاپا جس میں آدمی دوسروں کا محتاج بن جائے، عقل و ہواس کام کرنا چھوڑ جائیں، ان سب امور سے آپ ؐ نے پناہ مانگی ہے۔
بلاشبہ سستی کامیاب زندگی کی دشمن ہے، جبکہ بے بسی کرب ، حسرت اور کڑھن سے عبارت ہے،ان امراض سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا مقصدیہی ہے کہ اللہ پاک ان بری عادتوں اور مہلک امراض سے حفاظت فرمائیں جو دین و دنیا کی تباہی کا باعث بنتی ہوں۔ قرآن کریم نے بھی سستی جیسے مرض کا ذکر کر کے اس کی مذمت کی ہے اور سستی کو منافقین کا طریقہ بتایا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکا بازی کرتے ہیں، حالانکہ اللہ نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ اور جب یہ لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو کسمساتے(سست) ہوئے کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کے سامنے دکھا وا کرتے ہیں، اور اللہ کو تھوڑا ہی یاد کرتے ہیں۔یہ کفر و ایمان کے درمیان ڈانواںڈول ہیں، نہ پورے طور پر ان (مسلمانوں) کی طرف ہیں، نہ ان (کافروں) کی طرف۔ اور جسے اللہ گمراہی میں ڈال دے، تمہیں اس کے لیے ہدایت پر آنے کا کوئی راستہ ہرگز نہیں مل سکتا۔‘‘(النسائ:۱۴۲،۴۳)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
’’اور ان کے چندے قبول کیے جانے میں رکاوٹ کی کوئی اور وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کا معاملہ کیا ہے، اور یہ نماز میں آتے ہیں تو کسمساتے(سستی کے ساتھ) ہوئے آتے ہیں اور (کسی نیکی میں) خرچ کرتے ہیںتو بادل نخواستہ خرچ کرتے ہیں۔‘‘(التوبہ:۵۴)
 سورۃ توبہ میں سستی و کاہلی کی ان الفاظ سے بھی مذمت کی گئی ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا گیا کہ اللہ کے راستے میں (جہاد کے لیے) کوچ کرو، تو تم بوجھ ہو کر زمین سے لگ گئے؟ کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیوی زندگی پر راضی ہوچکے ہو؟ (اگر ایسا ہے) تو (یاد رکھو کہ) دنیوی زندگی کا مزہ آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، مگر تھوڑا۔‘‘(التوبہ:۳۸)
قرآن مجید کی آیت’’ اثَّاقَلْتُمْ إِلَی الأَرْضِ‘‘ کی تفسیر اہل علم نے سستی و کاہلی کے ساتھ کی ہے۔
بعض لوگ توکل کا بہانہ بنا کر ہاتھ پہ ہاتھ رکھے گھر بیٹھ جاتے ہیںاور یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے روزی دینے کا وعدہ کر رکھا ہے، اس طرح وہ اپنے اوپر سستی سوار کر کے عمل چھوڑ بیٹھتے ہیں، بلاشبہ یہ بھی ایک دھوکہ اور شیطانی چال ہے۔
سیدنا عمربن خطاب ؓ نے ایک مرتبہ لوگوں کو نصیحت فرمائی :’’ تم میں سے کوئی بھی طلب رزق اور محنت سے کنارہ کش ہو کراللہ سے زبانی جمع خرچ کر کے زرق مانگتا ہوا نہ بنے، تم جانتے ہو آسمان سے نہ سونا برستا ہے اور نہ ہی چاندی۔(احیاء علوم الدین:۳۵۱/۲)
ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ کی چند ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جو کام کاج نہیں کرتے تھے، آپ سخت ناراض ہوئے اور ان سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ وہ کہنے لگے ہم متوکل ہیں آپ نے فرمایا تم جھوٹ بولتے ہو یہ توکل نہیں ، توکل یہ ہے کہ دانہ زمین میں ڈال کر پھر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو، وہ اسے اگائے گا۔(کنزالعمال:۱۲۹/۴)
 سیدنا عمرؓ، لوگوں کو صدقات وصول کرنے کے لیے راستوں میں بیٹھنے سے بھی منع فرمایا کرتے تھے۔ سیدنا حسن ؓکے پاس ایک شخص آیا اورکہنے لگا میں دن بھر پورے قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہوں، آپ نے فرمایا صبح اورشام کے وقت تلاوت کیا کروجبکہ دن کے اوقات میں کام کاج کیا کرو، اللہ تعالیٰ نے دن کو کوشش اور کام کرنے کے لیے بنایا ہے اور یہ آیت تلاوت فرمائی:وَجَعَلْنَا النَّہَارَ مَعَاشاًَ (النبائ:۱۱)‘‘اور ہم نے دن کو روزی حاصل کرنے کا وقت قرار دیا۔ 
جناب رسول اللہؐ نے حضرت معاذؓ کے کام کاج کی وجہ سے سخت ہاتھوں کو دیکھ کر فرمایا یہ ایسا ہاتھ ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتے ہیں۔(تاریخ بغداد:۳۱۷/۸)
 علم کی جستجو ہو یا صحت مند زندگی گزانے کے آداب ان سب  سے متعلق سستی، امراض اور موت کا ذریعہ ہے، کاروبار میں سستی، رزق سے محرومی کا ذریعہ ہے، کام کاج میں سستی، عزت سے محرومی کا ذریعہ ہے۔اہل علم نے سستی جیسی مہلک مرض سے نجات کے لیے روحانی و دنیاوی علاج بھی تحریر کیے ہیں، حضرات انبیاء ؑ ، صحابہ واہل بیت اطہار کی سیرت کے مطالعہ سے سستی دور کی جاسکتی ہے، سیدنا داؤد ؑ زرہ سازی کرتے تھے اور اپنے ہاتھ کی کمائی سے تناول فرماتے، شب بھر عبادت بھی کرتے، آپ کے گھر میں، دن رات کوئی نہ کوئی ذکر خدا وندی اور عبادت میں مصروف ہوتا، سیدنا ابراہیم ؑ اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں سے کعبہ کی تعمیر فرمائی، جناب رسول اللہؐاور صحابہ کرام کی زندگی جہد و مشقت اور کام سے عبارت ہے، آپ نے کسی بھی عمل میں سستی کوپسند نہیں فرمایا، سستی کے ازالہ کے لیے صبح نماز کے لیے جلدی اٹھنے اور وضو کر کے ذکر کرنے کا حکم دیا،اس سے طبیعت میں دن بھر چستی رہتی ہے، ورنہ شیطان سستی پیدا کر دیتا ہے، اور دن بھر طبیعت سست رہتی ہے۔
سستی سے بچنے کے لیے صبح جلد اٹھنے اور جلد کام شروع کرنے کی عادت ڈالنا بھی ضروری ہے، آپ ؐ نے اپنی امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت کی دعا فرمائی ہے، آپ ؐ نے بے بسی اور سستی سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کی تلقین بھی فرمائی ہے، آپؐ نے ارشاد فرمایا:’’نفع مند چیز کے حریص بن جاؤ، اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو، اور بے بس نہ بنو۔‘‘(مسلم)
  سستی اور بے بسی پر اپنا محاسبہ اور نفس کو ملامت بھی کرنا چاہیے، اور یہ سوچنا چاہیے کہ لوگ محنت کر کے دین و دنیا میں ترقی کر گئے ہیں اور میں کیوں محروم ہوں؟ نیز سستی کے ازالہ کے لیے  ہمیں اپنے اکابرین کو نمونہ بنانا چاہیے اور ان کی محنتوں اور مشقتوں کو ذہن نشین کرنا چاہیے۔ سست اور بے کار لوگوں کی صحبت اور مجلس سے اجتناب کر کے ہمیں نیک سیرت با عمل لوگوں کی صحبت   میں رہنا چاہیئے۔اللہ پاک اسی طرح ہمیں دینی و دنیوی امور سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین


آبی ذخائر بنانے اور نہری نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت 

 چوہدری فرحان شوکت ہنجرا
 چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر)مزمل حسین نے گذشتہ دنوں گریٹر کراچی واٹر سپلائی سکیم k4 اور نا ئے  گاج ڈیم پراجیکٹ کا دورہ کیا اور ان منصوبوں پر کام کی پیش رفت کا جائزہ لیا اس موقع پر اعلیٰ سرکاری حکام بھی ان کے ہمراہ تھے۔جنرل (ر)مزمل حسین کا کہنا تھا کہ K4 کا نظر ثانی شدہ ڈیزائن مکمل تعمیراتی کام تین سے چار ماہ میں شروع ہو جائے گااور K4 پروجیکٹ اکتوبر 2023 میں مکمل ہو جائے گا۔جنرل (ر)مزمل حسین نے نالے گاج ڈیم پروجیکٹ کی سائٹ کا وزٹ بھی کیا اس ڈیم کی تعمیر سے 3 لاکھ ملین ایکٹر فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش  پیداہو گی جس سے 30 ہزار ایکٹر رقبے کو سیراب کیا جا سکے گا ملک میں نئے آبی ذخائر بنانے کی ضرورت ناگزیر ہوتی چلی جار ہی ہے۔ اگر 30 سال پہلے آبی ذخائر بنانے کی منصوبہ بندی کی جاتی تو آج ملک کے کونے کونے تک پانی پہنچا کر بنجرزمینیں آباد کی جا سکتی تھیں۔بجلی کا سستا حصول کسانوں اور عام شہریوں کو حاصل ہوتا لیکن نا عاقبت اندیش حکومتوں،حکمرانوں نے قومی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کی تکمیل کی بجلی کی لودشیڈنگ کا خاتمہ کے لیے رینٹل پاور جنریشن اور پاور پلانٹس لگانے کاحل نکالا گیا لیکن جو بے سود ثابت ہوا جو قومی دولت کا ضیاع کا باعث بنا پیپلز پارٹی حکومت نے رینٹل پاور منصوبوں کو ترجیح دی اور مسلم لیگ ن کی حکومت نے پاور پلانٹ لگانے کے منصوبے لگائے لیکن عوام الناس کسان تنظیمیں،تاجر،فیکٹری مالکان اصرار کر رہے تھے کہ ہائیڈل منصوبے لگائے جائیں یہ سستی ترین بجلی کا حصول ہو گا لیکن جب حکمرانوں کو اپنے ذاتی مالی فوائد نظر آرہے ہوں تو رائے عامہ کی ان کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ہوتی آج فیول ایڈ جسٹمنٹ کے حوالے سے بجلی تقسیم کار کمپنیاں بجلی کے ٹیرف میں اضافے کی ڈیمانڈ کرتی ہیں نیپرا ان کمپنیوں کے حوالے سے سماعت کرتا ہے اور عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات،فرنس آئل اور دیگر آلات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث بجلی کی قیمت میں فی یونٹ اضافہ کا حکم جاری کر دیا جاتا ہے اگر یہی صورتحال رہی تو ماضی میں جہاں عوام کا ہر طبقہ بجلی نہ آنے کی صور ت میں سڑکوں،چوراہوں میں سراپا احتجاج تھا مستقبل میں یہی عوامی طبقات سڑکوں چوراہوں میں یہ احتجاج کر رہے ہونگے کہ حکومت بجلی کی لوڈشیڈنگ کرے کیونکہ ہمارے پاس بجلی کے بل دینے کی استطاعت اس لیے نہیں کہ روٹی پوری کریں یا  بجلی گیس کیبل ادا کریں
 وفاقی وزیر آبی وسائل چوہدری مونس الہی صاحب کو چاہیے کہ وہ آبی ذخائر بنانے کے حوالے سے قومی کانفرنس کا انعقاد کریں بالخصوص کالا باغ ڈیم جس کو خواہ مخواہ متنازعہ بنا دیا گیا ہے اس کے حوالے سے اعتراض کنند گان چئیرمین واپڈا،ارسا پاکستان انجنئیرنگ کونسل،کسان آرگنائزیشن،سیاسی،سماجی،صحافتی شخصیات کو مدعو کریں کھلی بحث کروائیں ایک دوسرے کے خدشات اعتراضات کو خندہ پیشانی سے سنیں اور مدلل دلیل سے کالا باغ ڈیم پرسٹیک ہولڈرز کے تحفظات دور کریں پانی ذخیرہ کرنے،سستی وافر بجلی کا حصول اور زراعت کی ترقی کے لیے کالا باغ ڈیم کا بننا نا گزیر ہے۔
 گذشتہ دنوں محکمہ اریگشن لاہور زون کے چیف انجینئر  حبیب اللہ بودلہ صاحب نے نہروں،راجباہوں پر کسانوں کو درپیش مسائل اور نہری نظام کو مزید موثر جدید،ٹیل تک پانی پہنچانے کے حوالے سے اجلاس اور متعلقہ ایس ایز،ایکسینز ایس ڈی اووز صاحبان کو ہدایت جاری کیں کہ وہ نہروں کے انفراسٹرکچر کو بہترکرنے،بھل صفائی اور پانی چوری روکنے کا سد باب کریں چیف انجینئر حبیب اللہ بودلہ صاحب کی ہدایت پر ایکسین شاہدرہ سرکل مدثر ریاض،ایس ڈی او مرید کے شفاعت چھٹہ نے نارنگ میں سوہل مائیز کا ہیڈ سے ٹیل تک وزٹ کیا محکمہ اریگشن کے دیگر حکام بھی اس موقع پر موجود تھے ایکسین شاہدرہ سرکل نے مہتہ سوجا،جے سنگھ والا،کوٹ نواب،کھنڈا،نارنگ سے تعکق رکھنے والے کاشتکاروں سے بھی ملاقاتیں کیں اور ان کے مسائل سنے جے سنگھ والا کے رہائشی چوہدری بشیر احمد،کوٹ نواب کے رہائشی نمبردار کوٹ بھیلاں چوہدری ذکا اللہ ہنجرا،چوہدری عمران شوکت ہنجرا نے جے سنگھ والا گاؤں کے زرعی رقبے کی حدود میں سوہل مائیز پر جھال بنانے کوٹ نواب پر جانوروں کے پانی پینے کے لیے گھاٹ اور نیا پل بنانے کا مطالبہ کیا اسی طرح کھنڈا مائز جھال کی تعمیر ومرمت،کھنڈا پل کی خستہ حالی،سائیڈز والز بنانے کی نشاندہی کی ایکسین شاہدرہ نے متعلقہ سائٹس کا وزٹ کیا اور کسانوں کو یقین دہانی کرائی کہ ان کے مطالبات کی تفصیل سرکاری رپورٹ چیف انجنیئر لاہور زون تک باہم پہنچائی جائے گی اس ضمن میں ہم عوام زراعت،کسان دوست چیف انجنئیر حبیب اللہ بودلہ صاحب سے زراعت،کسان اور محکمہ آبپاشی کی ترقی کے لیے سوہل مائیز پر جے سنگھ والا میں جھال،کوٹ نواب پر نئی کلورٹ،گھاٹ اور کھنڈے پل کی مرمت کرنے کے حوالے سے جد از جلد منصوبوں کی تکمیل کے احکامات جاری کرنے کی استدعا کریں گے ہمیں قوی امید ہے وہ اس حوالے سے خصوصی دلچسپی لیں گے۔

ای پیپر دی نیشن