پاکستان کے موجودہ معاشی حالات ہماری کامل اجتماعی توجہ کے مستحق ہیں اور ہمیں بد ترین معاشی صورت حال کا سامنا ہے. حکومت کی مسائل کا ادراک کرنے اور ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے سیاسی, سماجی, اخلاقی, اور معاشی میں تناؤ اضافہ ہو گیا ہے.اگر معاشی ترقی کاپہیہ سست رفتاری کا شکار ہو جائے تو نتیجے کے طور پر آمدن اور اخراجات میں عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے تجارتی خسارہ, ادائیگیون کا توازن ,افراط زر ہمارے معاشی مسائل میں صد چند اضافے کا سبب بنتے ہیں چونکہ ہماری معیشت کا انحصار بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے بھیجیہوئے زرمبادلہ ,غیر ملکی قرضوں اور گرانٹس پر ہے یہ وقتی سہارے اقتصادی مسائل کی شدت میں اضافہ کرتے ہیں. کیونکہ معیشت کے مقامی ذرائع انتہائی کمزور ہیں. ہماری زراعت مقامی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے اور صنعتی پیدا وار عالمی منڈیوں میں اپنی لاگت زیادہ ہونے کی بنا پر مقابلے کرنے کی پوزیشن میں نہی ہے اول تو ملک میں زیادہ پیداوار ہونا ہی مشکل ہے لیکن کبھی کبھار زیادہ پیداوار ہو جائے تو عالمی منڈی خریدار ملنا مشکل ہو جاتے ہیں. اگر ہم معیشت کے ان پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں جو عام لوگوں سے متعلقہ ہیں تو صورت حال زیادہ پریشان کن نظر آتی ہے .اشیاء خوردونوش اور مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے . مارکیٹ کی فورسز کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت سے حکومتی ادارے قاصر ہیں. مارکیٹ کو کنٹرول کرنے والی طاقتیں بے لگام ہیں اور وہ قوتیں جو منڈی کو سامان فراہم کرتی ہیں قیمتوں میں از خود اضافہ کرنے میں آزاد ہیں اور نچلی سطح کے دوکاندار بھی قیمتیں بڑھانے میں مکمل طور پر آزاد ہیں اور ان پر حکومتی کمزور کنٹرول شہریوں کی قوت خرید کو ناقابل برداشت بنا دیتا ہے. محدود آمدنی والے لوگ اور چھوٹے ملازمین مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے کنگال ہو گئے ہیں. فاقہ کشی اور خود کشیؤں کی نوبت ان کے درو دیوار پر دستک دے رہی ہے. بظاہر ایسی کوئی صورت نظر نہی ا رہی ہے کہ حکومت قیمتوں میں اضافے کے عمل کو روکنے میں کامیاب ہو جائے.ائی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی کیلئے ان کی طرف سے عائد کردہ ناقابل برداشت پیشگی شرائط کو تسلیم کرنا ناگزیر ہو چکا ہے. شرائط تسلیم نہی کرتے تو عالمی سطح پر ملکوں سے لین دین ختم ہو جائے گا اگر تسلیم کرتے ہیں عوام الناس کی پریشانیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے. حکومت نے بامر مجبوری آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم کرنا اور پر عمل درآمد کرنے کا آغاز کر دیا ہے. وفاقی حکومت نے غریب اور حاجتمند لوگوں کی بہتری کیلئے فلاحی سکیموں کا آغاز کیا ہے اور غریب اور ضرورت مند لوگوں کو امداد فراہم کی ہے. یہ تمام اقدامات وقتی اقدامات ہیں ان سے غربت, پسماندگی بیچارگی اورعدم مساوات کا مستقل علاج ممکن نہی ہے بلکہ ان فلاحی سکیموں سے فائدہ اٹھانے کیلئے غیر مستحق لوگ بھی اپنا جگا ڑ لگانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں. ایک تو سروے کئی سال پرانا ہے اس پر انحصار کرنا دانشمندی نہی ہے بہت سے لوگ جن کا اندراج ہو چکا ہے ماضی میں مستحق تھے اب غیر مستحق ہوچکے ہیں اور کچھ غیر مستحق لوگ اب امداد کے مستحق ہو چکے ہیں. حکومت سروے کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے لیکن یہ کام انتہائی مشکل اور پیچیدہ ہے. عام طور پر مسلمہ اصولوں کے مطابق معاشی حالات کی ابتری کی ذمہ داری وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر ڈالی جاتی ہے کیونکہ معیشت کا سارا انتظام ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے. معیشت کا انحصار گڈ گورنس اور سیاسی نظم و ضبط سے ہوتا ہے اگر حکومت اپنے ذمے کاموں کو مربوط طریقے سے سرانجام نہ دے سکے تو کسی بھی ملک کی معیشت ڈانواں ڈول ہو سکتی ہے غربت اور تنگ دستی کا معیار مقرر کرنا ہر قوم اور ملک کے لئے اس کے معیارات مختلف ہیں. ہمارے اور دنیا بھر میں غربت ماپنے کا پیمانہ فی کس آمدنی کے حساب سے لگایا جاتا ہے. غربت کا معیار مقرر کرنے سے پہلے غربت ماپنے کا پیمانہ طے کیا جاتا ہے حکومت وقت اپنے موجود ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے سرویمرتب کرتی ہے اور اسی سروے کو بنیاد بناتے ہوئے فلاحی کام سرانجام دیتی ہے. پاکستان میں مختلف فلاحی سکیموں کا اجرائ کیا جاتا ہے ان فلاحی سکیموں کے مابین ڈاڈا شیئرنگ کی قابل مذمت حد تک کمی ہے اور دوسری خامی سروے کیلئے ایک ہی ایجنسی کو منتخب کیا جاتا ہے اور مقامی سطح کی کوئی ام پٹ شامل نہی کی جاتی ہے ایک دفعہ سروے میں نام آجائے یہ رہ جائے تو نکالنے اور نام داخل کرنے کا نظام انتہائی پیچیدہ ہے. ابتدائی سطح پر آبادی کے حوالے سے یونٹ بنائے جاتے ہیں اگر سروے ٹیم میں مقامی مسجد, سکول, پٹوار, محکمہ زراعت, کی معلومات شامل کر لی جائیں تو سروے کے ذریعے مستحقین کی تلاش کے عمل کو زیادہ قابل اعتماد اور مستند بنیا جا سکتا ہے.
موجودہ حکومت کی وجہ سے عوام کی زبوں حالی کا مطلب یہ قطعی طور پر نہی ہے کہ موجودہ قومی اور صوبائی حکومتوں کو ہٹا کر معیشت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے. اگر موجودہ حکومت معاشی چیلنجز سے نمپٹنے میں ناکام رہی ہے تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے پاس کونسی معاشی حکمت عملی ہے جس کی بنا پر معیشت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے. اپوزیشن معاشی متبادل پیش کرنے کی بجائے اپنی تمام تر توانائیوں حکومت کو معاشی زوال کا سبب اور وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے میں برباد کر رہی ہے۔ معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے اپوزیشن کے پاس کوئی مثبت قومی تقاضوں کے مطابق لائحہ عمل نہی ہے. معیشت کو بہتر بنانے افراط زر کو کنٹرول کرنے, غیر ملکی قرضوں پر انحصار کم کرنے اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا طریقہ کار واضح نہی کرے گی. معاشی مسائل کی جڑیں گہری اور پیچیدہ ہوتی ہیں. معیشت کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کیلئے پر عزم فیصلے کرنے کی ضرورت پڑتی ہے. حکومتیں عام طور پر ایسے اقدامات اٹھانے سے گریز کرتی ہیں. سیاسی جماعتوں کے درمیان وسیع تر افہام و تفہیم پیدا کرنے اور اپنی اناؤن کو قومی مفاد پر قربان کر دینے میں مضمر ہے. ہمارے ہاں سیاست کا چلن اور معاشی مسائل کو غیرجانبدرانہ اور پیشہ ورانہ انداز میں حل کرنے میں معاون نہی ہے. ہمارے ہاں کم ظرفی, ذاتی مفادات، کوتاہ کوشی کے یکطرفہ تصورات کا غلبہ ہے. رشوت ستانی اور ناجائز منافع خوری کا رحجان مقتدر اشرافیہ سیلے کر پار لیمانی ایوانون سے ہوتا ہوا نچلی نوکر شاہی تک رسائی کر چکا ہے ہمارے ہاں اداراجاتی احتساب کا نظام دم توڑ چکا ہے. سیاسی قیادتوں کے خلاف بد عنوانی کے مقدمات کو سیاسی انتقام کا نام دے دیا جاتا ہے. معیشت کو سیاست کے محرکات کے تابع کر دیا گیا ہے اور اس کو گروہی, علاقائی, فرقہ ورانہ مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے. معیشت کے بارے میں آزادانہ, غیر جانبدارانہ, رویہ اختیار کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے
معاشی نمو سیاست کی نذر
Dec 03, 2021