ووٹ، نوٹ، ضمیر اور… زر

کہا جاتا ہے کہ سیاست امیروں کا کھیل ہے اور اس کھیل میں غریب کارکن کا اتنا ہی کردار ہے جتنا ایک فیوڈل سسٹم میں کسی مزارع یا ہاری کا ہوتا ہے۔کارکنوں کے سہارے سیاست کی جاتی ہے، نام نہادعوامی خدمت کی جاتی ہے اور الیکشن لڑا جاتا ہے۔ہمارے ایک سینئر دوست نے الیکشن کے حوالے سے بہت حقیقت پسندانہ  بات کی کہ اگر موجودہ نظام کے تحت بالکل شفاف الیکشن بھی ہو جائیں جس میں رتی بھر بھی دھاندھلی کی ملاوٹ نہ ہو ، تو پھربھی وہ لوگ نہیں جیت سکیں گے جنہیں غریب آدمی برسر اقتدار لانا چاہتا ہے۔ یہ بات منطقی بھی ہے، اندازہ لگائیے کہ خود الیکشن کمیشن نے قومی اور صوبائی  اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لیئے خرچہ کرنے کی جو ذیادہ سے ذیادہ حد مقرر کی ہے وہ بھی کروڑ روپے تک جا پہنچی ہے جبکہ اصل میں الیکشن لڑنے والے سنجیدہ امیدوار اس مقررہ حد سے بھی ذیادہ خرچہ کرتے ہیں ، اکثریت کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ انتخابی اخراجات ایک انویسٹمنٹ ہے جیت گئے تو سود و منافع کے ساتھ قومی خزانے سے اپنی رقم واپس ملنے کے پیشتر مواقع ملیں گے ۔ پیسے کے اس کھیل میں سیاسی جماعتیں بھی پارٹی ٹکٹ دینے کے لیئے  نہ صرف فیس وصول کرتی ہیں بلکہ پارٹی فنڈ کے نام ٹکٹ بیچے جاتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ خریدار ی کوئی پیسے والا ہی کر سکتا ہے، غریب پارٹی کارکنوں کو ٹکٹ دینے کی مثال توڈھونڈے نہیں ملتی۔ غریب کارکن توصرف جلسوں میں حاضریاں لگوا کر ، اپنے محبوب قائدین کے ساتھ سیلفیاں بنانے پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں اس سے زیادہ انکی پہنچ ہو بھی تو کارگر نہیں ہوتی۔ رہ گیا غریب ووٹر اس بیچارے کے پاس تو الیکشن میں بیچنے یا کمانے کے لیئے کچھ بھی نہیں ہوتا، وعدوں کی ایک ٹرک کی بتی ہے جو انہیںدکھائی جاتی ہے اور امید نو کے سہارے انہیں الیکشن والے دن پولنگ سٹیشن کے باہر لائن میں لگوا دیا جاتا ہے۔ ایسے میں انکے پاس صرف ووٹ ہی تو ہے جسے بیچ کر وہ فوری منافع حاصل کر سکیں ۔ووٹ غریب بیچے تو سب کو ووٹ کی بے حرمتی یاد آجاتی ہے اور ووٹ کو عزت دو کا بھاشن شروع ہو جاتا ہے۔ یہی ووٹ جب سینیٹ الیکشن میں کروڑوں کے بکتے ہیں ، کروڑوں روپے کی سینیٹ کی سیٹ بکتی ہے، پارٹی فنڈ کے نام پر جو کمائیاں کی جاتی ہیں اس میں بھی تو ووٹ کا تقدس پامال ہوتا ہے۔انکے بھی لین دین کی وڈیوز لیک ہوتی ہیں ۔ اس تناظر میں تو غریب ووٹرکے ووٹ کی قیمت دو ہزار روپے لگ جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ جہاں اربوں کروڑوں کی بولیاں لگ رہی ہوں وہاں ایک غریب ووٹر جسے صرف دو وقت کی روٹی سے سروکار ہو اس کے لیئے دو ہزار روپے میں ووٹ فروخت کرنا کوئی قابل گرفت بات نہیں ہے۔ ایسا ہر انتخابات میں بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر کسی نہ کسی انداز میں ضرور ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق ایسی براہ راست خرید و فروخت کی ممانعت کرتا ہے لیکن اس خرید و فروخت کو مکمل طور پر روکنا ناممکن ہے۔ کیونکہ جب کھیل ہی سارا پیسے کا ہے تو پھر پیسہ تو چلے گا ۔ الیکشن جیتنا صرف دل والوں کا کام نہیں بلکہ دام والوں کا کام ہے۔جوبڑھ کر تھام لے مینا اسی کا ہے کے مصداق یہاں الیکشن میں جو بڑھ کے ’دام‘ دے مینا اسی کا ہے۔ جب الیکشن اصلاحات ہو رہی تھیں اور قوانین میں ترامیم تجویز کی جا رہی تھیں تو ایک تجویز یہ بھی تھی کہ بیلٹ پیپر پر انتخابی امیدواروں کی فہرست میں ایک خانہ ایسا بھی ہو کہ جس میں کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دینے کا آپشن موجود ہو۔ کہ اگر کوئی ووٹر بیلٹ پیپر پر موجود ناموں میں سے کسی ایک پر بھی متفق نہ ہو تو پھر وہ  تمام امیدواروں کو 
مسترد کر سکے۔لیکن اس تجویز سے ہمارے سیاستدان اتنے خائف تھے کہ سب نے مخالفت کی انہیں ڈر تھا 
کہ ایسا نہ ہو اس گلے سڑے نظام  سے متنفر ہوا ووٹر کہیں اتنی ذیادہ تعداد میں نہ نکل آئے کہ انہیںمسترد کرنے والے ذیادہ ہوں اور منتخب کرنے والے کم۔ چناچہ یہ آئیڈیا جمہوری ہونے کے کے باوجود مسترد کر دیا گیا۔ ہم الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو بھی استعمال کریں تو تب بھی ووٹنگ سے پہلے اس خرید و فروخت کو روکنا ممکن نہیں ہو سکے گاکیونکہ یہ ہمارے انتخابی کلچر کا حصہ ہے۔ ایک امیدوار دوران انتخابی مہم جو وعدے وعید کرتا ہے یا اپنے ووٹرز کی فلاح کے لیئے جو کام کرتا ہے وہ بھی تو ایک سیاسی رشوت اور ووٹ خریدنے کی ہی کوشش ہوتی ہے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول آنے کے بعد الیکشن والے حلقوں میں سرکاری مشینری کے استعمال، ترقیاتی فنڈز کے اجراء اور نئے منصوبوں کے اعلان پر پابندی عائد کردیتا ہے لیکن لین دین کے سو اور طریقے موجود ہیں ، ضرورتمند ووٹر ہر جگہ ملیں گے اور ادائیگی کرنے والے بھی بے شمار ہیں ،اس لیئے یہ کام اگر بلا واسطہ نہیں ہو گا تو بالواسطہ طور ہو جائے گا ۔ الیکشن کمیشن اس حوالے سے بے بس ہو تا ہے۔ ویسے بھی ایک منطقی بات تو یہ ہے کہ جب سیاست پیسے کا کھیل تسلیم کیا جا چکا ہے تو پھر پیسے کی سرکولیشن کو روکنا ممکن نہیں ۔ رہا یہ عقیدہ کہ ووٹ ایک امانت ہے تو جناب اس امانت کے حقدار اگر غیر صادق، غیر امین اور خائن ہی نکلیں تو ایسی امانت کو چار پیسوں کے عوض بیچنے میں کوئی برائی نہیں نکالنی چاہیئے۔ غربت میں غرق بے کس  و لاچار افرادکو دو وقت کی روٹی سے آگے دیکھنا ممکن نہیں ہوتا ،مفلسی صرف حس لطافت کو ہی نہیں مٹاتی بلکہ معاشرتی و معاشی مجبوریوںمیں جکڑ لیتی ہے، مفلسی کے ماروں کو جمہوریت کادرس نہیں دیا جا سکتا، خالی پیٹ کسی کے لیئے ووٹ کا تقدس اور انتخاب کی فضیلت سمجھنا نا ممکن ہے۔ جب سارا کھیل ہی پیسے کا ہے، پورا نظام ہی سرمایہ دارانہ ہے اور خود کھلاڑی پیسے کی بنیاد پر حکمرانی کر رہے ہوں تو ایسے معاشرے میں غریب کے چند ٹکوں کے عوض بیچے گئے ووٹوں پر حیران نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ووٹ کا تقدس سمجھانے کی بجائے ان پر ترس کھانا چاہیئے اور نظام کے ساتھ ساتھ سوچ بدلنے کی ضرورت پر زور دینا چاہیئے۔

ای پیپر دی نیشن