ایک پاکستانی ہونے کے ناطے، ایک شہری ہونے کے ناطے، ایک صحافی کی حیثیت سے میں مکمل مطمئن اور خوش ہوں کہ جنرل عاصم منیر ہمارے نئے چیف آف آرمی سٹاف ہیں، باہمی اختلافات میں خواہ مخالف فریقین کے جو بھی تحفظات ہوں جو بھی پسند ناپسند ہو لیکن اس حیقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے نئے چیف آف آرمی سٹاف اپنی قابلیت کے بل بوتے پر اس اہم ترین عہدے پر فائز ہوئے ہیں ۔ان کی صلاحیتوں اور اس صاف شفاف تقرری کوکوئی چیلنج نہیں کرسکتا اور اگر کوئی ذاتی مفادات کی بنا پر کوئی بغض رکھتا ہے تو یہ اس کی اپنی کم ظرفی ہے، میں نے جب چیف آف آرمی سٹاف کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو ان کی پانچ خصوصیات یا خوبیوں کو خاص طور پر ہائی لائٹ کیا گیا تھا، جن میں پانچویں نمبر پر ان کا حافظ قرآن ہونا بھی شامل تھا لیکن اصل میں یہ ان کے پہلے نمبر کی خصوصیت ہے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق جنرل عاصم منیر پاکستان کے پہلے چیف آف آرمی سٹاف ہیں جو قرآن کے حافظ بھی ہیں۔ انہوں نے راولپنڈی سے مدرسہ دارالتجوید سے قرآن پاک حفظ کیا۔ جن کے دل قرآن کی روشنی سے منور ہیں ان کے فیصلے ان کے فرائض علم وحکمت اس پاک روشنی سے منور ہی ہوا کرتے ہیں۔ آپ آفیسر ٹریننگ سکول کوہاٹ کے تربیت یافتہ ہیں۔ یہ ادارہ بعدازاں منگلا منتقل ہوگیا تھا۔ اس ادارے کا مقصد پاکستان میں آفیسر ز کی کمی کو پورا کرنا تھا۔ باقی لوگ کاکول سے دوسالہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں لیکن ضیا دور کے جنرل عارف کے بعدجنرل عاصم منیر اس ادارہ سے تربیت یافتہ ہیں۔ آپ کا اعزاز ہے کہ چیف بننے سے قبل آپ دو انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ رہے۔وہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ آپ پہلے جنرل ہیں جن کو سورڈ آف آنر وصول کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ پاس ہونے والے کیڈٹس میں اول پوزیشن حاصل کرنے والے کو دی جاتی ہے۔ آپ پہلے جنرل ہیں جو کوارٹر ماسٹرجنرل بھی رہے ہیں۔ نئے سپہ سالار کو سیاسی انتشار اور اختلافات کا بھی سامنا ہے۔ کرپشن کو بے نقاب کرنے والے اس مرد مجاہد کا آنا کچھ لوگوں کے لئے ناگواری کا باعث تو ہے لیکن اللہ کے فیصلوں کے سامنے کس کا زور چل سکتا ہے۔ عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھوں میں ہے۔ یہی حالات قاضی فائض عیسیٰ کو برداشت کرنے پڑے اور اگلا سال ان کے لئے بھی خوش بختی لے کر آرہا ہے۔ نجانے آجکل لوگوں کو فیض کی اتنی یاد کیوں آرہی ہے۔ویسے پچھلے دنوں فیض کا دن بھی منایاجارہا تھا شاید لوگ واقعی اب باذوق بھی ہوتے جارہے ہیں مجھے بھی ان دنوں فیض کا ایک شعر بہت یاد آتارہا۔
مقام ِفیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
ویسے حقیقت تو یہ ہے کہ سابقہ سالوں کی طرح اب فیض عام جاری نہیں ہوسکا۔ جو ہوا میرٹ پر ہوا، صاف اور شفاف ہوا، اصل بات یہ ہے کہ اب خوامخواہ کے جھوٹے الزامات بھی نہیں لگنے دئیے اور نہ ہی اعتراضات اٹھانے کا کوئی جواز ہی باقی رہا ہے۔ ویسے یہ بھی تو کافی عرصہ سے طے ہوچکا ہے کہ آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے۔ اس تھیوری کے قائم کرنے والوں کے پاس اختلاف کی کوئی گنجائش بھی باقی نہ رہی۔ باجوہ صاحب کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا بھی صرف تنگ نظری اور بغض ہے۔ آپ ایک فورسٹار آرمی جنرل کے طور پرسولہویں پاک فوج کے سر براہ کے طور پر چنے گئے۔ قمر جاوید باجوہ صاحب کینیڈا اور امریکہ کے دفاعی کالج اور یونیورسٹیوں سے پڑھ چکے تھے۔ کوئٹہ کے انفینٹری سکول میں بطور انسٹرکٹر اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ وہ کانگو میں اقوام متحدہ کی امن فوج کی کمانڈ بھی سنبھال چکے ہیں۔راولپنڈی آرمی سٹیڈیم میں ہونے والی رخصتی کی باعزت تقریب میں انتہائی پروقار طریقے سے تشریف لائے اور نئے آرمی چیف کو خوش دلی سے خوش آمدید کہا۔ کھلے دل سے ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرکے اپنی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا اور تقریب کے اختتام پر اپنی شریک حیات کے ساتھ رخصت ہوئے یہ ان کی زندگی کا دوسرا خوبصورت پہلو ہے۔ خدارا اپنے قابل اور بہترین آفیسرز کی خدمات کو اپنی خواہشات کی بھینٹ مت چڑھائیں۔جن کے دم سے آپ کی عزت ہے۔ جن کے وجود سے پاکستان کا وجود سلامت ہے۔ ان کی قدر اور عزت کرنا سیکھیں۔
خوش آمدید، خدا حافظ
Dec 03, 2022