ہفتہ،8  جمادی الاوّل 1444،3 دسمبر2022ء 

پنڈی ٹیسٹ میں چار وکٹوں پر انگلینڈ نے پہلے دن 506 رنز بناکر ایک روز میں زیادہ سکور بنانے کا 112 سالہ ریکارڈ توڑ دیا۔ دوسری طرف پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر رکشے میں بیٹھ کر پہلا ٹیسٹ میچ دیکھنے سٹیڈیم پہنچ گئے۔ 
ایک دن میں 506 رنز بنانا واقعی قابل تعریف ہے اور وہ بھی صرف 4 وکٹوں کے نقصان پر۔ اب اللہ خیر کرے‘ پہلے دن کا ہدف دیکھ کر کہیں ہمارے شاہین حوصلہ ہی نہ  ہار بیٹھیں۔ دیکھنے میں تو یہی آیا ہے کہ تگڑی ٹیم کے سامنے ہمارے شاہین بلونگڑے بن جاتے ہیں۔ بہرحال قوم نے انہیں شاہین کا لقب دیا ہے تو انہیں شاہین کی لاج بھی رکھنی چاہیے۔ رہی بات برطانوی ہائی کمشنر کی جو بغیر کسی پروٹوکول کے رکشہ میں بیٹھ کر میچ دیکھنے پہنچ گئے تو یہ انکی اپنی قومی ٹیم اور کرکٹ سے محبت کا ہی جذبہ ہے۔ انکے جذبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے پاکستانی جنون بینڈ کے گانے کا مصرع ’’ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہار‘‘ بھی دہرایا اور رکشہ ڈرائیور کو پوٹھوہاری زبان میں مخاطب کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کیا ’’پنڈی جلساں تے میچ تکساں‘‘۔ (پنڈی جائیں گے اور میچ دیکھیں گے)۔ انگلینڈ کی ٹیم نے شاید ان کا جنون دیکھ کر پہلے ہی روز اتنا بڑا سکور بنا کر 112 سالہ ریکارڈ توڑ ڈالا۔  اب ہمارے شاہینوں کے پاس اس پہاڑ جیسے ہدف سے بچنے کے دو ہی طریقے ہو سکتے ہیں‘ یا تو بارش ہو جائے جس کیلئے پوری قوم کو نماز استسقاء ادا کرنی چاہیے یا پھر کھلاڑیوں کو اپنے ہاتھ پائوں کے پٹھے شٹھے مضبوط بنا لینے چاہئیں۔ لیکن انہیں یاد رہے کہ 112 سالہ ریکارڈ انگلینڈ کی اس ٹیم نے ہی توڑا ہے جو پاکستان آکر اجتماعی طور پر بیمار ہو گئی تھی۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ نمازِ استسقاء ادا کرلی جائے تاکہ بچ بچائو ہو جائے۔
٭…٭…٭
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسینڈا اور فن لینڈ کی وزیراعظم سٹارمارین کی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران رپورٹر کے غیرموزوں سوال پر دونوں خواتین رہنمائوں کی حاضر جوابی نے سوشل میڈیا صارفین کی توجہ سمیٹ لی۔ 
رپورٹر نے سوال کیا کہ کیا آپ دونوں اس لئے مل رہی ہیں کہ آپ دونوںہم عمر ہیں اور دونوں میں کئی چیزیں مشترک ہیں۔ جواب میں جسینڈا آرڈرن نے کہا کہ یہ سوال کبھی کسی نے سابق امریکی صدر اوباما اور نیوزی لینڈ کے سابق وزیراعظم جان کی سے بھی کیا کہ کیا وہ اس لئے ملتے ہیں کہ وہ ہم عمر ہیں اور خواتین ان سے اس لئے نہیں ملتیں کہ ان میں جنس مشترک ہے۔ بعض خواتین اتنی ذہین ہوتی ہیں کہ ان کا مقابلہ کرنا مردوں کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ جسینڈا نیوزی لینڈ کی وہ وزیراعظم ہیں جنہوں نے 2019ء میں دو مساجد پر ہونیوالے حملوں کی نہ صرف شدید مذمت کی بلکہ مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔ 51 افراد کے قاتل کو نیوزی لینڈ کی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی اور اسے معافی مانگنے کا حق بھی نہیں دیا۔ اس طرح اس خاتون نے اپنی قائدانہ صلاحیت اور دوراندیشی سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل جیت لئے۔ اسی طرح ایک ذہین خاتون برطانوی وزیراعظم لزٹرس ہیں جنہوں نے معیشت کی بہتری کیلئے عہدہ سنبھالا تھا‘ لیکن وہ مینڈیٹ پورا نہ کر پائیں تو چھ ماہ بعد ہی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئیں۔ اس طرح انہوں نے بھی دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا کیریئر داغدار ہونے سے بچا لیا۔ جبکہ ہمارے ہاں اس معاملے میں الٹی گنگا بہتی نظر آتی ہے۔ گزشتہ 70 سال سے خراب معیشت ٹھیک کرنے کی نیت سے آنیوالے آج  تک کامیاب نہ ہو سکے اور نہ ہی اس پر شرمندہ ہیں۔ مجال ہے کسی نے استعفیٰ دیا ہو‘ بلکہ ساری خرابی کا ملبہ سابقین پر ڈال کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ 
٭…٭…٭
پاکستان میں تنازعات کا شکار فلم ’’جوائے لینڈ‘‘ کو ایک اور عالمی ایوارڈ کیلئے نامزد کردیا گیا۔ 
فلم جوائے لینڈ کو امریکہ میں ہونیوالے سالانہ فلم انڈیپنڈنٹ سپرٹ ایوارڈ کیلئے نامزد کیا گیا ہے۔ امریکہ سمیت یورپ کا پاکستان کے ساتھ محبت کا یہ خاص انداز ہے کہ جو چیز پاکستان میں متنازعہ ہوتی ہے‘ اسے یہ بھرپور طریقے سے پرموٹ کرتے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان میں خواتین کے ساتھ ہونیوالی زیادتیاں‘ تیزاب گردی‘ ونی اور معاشرے میں موجود دوسری برائیوں پر بنائی گئی فلم کو بھی عالمی ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔ امریکہ اور یورپ کی یہ حوصلہ افزائی بظاہر تو ان موضوعات پر بننے والی فلموں کی تعریف نظر آتی ہے لیکن درحقیقت یہ دنیا کے سامنے پاکستان کا روشن چہرہ داغدار کرنے کی سازش ہے۔ حالانکہ بھارت میں خواتین کے ساتھ جنسی تشدد‘ تیزاب گردی کے واقعات روزانہ کی بنیاد پر کثرت سے ہوتے ہیںجو پاکستان کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ ہیں لیکن باہر سے آنیوالے فلم سازوں کو پاکستان ہی نظر آتا ہے۔ اگر وہ بھارت جا کر ان موضوعات پر فلمیں بنائیں تو دنیا کے سارے ایوارڈز انکی جھولی میں آگریں گے۔یاد رہے  فلم ’’جوائے لینڈ‘‘ پر پاکستان کے سنسر بورڈ نے پابندی لگا دی تھی‘ اب شنید ہے کہ اسے نمائش کی اجازت مل گئی ہے۔ ایسا کیوں ہوا‘ یہ تو معلوم نہیں‘ البتہ بادی النظر میں تو عالمی ایوارڈ کا جادو ہی نظر آتا ہے جسے امریکہ نے ایوارڈ سے نواز کر تمام تنازعات ختم کر دیئے ہیں۔ بہرحال ہمارے سنسر بورڈ کو ان سازشوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ 
٭…٭…٭
گوگل نے پاکستان میں پیڈ ایپس بند کر دیں۔ 
گوگل بھائی جان! خدا کا خوف کرو‘ یہ تو پاکستانی قوم کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستانی قوم کا یہ ایسا ایندھن ہے جس کی بندش سے پوری قوم جام ہو کر رہ جائیگی۔ موبائل فونز نے جس طرح پوری دنیا کو اپنے جال میں جکڑ لیا ہے‘ اس سے خلاصی پانا اب کسی طرح بھی ممکن نہیں رہا۔ پہلے یہ سٹیٹس کی علامت ہوا کرتا تھا‘ اب لوگوں نے اسے ضرورت کے ساتھ ساتھ اپنی کمزوری بھی بنا لیا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کا پہلا موبائل فون 1963ء میں ایجاد ہوا تھا اور جس کمپنی نے یہ فون بنایا تھا‘ اس کا کہنا تھا کہ مستقبل میں یہ فون لوگ اپنی جیبوں میں رکھ کر گھوما کریں گے۔ اور آج یہ سچ ثابت ہو گیا ہے۔ کونسا شخص ہے جس کی جیب میں موبائل فون نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو مہنگا فون رکھنا فخر سمجھا جاتا ہے۔ فون بنانے والی کمپنیوں کو بھی بخوبی اندازہ ہو گیا ہے کہ یہ ایسی قوم ہے ‘ اسکے پاس کھانے کو بے شک نہ ہو‘ لیکن فون ضرور ہوتا ہے۔ اسی لئے شاید یہ کمپنیاں اپنے مہنگے ترین موبائل فون ہماری مارکیٹوں میں بھیج کر ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن