ملک کی سیاسی صورت حال ہر نئے دن کے ساتھ گھمبیر اور پیچیدہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اقتدار سے محرومی کے بعد جس قسم کی احتجاجی سیاست شروع کر رکھی ہے اس نے ملک میں ایک ہیجان برپا کر دیا ہے۔ مختلف بااثر حلقوں کی طرف سے مصالحتی کوششوں کے باوجود معاملات بند گلی کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ عمران خان کے بے لچک رویے نے تنائو کی جو کیفیت پیدا کر دی ہے اس سے پورا ملک متاثر ہو رہا ہے اور اس رویے کے منفی اثرات ہر شعبۂ زندگی پر ظاہر ہو رہے ہیں۔ لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے حربوں میں ناکامی کے بعد اب انہوں نے زِچ ہو کر آخری پتا بھی اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں پھینک دیا ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کی اعلیٰ سطح کی کمیٹی نے اپنی سفارشات مکمل کر لی ہیں جن میں پنجاب اور خیبر پی کے کی اسمبلیاں 20 دسمبر تک تحلیل کرنے کی سفارش کی گئی ہے تاہم پی ٹی آئی کے بعض ارکان نے پنجاب اسمبلی کی تحلیل میں عجلت برتنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور تجویز کیا ہے کہ سیاسی کارڈز کھیلتے ہوئے ٹائمنگ کو مدِنظر رکھا جائے۔ اسمبلیوں کو فوری طور پر تحلیل نہ کرنے کا جواز یہ پیش کیا گیا ہے کہ اس وقت حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے اربوں روپے کے ٹینڈرز ہو چکے ہیں جبکہ کئی حکومتی منصوبے اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ اسمبلیوں کی فی الفور تحلیل کی صورت میں ان ترقیاتی منصوبوں کا کریڈٹ دوسری جماعت اور حکومت لے سکتی ہے۔ پنجاب حکومت کی اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری پرویز الٰہی نے عمران خان سے ملاقات کی ہے اور ان سے ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال کے حوالے سے بات چیت کی۔ اسمبلیوں کی تحلیل کے ضمن میں بھی تبادلۂ خیالات کیا گیا تاہم کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنے کے لیے انہوں نے اپنی جماعت کے پارلیمانی بورڈ کا اجلاس طلب کرلیا ہے ۔ چودھری پرویز الٰہی نے کہا کہ ہم عمران خان کے ساتھ ہیں۔ ان کے ہر فیصلے کا ساتھ دیں گے۔ ہم جس کے ساتھ چلتے ہیں اس کا پورا ساتھ دیتے ہیں۔ عمران خان کے کہنے پر پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے میں رتی بھر بھی تاخیر نہیں ہو گی۔ پنجاب اسمبلی عمران خان کی امانت ہے اور یہ امانت انہیں دے دی ہے۔ غلط فہمیاں پیدا کرنے والے پہلے کی طرح اب بھی ناکام رہیں گے۔
دوسری طرف وفاقی حکومت بھی عمران خان کی سیاسی حکمتِ عملی کا توڑ کرنے کے لیے اتحادی جماعتوں کی قیادتوں سے مشاورت جاری رکھے ہوئے ہے۔ سابق صدر اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ ان کے پاس نہ صرف پنجاب اسمبلی کو بچانے کے لیے ممبران کی کافی تعداد ہے۔ بلکہ وہ کے پی کے اسمبلی میں بھی کوئی جادو چلا سکتے ہیں۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ہم کے پی کے میں بھی تحریک عدم اعتماد لائیں گے۔ سابق صدر نے یہ بھی کہا کہ قبل از وقت انتخابات ملک یا جمہوریت کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ اگر پی ٹی آئی اسمبلیاں تحلیل کرتی ہے تو پھر ہم ان اسمبلیوں میں دوبارہ الیکشن کرائیں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ وہ کتنے ایم پی اے واپس اسمبلی میں لاتے ہیں۔ میرے پاس نمبرز ہیں اور نمبرز بڑھا بھی سکتا ہوں۔ چودھری پرویز الٰہی سے ناراض نہیں بلکہ دوریاں ہیں جن کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے بھی ختم کیا تھا اور ان کو ڈپٹی وزیر اعظم بنایا تھا جو پوسٹ ہی نہیں تھی اور ان کو 17 وزارتیں دی تھیں۔
مسلم لیگ نواز کے رہنما اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ بلوچستان اور سندھ کی حکومتیں صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ 20 دسمبر کو تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومتوں نے اسمبلیاں توڑیں تو ہم بھی اس سے پہلے آئین کے تحت گورنر راج لگانے یا تحریکِ عدم اعتماد لانے کے اقدامات اٹھائیں گے۔ دو صوبوں میں نگران حکومتیں بنیں گی اور جب عام انتخابات ہوئے تو پھر بلوچستان، سندھ اور مرکز میں نگران حکومتیں ہوں گی۔
حکمران جماعت، اس کے اتحادیوں اور عمران خان اور ان کی اتحادی جماعت کے قائدین کے بیانات اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ ملک میں پوائنٹ سکورنگ کی سیاست ہو رہی ہے۔ کوئی بھی معاملات کو سدھارنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ یہ صورتِ حال ملک و قوم کے لیے کسی طور پر بھی سود مند نہیں ہے۔ آج پاکستان کو جن اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے، سنگین معاشی بحران کا چیلنج درپیش ہے، امن و امان کی صورتِ حال ناخوشگوار ہے۔ ان کا تقاضا ہے کہ بلیم گیم اور پوائنٹ سکورنگ کی سیاست سے تائب ہو کر سنجیدہ فکری کے ساتھ ملکی معاملات کو چلانے کی کوشش کی جائے۔ نہ تو اسمبلیوں کو تحلیل کرنا آسان ہے اور نہ ہی گورنر راج کا نفاذ کوئی سہل امر ہے۔ آئین کی روسے ہر دو اقدامات سے قبل معقول وجوہات اور قابلِ قبول جواز بنیادی شرط ہے۔ معقول جواز کے بغیر اسمبلیوں کو تحلیل کرنے یا گورنر راج لگانے کے عمل کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ایسا کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے آئینی اور قانونی تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔ بصورت دیگر عجلت میں اٹھائے جانے والے عمل کا نتیجہ سبکی اور ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ پاکستان پہلے ہی عدم استحکام کا شکار ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک آگے بڑھنے کے بجائے معکوس سمت میں سفر کر رہا ہے جس کا مآل انتشار، بدامنی ، انارکی اور خانہ جنگی ہی ہو سکتا ہے لہٰذا اس سنگین صورتِ حال سے بچنے اور سسٹم کی بقاء کے لیے ضروری ہے کہ افہام و تفہیم کے ساتھ اسمبلیوں کو چلنے دیا جائے۔ اگلے عام انتخابات میں اب محض آٹھ، 9 ماہ ہی باقی ہیں۔ ا س مختصر عرصہ میں ملک کسی ایڈونچر کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ بہتری اسی میں ہے کہ حکومت اور اس کی مخالف سیاسی جماعتیں یکسوئی کے ساتھ اگلے انتخابات کی تیاری کریں۔