یہ اعزاز قوم نے تحریک انصاف کے سربراہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے لئے تجویز کیا ہے کیونکہ جہاں تک ہمارے عوام کے اندازوں کا تعلق ہے تو قوم نے خان صاحب کے دل میں ایک ہی خواہش شروع دن سے موجزن دیکھی ہے اور وہ ہے صرف اور صرف وزیر اعظم بننا ،اِنہیں وزیر اعظم بننے کا شوق ہے،اس کے سوا اور کچھ نہیں۔باقی رہے امور مملکت تو یہ خان صاحب کا کبھی بھی مسئلہ نہیں رہے بلکہ ان کی سرانجام دہی کیلئے جب وہ وزیراعظم تھے تو ’’دُوسروں ‘‘کو دیکھتے رہے تھے اور خود وزارت عظمیٰ کے پروٹوکول سمیت بیرون ملک دوروں کے موقع پر سفارتی پروٹوکول سے بھی مستفید ہوکر ’’عیش کی زندگی ‘‘ بسر کر نا اپنا سیاسی حق سمجھتے تھے ۔ملکی مسائل جن میں سرفہرست مہنگائی اور قابل رحم معاشی حالات اژدھے کے طرح منہ کھولے انہیں پکارتے رہے مگر اِنہوں نے کبھی اِن کواہمیت نہیں دی ۔اِن کا جتنا بھی وقت بحیثیت وزیر اعظم بیتا وہ صرف اور صرف سیاسی مخالفین کو کچلنے میں ہی بیتا اور اسی میں وہ مشغول رہے ۔ 2013اور 2018کے عام انتخابات کی انتخابی مہمات میں نوے دن میں کرپشن کے خاتمے ،ایک کروڑ نوکریوں کی فراہمی او ر دس لاکھ مکانات کی غریبوں کیلئے تعمیر کے وعدے تو جیسے انہوں نے ہم عوام سے کئے ہی نہیں تھے ا س لئے ان وعدوں کو بھول ہی گئے ۔عوام چیخ و پکا ر کرتی رہی مہنگائی کا رونا روتی رہی مگر کیا مجال کہ خان صاحب نے کبھی اس چیخ و پکار پر کان دھرا ہویا کان دھرنے کی زحمت ہی گوارا کی ہو ۔ ہمیں بھی اچھی طرح سے یاد ہے کہ2013کے انتخابات میں خیبر پختونخواہ میں جب انہیں برتری حاصل ہوئی اور وہاں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہو گئی تو سب کے ساتھ ساتھ ہم بھی بڑے خوش تھے کہ چلیں اس کرپشن کے ناسور سے تو چھٹکارا حاصل ہوگا گر اور کچھ نہیں تو ، مگر یہ خوشی ہماری اس وقت ہوا ہو گئی جب خان صاحب کو یہ کہتے سنا کہ میں تو کرپشن وزیر اعظم بن کر ہی ختم کر سکتا ہوں کسی صوبے کا وزیراعلیٰ بھلا ملک سے کیسے کرپشن ختم کر سکتا ہے ،بات ماننے کے قابل تو نہ تھی مگر سوچا چلیں اللہ کرے وزیراعظم بن جائیں اور کرپشن ختم کر دیں ۔رب کا کرنا ہوا کہ خان صاحب وزیر اعظم بھی بن گئے بمعہ کرپشن خاتمہ کے وعدے کے ساتھ ساتھ ایک کروڑ نوکریوں اور دس لاکھ گھروں کے تعمیر کے وعدوں کے ۔ملک کے لاکھوں بے روزگاروں کو نوکریوں کی اور بے گھروں کو دس لاکھ گھروں کی امید تھی تو ہمیں ملک سے کرپشن کے خاتمے کی ۔حلف اُٹھایا ، وزارت عظمیٰ کے منصب پر جلوہ افروز ہوئے مگر انہوں نے ان وعدوں کو عملی جامہ پہنانا تو دور کی بات دھیان تک نہ دیا اور پونے چار سال کا عرصہ اس طرح گذار دیا اور ایک ہی نکتہ زیر غور دیکھائی دیا اِن کے ہاں کہ وہ کس طرح اپنی مدت اقتدار کو لمبا کھینچ سکتے ہیں جس طرح روسی صدر کھینچ رہے ہیں بلکہ یہاں تک کہ انہوں نے یہ ’’راز ‘‘روسی صدر پیوٹن سے بھی جاننے کی کوشش کی ۔اب خدا جانے روسی صدر نے انہیں یہ ’’گر ُ ‘‘ بتایا یا نہیں مگر خان صاحب روس سے واپسی پر ہر اِک کو یہ کہتے سنے گئے کہ دیکھو یار میں توروسی صدر سے بڑا متاثر ہوا ہوں کہ کہ وہ کیسے اتنے لمبے عرصے سے روس کے صدر کے عہدے پر براجماں ہیں اور کوئی انہیں اتارنے کی کوشش بھی نہیں کر رہا ۔اب سننے والے کیا جوا ب دیتے بیچارے سننے کے سوا ۔سابق وزیراعظم کی یقینا یہی باتیں اِن کے اقتدار کے خاتمے کا بھی ایک لحاظ سے بہانا بنیں کہ ملک کی نہیں اپنی خاطر یہ دورہ کیا حالانکہ اُس وقت کے عالمی حالات کے تناظر میں یہ دورہ بنتا ہی نہیں تھا مگر انِہوں نے کیا محض ایک ایسے عالمی لیڈر سے ملنے کی ذاتی خواہش کے تحت کہ وہ اُن یعنی پیوٹن سے طویل اقتدار مدت کا راز جاننا چاہتے تھے مگر شومئی قسمت کہ طویل تو کیا اپنا پانچ سالہ مینڈیٹ بھی پورا نہ کر پائے اور رخصت کر دیئے گئے بلکہ زبردستی رخصت یعنی جبری رخصت پر بھیج دیئے گئے اور وہ دن گیا یہ دن آیا کہ خان صاحب اب تک خود کو وزیراعظم ہی سمجھ رہے ہیں بلکہ آئندہ کی اپنے طور ممکنہ دو تہائی اکثریت کے حصول کے بعد صدارتی نظام کے نفاذ کی صورت میں صدر کے عہدے پر بھی خود کو براجمان محسوس کر رہے ہیں ۔از راہ تفنن جب ہم نے کالم لکھنے سے پہلے پی ٹی آئی کے ایک اعلی ٰ عیدیدار سے عمران خان کیلئے اعزازی وزیراعظم کی تجویز کا زکر کیا تو فوراً جواب دیا کہ اعزازی کیوں اُن کیساتھ تو پوری قوم کھڑی ہے وہ تو اصلی وزیر اعظم بنیں گے، تو ہم نے مذاق کو طول دیتے ہوئے کہا کہ پوری قوم ہم نے چھبیس نومبر کو مری روڈ پردیکھ لی تھی اگر یہی پوری قوم ہے تو پھر تو اعزازی وزارت عظمیٰ ہی آئے گی انکے حصے میں ۔ویسے بھی دیکھا جائے تو کم از کم ہمیں تو خان صاحب اس مری روڈ والی پوری قوم کے ہوتے ہوئے اگلے الیکشنز تو کیا کبھی بھی وزیراعظم بنتے دکھا ئی نہیں دے رہے کہ جو حال انہوں نے قوم خصوصاً ملک کے ساتھ اپنے دور اقتدار میں کیا یہ حال اب کبھی بھی اِنہیں وزیراعظم بنانے والا دکھائی نہیں دے رہا اور خان صاحب کو یہ سمجھ جان لینے کی ضرورت ہے کہ اِن کے نصیب میں ایک بار ہی وزیر اعظم بننالکھاتھا سو جس کے نتیجے میں وہ وزیراعظم بن چکے اب دوبارہ نہیں بن پائیں گے چاہے وہ لاکھ دفعہ فیس سیونگ مانتے پھریں اھل اقتدار سے ۔جہاں تک سابق وزیراعظم صاحب کیلئے ہمارے مشوروں کا تعلق ہے تو اِن کیلئے ہمارا یہی مشورہ ہے کہ وہ وزیراعظم کی بجائے اپوزیشن لیڈر بننے کا مائنڈسیٹ بنائیں اس لئے کہ بے شک وہ بحیثت وزیر اعظم کامیاب نہیں ہوسکے مگر اپوزیشن لیڈر کے طور پر وہ ضرور کامیاب ہوں گے جس کے سو فیصد چانسزہیں ۔عمران خان صاحب بہترین اپوزیشن لیڈر کے طورپر اس سے کہیں زیادہ ٹف ٹائم دے سکتے ہیںاپنے مخالفین کومگر وہ آئیں تو سہی اسمبلیوں میں اور اگر نہیں آنا اسمبلیوں میں تو پھر دوبارہ اقتدار میں وہ کیسے آسکتے ہیں اِ ن حالات میں کہ جن میں کہ’’ مری روڈ والی پوری قوم‘‘ اِ ن کے ساتھ ہو ۔