سحر انگیز موسیقی

بچپن ایک صحت مند معاشرے میں گزرا۔انتہا پسندی فرقہ بندی نفرتیں عریانی فحاشی کچھ بھی اتنا کھلم کھلا نہ تھا جیسا پاکستان میں آج ہے۔بچپن ایک خوشگوار ماحول میں گزرا۔شمشاد بیگم ، زبیدہ خانم ، نورجہاں جیسی لازوال آوازوں کے ساتھ جوان ہوئے۔بتی بال کے بنیرے اتے رکھنی آں ، گلی ب±ھل نہ جائے ماہی میرا اور ایسے کئی پرانے گیت آج بھی روح کو مسرور کرتے ہیں۔ سریلی آواز اور الحان کی تاثیر سے دل کا مسرور ہونا فطری امر ہے۔میٹھی دھیمی اور پرانی موسیقی کانوں اور دل کے لیے راحت بخش ہے۔ خاص طور پر نصرت فتح علی خان کے کلام اور عابدہ پروین کی گائیگی کے کیا کہنے۔ یہ وہ آوازیں ہیں جو اداس دلوں کو مزید اداس اور خوش کو مزید خوش کر دیتی ہیں۔ دلکش آواز روح کے تاروں کو چھیڑ دیتی ہے۔برصغیر میں موسیقی کے حوالے سے تان سین کی مشہور آواز تھی۔تان سین بہت بڑا موسیقار تھا جو مغل اعظم جلال الدین اکبر کا چہیتا تھا ایک دن جب تان سین نہایت ہی خوشگوار موڈ میں تھا تو اکبر نے اس سے پوچھا”’مجھے ذرا یہ بتاو¿ کہ آخر تمہارے ہم آہنگ سروں کے پیچھے راز کیا ہے جو میرے دماغ کومسحورکن وادی میں لے جاتاہے۔ میں نے آج تک کسی اور کو ایسا سریلا نہیں پایا“۔
تان سین مغل اعظم کے سامنے جھکا اور کہا ”عالی جاہ میں تو اپنے استاد محترم سوامی ہری داس کا ایک ادنیٰ سا شاگرد ہوں میں تو ان کی خاکِ پا کے برابر بھی نہیں۔ میرے استاد کے پاس جو فن ہے‘ جو اسلوب ہے اس کا رتی بھر بھی میرے پاس نہیں۔“ ”یہ تم کیا کہہ رہے ہو“ بادشاہ نے حیرت سے کہا”کیا اس دنیا میں تم سے زیادہ اچھا گانے والا بھی کوئی ہے۔“ تان سین نے کہا ”یقینا اپنے استاد کے سامنے میں بونا ہوں۔“ بادشاہ یہ سن بڑا حیران ہوا۔ 
اس کا دل چاہا کہ وہ ہری داس کو سنے پر مسئلہ یہ تھا کہ ہری داس بادشاہوں اور درباروں سے دور بھاگتا تھا۔ روایت میں لکھا ہے کہ اکبر اور تان سین ہری داس سے ملنے ہمالیہ کی پہاڑیوں کی طرف چل نکلے جہاں ایک آشرم میں ہری داس کا بسیرا تھا۔ تان سین نے بادشاہ کو پہلے ہی سے بتا دیا تھا کہ ہری داس کسی کے کہنے پر کبھی بھی نہیں گاتا وہ اپنی مرضی کا مالک ہے جب اس کا من کرے گا وہ راگ اور راگنیاں چھیڑ دے گا وہ کچھ دن اس کے آشرم میں رہے پر ہری داس نے سر نہ چھیڑے پھر ایک دن تان سین نے وہ راگ الاپنے شروع کردیے جو سوامی ہری داس نے اسے سکھائے تھے اور جان بوجھ کر ایک سر غلط لگادیا ۔
سوامی ہری داس جو کہ ہمہ تن گوش تھا فوراً چونک پڑا اور تان سین کو ڈانٹتے ہوئے کہنے لگا ”یہ تجھے کیا ہوگیا ہے تم جو میرے شاگرد ہو اتنی سنگین غلطی کرو“ اس کے بعد سوامی ہری داس نے وہ راگ خود چھیڑ دیا جو تان سین نے جان بوجھ کر غلط گایا تھا اور وہ اس میں اس قدر ڈوب گیا کہ اس کو دنیا و مافیہا کی کوئی خبر نہ رہی۔ 
جلال الدین اکبر کے لیے یہ منفرد نوعیت کا تجربہ تھا۔ جب ہری داس نے اپنا گانا مکمل کیا تو اکبر نے تان سین سے مخاطب ہوکر کہا” تم کہتے ہو کہ تم نے موسیقی اس درویش سے سیکھی ہے۔ واقعی اس کے گانے میں جو سحر ہے جو دلآویزی ہے وہ تمہاری موسیقی سے کئی گنا زیادہ ہے“ تان سین نے کہا ”آپ صحیح فرماتے ہیں عالی جاہ پر یہ فرق اس لیے ہے کہ میں آپ کے کہنے پر راگ چھیڑتا ہوں اور اس کے برعکس میرا استاد صرف اس وقت گاتا ہے جب اس کے اندر سے آواز آتی ہے۔ جب اس کا دل چاہتا ہے وہ کسی کے کہنے پر راگ نہیں چھیڑتا“ تان سین کا یہ جواب سن کر اکبراعظم لاجواب ہوگیا۔ 
کچھ آوازیں اس قدر درد بھری ہوتی ہیں کہ روح سے زخم رسنے لگتے ہیں۔ پنجاب لوک موسیقی میں حامد علی بیلا کی درد بھری گائیکی جب بھی سنو دل کے آر پار ہو جاتی ہے۔" مائے نی میں کِنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال "جب سنو آنسوو¿ں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔ایک آواز شمشاد بیگم کی ہے۔
اس نے کسی سے گانا نہیں سیکھا تھا لیکن سروں کی ملکہ بن گئیں۔شادی بیاہ کے موقع پر لڑکی والوں کے گھروں میں شمشاد بیگم کا گایا ہوا یہ گیت ضرور بجتا ہے۔ ’چھوڑ بابل کا گھر، موہے پی کے نگر، آج جانا پڑا 
"۔۔۔کوئی بھی زمانہ ہو کچھ آوازیں ہر زمانے میں آسودگی کا باعث ہوتی ہیں۔نور جہاں کی آواز رب کا انعام تھی۔ ان کے گائے نئے پرانے اردو پنجابی ہر گیت کمال ہے۔ غازیوں مجاہدوں کے لئے گائے ترانے آج بھی جذبوں میں نئی روح پھونک دیتے ہیں 
اے پتر ہٹاں تے نئیں وِکدے۔۔۔ کی لبھنی پھریں بازار کڑے
اے دین وے میرے داتا دی۔۔۔ نا ایویں ٹکراں مار کڑے۔۔۔
ماضی کی وہ مسحور کن آوازیں آج بھی روح کو تازگی بخش دیتی ہیں گو کہ نہ ملک کا ماحول پہلے جیسا خوشگوار ہے نہ قلب و روح کو وہ قرار میسر ہے۔

طیبہ ضیاء … مکتوب امریکہ

ای پیپر دی نیشن