(نسیم الحق زاہدی)
گذشتہ دو دہائیوں میں پاکستان نے جن بڑے چیلنجز کا سامنا کیا ان میں سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کرکے بلوچستان سمیت امن وامان کی بحالی کا تھا۔ملک میں جاری دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے کا فیصلہ سوات آپریشن کی ابتداءسے ہوااب اس ناسور کے خاتمے کا وقت قریب آنے لگا ہے دہشت گردی کے واقعات نے جہاں ملک کے تمام بڑے شہروں کو متاثر کیا،وہیں سب سے زیادہ متاثرہ صوبوں میں بلوچستان شامل تھا۔جہاں چھوٹے پیمانے پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن شروع کیے گئے جس کی بدولت آج بلوچستان میں امن بحال ہوچکا ہے۔تاہم دشمن ممالک کی فنڈنگ سے چلنے والی دہشت گرد تنظیمیں،بی ایل اے،بی ایل ایف،بی آر اے ایس اور بی این اے، صوبے کے امن وامان کو سبوتاڑ کرنے کے لیے دہشت گردانہ کاروائیوں کو انجام دے رہی ہیں۔پنجگور میں چھ معصوم بے گناہ پنجابی مزدوروں کا،گوادر میں سات پنجابی حجاموں کا، موسیٰ خیل راڑ شیم قومی شاہر اہ پر 23بے گناہ نہتے افراد کا جبکہ دکی میں کوئلے کی کان پر کام کرنے والے 21کان کنوں کے قتل کے بعدنیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی نے بلوچستان میں مکمل امن وامان کے قیام اور دہشت گرد ی کے خاتمے کے لیے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جامع آپریشن کی منظوری دیدی ہے جوکہ وقت کی عین ضرورت ہے کیونکہ اس وقت دہشت گرد تنظیمیں بیرونی دشمن طاقتوں کے ایماپر عدم تحفظ پیدا کرکے پاکستان کی معاشی ترقی متاثر کرنے کے لیے معصوم شہریوں،غیرمقامی مزدوروں اور غیر ملکیوں کو نشانہ بنارہی ہیں۔بلوچستان ہمیشہ ہر حکومت کی اولین ترجیح رہا ہے اور بلوچ عوام کے حقیقی تحفظات کو دور کرنے کے لیے ہر موقعے پر مخلصانہ کوششیں کی گئی ہیں،کوششوں کی تفصیلات سب کے علم میں ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بلوچستان کے امن واستحکام کی طرف اہم پیش رفت اگلے ایک جامع آپریشن کی منظوری کے حوالے سے منظر عام پر آئی ہے یعنی یہ واضح ہوچکا ہے کہ بلوچستان میں امن،ترقی اورخوشحالی کی راہ میں مشکلات کھڑی کرنے والے ملک دشمن عناصر سے اب آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔حالیہ مہینوں میں بلوچستان میں دہشت گردی کے حملے بڑھے ہیں،ان میں عام شہریوں،سرکاری عمارتوں، مقامی و غیر مقامی مزدوروں اور بالخصوص خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔خاص طور پر سی پیک منصوبے پر کام کرنے والے افراد پر حملے کیے جارہے ہیں،یہ حملے نہ صرف صوبے کی صورتحال کو غیر مستحکم کررہے ہیں بلکہ ملکی سطح پربھی تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔سکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب آپریشنز کیے ہیں جن میں کئی خوارج کو ہلاک کیا گیا ہے لیکن امن وامان کی کی مکمل بحالی ابھی تک ایک بڑا چیلنج ہے۔لہذا اس تناظر میں اپیکس کمیٹی کا موجودہ فیصلہ صائب ہے۔بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ اکثر حملوں کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی (BLA)نے قبول کی ہے،ماضی میں کراچی میں چینی باشندوں پر حملے میں بھی یہی تنظیم ملوث تھی،اسے عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا گیا ہے۔بلوچستان میں کالعدم تنظیمیں بلوچیت کا لبادہ اوڑھ کر تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں اور خواتین کو ریاست کے خلاف منفی پراپیگنڈا کے ذریعے گمراہ کرکے دہشت گردی کی طرف راغب کررہی ہیں۔اپنے ذاتی مفادات کی جنگ کو بلوچ یا قومی جنگ بتا کر بلوچ عوام کو ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسایا جارہاہے،بلوچ طالب علموں کے ہاتھوں سے ”قلم“چھین کر کلاشنکوفیں تھمائی جارہی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ بلوچ قوم کو گمراہ کرنے میں دہشت گردتنظیموں کی پراکسی بلوچ یک جہتی کمیٹی اور ملک دشمن ایجنٹ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا مرکزی کردار ہے جس نے دہشت گردوں کو جبری گمشدہ افرادبناکر بے بنیاد دھرنوں اور احتجاجوں میں منفی پراپیگنڈا کے ذریعے ریاستی اداروں کو بدنام کیا،خواتین اور بچوں کو ڈھال بناکر ریاست کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی،واضح رہے کہ بی وائی سی کے دھرنے اور احتجاج دہشت گردوں کے سلیکشن سنٹر ز ہیں جہاں نوجوانوں کی برین واشنگ کرکے انہیں پہاڑوں پر موجود دہشت گردی کے کیمپوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔کالعدم تنظیم بی ایل اے کو چھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہونے والے طلعت عزیز نے بتایا کہ وہ سمسٹر کی چھٹیوں میں گھر واپس آیا تو ساتھی طلبہ نے بلوچ یک جہتی کمیٹی کے دھرنے میں شامل ہونے پر قائل کیا،اس احتجاج میں میری ذہن سازی کی گئی بے گناہ لوگوں کے قتل کو ”جہاد“بتایا گیا،پہاڑوں پر ایک نئی اور خوشحال زندگی کے خواب دکھائے گئے جبکہ وہاں کے حالات اس کے برعکس تھے۔پہاڑوں پر دہشت گردانہ تربیت کے ساتھ ساتھ احساسات سے عاری کردینے والی ادویات جسے طبی ماہرین نارکوٹیرر(Narcoterror)کا نام دیتے ہیں کے، ذریعے انسانوں سے حیوان بنادیا جاتا ہے،جو اچھائی اور برائی کی تمیز کھودیتے ہیں جن کے نزدیک معصوم اور نہتے لوگوں کا قتل کرنا فرض جہاد ہوتا ہے۔ملک میں اس وقت آپریشن عزم استحکام جاری ہے،دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سیاسی وعسکری قیادت فیصلہ کرچکی ہے جو کہ نہایت خوش آئندہے۔دہشت گردی کا خاتمہ ترقی وخوشحالی کے لیے ناگزیز ہے۔19نومبر 2024ئ کو ہونے والے قومی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان میں جامع فوجی آپریشن،نیشنل کاو¿نٹر ٹیررازم اتھارٹی(نیکٹا)کو فعال کرنے،انسداد دہشت گردی پر بلاتعطل عمل درآمد یقینی بنانے،سیکورٹی منظر نامے اور امن وامان کی عمومی صورتحال کے حوالے سے اہم فیصلے کیے گئے۔سیاسی و اعلیٰ عسکری قیادت نے ملک دشمنوں کو واضح پیغام دیتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا جائے گا۔مربوط اور مضبوط آپریشن کے ذریعے پاک فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن کے دشمنوں کا تعاقب جاری رکھے گی تاکہ دیرپا استحکام اور سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے۔فورسز امن وسلامتی کے دشمنوں کو نہیں چھوڑے گی۔ان کے ناپاک عزائم خاک میں ملادئیے جائیں گے،شہدا کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دی جائیں گی۔بلوچستان میں لگاتار دہشت گردی کی وارداتوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ ان پر قابو پانے کے لیے ملک دشمن عناصر کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے ہونگے۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عسکری قیادت خوش اسلوبی سے عہدہ برآہورہی ہے اور پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔اس حوالے سے محکمہ داخلہ بلوچستان کی درخواست پر وفاقی حکومت نے صوبے میں امن وامان برقرار رکھنے کے لیے ایک سال کے لیے پاکستان آرمی کے31یونٹس اور ایف سی بلوچستان 107ونگز صوبہ بلوچستان میں تعینات کرنے کی اجازت دیدی ہے۔جوکہ 14اکتوبر 2025ئ تک صوبائی حکومت کی معاونت کے لیے موجود رہیں گے۔جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان دائمی امن کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے۔