راج دھانی سرفراز راجا
sarfrazraja11@gmail.com
نومبر چھیبیس کی رات اسلام آباد میں ڈی چوک کے قریب مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلائی گئیں۔ سیکڑوں ہلاکتیں اور ہزاروں زخمی ہوگئے پزراوں کے مجمع کو منتشر کرتے ہوئے ایک گھنٹے میں اسلام آباد خالی کرالیا گیا لیکن..ایک گھنٹے میں ان سیکڑوں لاشوں کو کہاں غائب کردیا گیا ؟ سڑک پر سے خون بھی صاف کردیا گیا ؟ ہزاروں زخمی کن ہسپتالوں میں گئے ؟ اور اتنی بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے مگر پارتی کے کسی بڑے رہنما کو تو چھوڑیں کسی چھوٹے موٹے جانے پہنچانے رہنما کو بھی خراش تک نہیں آئی ایسا کیوں اور کیسے؟ احتجاج کی لمحہ بہ لمحہ ویڈیوز بنائی گئیں لیکن یہاں ہزاروں موبائل ہونے کے باوجود ایک بھی زخمی یا شہید کی ویڈیو نہیں ملی ،سوالات تو اٹھتے ہیں اور اٹھائے بھی جارہے ہیں۔ لیکن عمران خان کی خوش قسمتی سمجھیں کہ انہیں ایسے کارکن دستیاب ہیں جن کے زہنوں میں ایسا کوئی سوال آتا ہی نہیں وہ ایسی کوئی بات سوچتے ہی نہیں اور کوئی دوسرا یہ سوال پوچھ بیٹھے تو جواب میں ہوتی ہیں گالیاں اور بددعائیں۔اصل میں یہی کارکن عمران خان کی طاقت بھی ہیں جو سوال نہیں اٹھاتے انہیں خان صاحب کی ہر بات درست اور پتھر پر لکیر لگتی ہے اور ان کے مخالف تو کچھ ٹھیک کرہی سکتا۔ حقیقی فائنل کال کے عنوان سے اپنے گزشتہ کالم میں یہ بات تحریر کی تھی کہ حکومت نے بھی عمران خان کی فائنل کال کو “فائنل کال” بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ آیک پیچ پر ہیں کہ ایسی آئے روز کی کالیں ملکی معیشت کو جو اب بڑے عرصے اور محنت کے بعد بہتری کی جانب گامزن ہورہی ہے متاثر کرتی ہیں ، ملکی سٹاک ایکسچینج جو تاریخ میں پہلے بار ننانوے پوائنٹس کی سطح عبور کرکے اگلے روز ایک لاکھ سے اوپر جانیوالی تھی اس احتجاج کی وجہ سے ایک روز میں تاریخ کی سب سے بڑی گراوٹ کا شکار ہوگئی اور ساڑھے تین ہزار پوائنٹس گر گئی۔ دراصل عمران خان کی فائنل کال مایوس میں کیا گیا اعلان تھا تیاری تھی نہ کوئی حکمت عملی اور نہ ہی ہارٹی رہنماو¿ں کی رضامندی۔ ایک بات تو واضح ہے کہ تحریک انصاف نے اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور شاید وہ سیکھیں گے بھی نہیں۔ ورنہ نو مئی کو جو ہوا اس سے باقی سب جماعتوں نے بہت کچھ سیکھا ہوگا لیکن تحریک انصاف نے کچھ نہیں سیکھا اس کا ثبوت حالیہ فائنل کال تھی۔ لوگوں کی زہن سازی کی گئی ڈو اور ڈائی۔ مارو یا کر جاو کا نعرہ لگایا، جنازے پڑھانے کی باتیں کی گئیں،کفن پہنے گئے۔ مطلب آپ کرنے کیا جارہے تھے؟ ماضی میں اور بالخصوص تحریک انصاف کے دور میں کم ہی اپوزیشن رہنما تھے جو جیلوں میں نہ ڈالے گئے ہوں۔ پاکستان ہی نہیں دنیا میں کئے بڑے رہنما جیلوں میں رہے۔ بھارت میں بہار کے مقبول ترین اور عوامی رہنما لالو پرشاد سمیت کئی مقبول رہنماو¿ں نے جیل میں سزا کاٹی، کبھی کہیں کوئی ایک مثال ہے جہاں اس طرح پارٹی کارکنوں کو لیڈر کو رہا کرانے کیلئے دارلحکومت میں مرو یا مار دو کا درس دے کر اکٹھا کیا جاتا ہو اور کیا کبھی کسی لیڈر کو ایسے رہائی مل پائی ہے۔ دراصل تحریک انصاف نے عمران خان کی اور پارٹی کی مشکلات میں ایسے اقدامات سے اضافہ کیا ہے اور اب بات پارٹی پر پابندی کی ہونے لگی ہے۔ دراصل تحریک انصاف کو فائدہ مل سکتا تھا یا مل سکتا ہے تو وہ اس حکمت عملی سے ہی ہوسکتا ہے جس سے وہ مسلسل انکاری ہیں سیاستدانوں سے مذاکرات، اور اگر انہوں نے کچھ حاصل کرنا ہے تو ان کے پاس واحد راستہ یہی ہے۔ ان کی اسمبلیوں میں اچھی خاصی نشستیں ہیں اگر وہ اسمبلیوں میں اپنا کردار موثر بناتے سیاسی جماعتوں کیساتھ مذاکرت کی میز پر بیٹھتے تو اس وقت تک بہت کچھ حاصل کر چکے ہوتے۔ ایسا ممکن نہیں کہ اس حکومت کو ہٹا کر انہیں حکومت دیدی جائے گی اور عمران خان کو جیل سے نکال کر وزیر اعظم بنادیا جائیگا۔ مینڈیٹ چوری کا اگر آج الزام پی ٹی آئی کا ہے تو یہی الزام 2018 میں موجودہ حکمران جماعتوں کا تھا لیکن وہ سسٹم کا حصہ بنے اور پھر سسٹم کے اندر رہ کر ہی تبدیلی لے کر آئے ،انہوں نے شدید ترین مخالفت کے باوجود کبھی پی ٹی آئی کیساتھ بیٹھنے اور مذاکرات سے انکار نہیں کیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ پی ٹی آئی حکومت کو دراصل چلا ہی اسٹیبلشمٹ رہی ہے یہ نہیں کہا کہ وہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات کریں گے ان کے رہنماو¿ں نے جیلیں بھی کاٹیں اور مناسب وقت کا انتظار کیا مشاورت سے حکمت عملی بنائی اور پھر اقتدار میں آگئے یہی سیاست ہے۔ اور تحریک انصاف کے پاس بھی یہی راستہ ہے لیکن حالیہ سیاسی تاریخ کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف نے کوئی سبق نہیں سیکھا لیکن ایک بات سمجھے کی ہے کءتاریخ سے جو سبق نہیں سیکھتے ان کو ملنے والا سبق خود تاریخ بن جاتا ہے