اپنی روح سے مکالمہ

شاز ملک 
جانےے کب سے میں اپنے شعور اور لا شعور کے گھنگھور
اندھیروں سے خائف ھو کر اپنی ذات ِ گم گشتہ کےکونوں کھدروں میں جھانکتی پھر رھی تھی !نہ جانے صدیوں سے کس روشنی کی جستجو میںسر گرداں ھوں:
جانے بیناءکس دِید کی حسرت میں ھے جانے گونگی سماعتیں کن لفظوںکی آھٹوں کی چاہ میں آذردہ ھیں جانے وجود کس داستانِ ھوشربا کے طلسم میں مدتوں سے قید ایک کردارایک اَن کہی کہانی کو اپنے دریدہ دل کے دامن میں چھپائے فسردہ ھے!!
پھر یوں ھوا کے آج یک لخت ایک روشنی لہر ائی اور پھر دل کے آئینے میں ایک مورت کا دھندلا سا عکس ابھرنے لگا میرا شعور آنکھیں مل َمل کر اسکو دیکھنے کی کوشش کرنے لگا اور بے چینی میرے لاشعور میں پھیل کر رگ و پے میں سرائیت کرنے لگی میری آنکھیں حیرت سے اس نقشِ قدرت پہ آ کر ٹک گئیں
میرے وجدان کی کھڑکیوں سے در آنے والی روشنیاں اسکے نقوش کا گھیراو¿ کر رھی تھیں اور میرے وجود اور ذات ایک نقطعے کی صورت میرے شعور کی آنکھوں میں سِمٹ گیا پھر میرے گونگے لفظ زبان کے ذائقے سے آشنا ھو کر جیسے حیاتِ نو پا گیا اور حیرت و اِستعجاب میںمیری پوری ذات سر تا پا ڈوب گئی کیونکہ وہ مورت تو خود میری اپنی مورت تھی میں خاکی پیراھن اوڑھے ھوئے اور وہ نوری لِبادہ اوڑھے اِک دوجے کے رو بہ رو یوں ایستادہ تھے!
آینے کے اِس پار اور اس پار بھی میں خود کو دیکھ رھی تھی,وہ مجھے دیکھکر ھولے سے مسکائی اور پھر شیریں دھن سے مخاطب ھوئی حیران کیوں ھو۔تم آئینہ ھو اور میں عکس ھوں
میں زیرِ لب بڑبڑائی میرا عکس!!وہ بولی ھاں تمہارا عکس ;میں گڑبڑائی مم مم میرا عکس کیا ایسا ھے وہ اب کہ بلند آواز میں کھنکھناتی آواز میں بولی خود آشنائی چاھتی ھو مگر رموزِ آشنائی سے ھی بے بہرہ ھو
میں نے اسکی گہری مگر روشن آنکھوں میں دیکھا اور پھرنظر پھیر لی اور سر جھکا لیا ،وہ بولی خاک کے پیرہن میں اللہ پاک نے نورانیت کی آمیزش بھی فرمایی ہے جسے روح کر دیا اور پھر اس نورانیت کو خاک میں سمو دیااور دونو کو لازم و ملزوم کر دیا ،میں زیرلب بولی ہاں ایسا ہی ہے وہ بولی کیا جستجو ہے ؟آگاہی کے در وا کرنا چاہتی ہو تو یاد رکھو آگہی کو سہنا بہت اذیت ناک ہوتا ہے لا علمی ایک نعمت ہوتی ہے اور آگہی کا سہنا عذاب ،لا علمی معافی دلوا سکتی ہے اور آگہی سزا ،میں جو اب تک اپنی گبھراہٹ پر قابو پا چکی تھی ہولے سے بولی مانتی ہوں مگر جستجو ہے اپنے اصل کی صراط مستقیم کی ، وہ بولی اپنی ذات کے بند گوشوں کو کھول کر دیکھو فہم و ادراک کی کھڑکیوں کوکھولنے کی کوشش کرو اور پھر ان سے در آنے والی روشنی کو دیکھو ،یہ روشنی کیسے ملے گی میں نے جلدی سے پوچھا
وہ بولی یہ روشنی تو ازل سے اللہ نے انسان کی تخلیق کرتے وقت شامل کر دی تھی خالق اپنی تخلیق میں محبّت کا پانی ضرور شامل کرتا ہے اللہ سے محبت انسان کی مٹی میں گھوندھی گئی ہے اگر یہ محبت خالق عبد کے خمیر میں نہ گھوندھتا تو مٹی اپنے ہونے کے احساس سے بےخبر رہتی ، اور اپنی فطرت میں نہ نوری ہوتی نہ ناری ، بس بے ذائقہ ببو بے رنگ رہتی ،
خالق اور عبد کی محبت بھی ازل سے ہے اورآبد تک رہیگی ،اسی محبت کی روشنی کی آمیزش نے اسے افضل کیا اور روح کو بھی اسی روشنی نے نورانیت بخشی ،یک لخت ایک گہرا خیال کا کالا سایا میرے ذھن کے پردے پر لہرایا اور میں جیسے ندامتوں کے گہرے پانیوں میں ڈوبنے لگی ،
تو اس نے میرے ماتھے پر پسینے کی ننھی بوندوں کو دیکھا اور پھر آگے بڑھ کر مری پیشانی پر ہاتھ پھر کر ندامت کے پانی کو میری پیشانی پر مل دیا
میں جیسے ساکت ہو گیی اور مجھے لگا کے یکدم جیسے میں ڈوب کر پھر ابھر آی ہوں، مرے احساسات پھر بیدار ہونے لگے جیسے تن مردہ میں جان سی آ گی ہو ،مہینے اپنی نیم وا آنکھوں کو کھولا تو وہ مجھے غور سے دیکھ رہی تھی ،میں لمبے لمبے سانس لینے لگی جیسے صدیوں کی مسافت ٹی کر کے آی ہوں ،خود احتسابی کا عمل بھی شاید انسان کو ایسے ہی تھکا دیتا ہو گا ،میں نے سوچا ، وہ جیسے میری سوچ کو پڑھ کے مسکرایی اور بولی
گناہ کے بعد ندامت کے سمندر میں توبہ کی کشتی پر سوار ہونے کی جگہ اور راہ مل جائے تو لمحہ بھر دیر نہیں کرنی چاہیے ،کیوں کے میرا وجود گناہ کی گرمی میں جھلسنے لگ جاتا ہے آبلہ پا تن سوختہ ہونے کا درد میرے ریشے ریشے میں اتر جاتا ہے میرے سفید نورانی لباس پر سیاہ دھبے پڈ جاتے ہیں اور میں خود کو کویلے کی کان میں دہکتا محسوس کرتی ہوں ، ٹوٹ کر بکھرنے لگتی ہوں ریزہ ریزہ ہو جاتی ہوں ،مگر جیسے ہی سچی توبہ کے آنسوویوں کا پانی تمہاری آنکھوں سے بہت ہے نا تو دہکتے انگاروں سے نکل کر بارش کی ٹھنڈی پھوار میں بیگھ جاتی ہوں اور میرے لباس نورانی پر پڑے سفید کالے دھبہے دھلنے لگتے ہیں اور میں پھر سے پاکیزہ ہونے لگتی ہوں ،یہ کہ کر وہ کس خمار میں جھوم اٹھی میں حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی ،تب وہ بولی
تمہاری پیشانی پر یہ جو سجدے کا ہلکا سا نشان ہے یہ مہرہے عشق زدہ لوگوں کی پیشانی ایسے ہی ہونی چاہیے ،کثرت ا سجدہ انکو عشق پرست بنا کر پاکیزگی کی صف میں لا کھڑا کرتے ہیں ،میں یہ سن کر جیسے ہوش میں آ جاتی ہوں اور بہتے آنسوویوں کے ساتھ زمین پر سجدہ ریز ہو جاتی ہوں مجھے کچھ خبر نہیں رہی کے سجدہ شوق مجھے عشق کے کس مقام پر لے گیا بس اتنی خبر تھی کے میری پیشانی اپنے ہونے کے احساس سے سرشار ہو کر بندگی کا حق ادا کرنے کی ادنا سی کوشش کرنے میں محو تھی ،کتنی در بعد ہوش آیا تو میں نے سر اٹھایا تو وہ ہنوز اپنی جگہ پر ایستادہ تھی مگر میں نے محسوس کیا کے اسکی نورانیت بڑھ چکی تھی میں اسے نگاہ بھر کے دیکھ نہ پآیی ، میں نے اسے پوچھا تم میں یہ تبدیلی ہے یا میرا وہم ،
وہ جگمگاتی ہنسی سے بولی تم نے کیا میں نے حیرت سے کہا میں نے مگر کیسے ؟
وو مسکرا کر بولی ابھی جو سجدے میں جو آنسو تم نے بہاے انہوں نے میرے اوپر پڑے سب داغ دھو کر مری نورانیت میں اضافہ کر دیا خدارا اسس عمل کو آخری سانس تک نہ چھوڑنا کیوں کے گناہ کا عمل انسان کی فطرت میں ہے مگر گناہ کے بعد توبہ نہ کرنا ندامت کا اظہار ناہ کرنا دل کو مردہ ، تن کو افسردہ اور روح کو پش مردہ بنا دیتا ہے ،توبہ کے بعد انسان کا دل خوش اور روح نورانی لبادہ حاصل کرتی ہے اور جو دل اللہ کی محبّت بھری روشنی کو ایک بار پا لیتا ہے وہ ہمیشہ روشنی کا اسیر بن جاتا ہے ،اور یہی روشنی توبہ کے عمل کو سہل بنا دیتی ہے تب روح کے نور کو خاکی پیرہن میں سمو دیتا ہے اور یہی عمل روح کو خاکی پیرہن چھوڑنے میں آسانی فراہم کرے گا ،تب میں تم سے ہم ہو جاینگی
یہ سجدہ ندامت ہی عبادت کا نچوڑ ہے یہ کہ کر وہ نورانیت میں تحلیل ہو کر مجھ میں سما کر تم سے ہم کے سفر کو طے کر گیی اور میں سجدے میں گر کر ہوش و حواس کی دنیا سے بےخبر ہو گئی،....................................

ای پیپر دی نیشن