برداشت اور احترام کے فروغ کی ضرورت

انجینئرڈاکٹر ذیشان نجم خان

 وطن عزیز میں سوشل میڈیا پر عدم برداشت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اور اس کی وجوہات میں متعدد عوامل کارفرما ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صارفین جب گمنامی کا سہارا لیتے ہیں تو وہ غیر ذمہ دارانہ اور نفرت انگیز باتیں کرنے میں زیادہ آزاد محسوس کرتے ہیں، جس سے اخلاقی حدود کی پاسداری ختم ہو جاتی ہے اور فرضی شناختوں کے پیچھے چھپ کر لوگ بغیر کسی خوف کے سخت اور ناپسندیدہ بیانات دیتے ہیں۔ الگورتھمز کے ذریعے صارفین کو ان کے نظریات کے عین مطابق مواد دکھایا جاتا ہے، جس سے ان کے خیالات محدود ہو جاتے ہیں، دیگر نظریات کو جانچنے کا عمل ختم ہو جاتا ہے اور وہ مخالف نظریات کے خلاف شدت پسندی اختیار کر لیتے ہیں۔ نتیجتاً جب کسی کو ان کے نقطہ نظر کے برعکس کوئی رائے ملتی ہے، تو وہ ردّعمل میں جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، غلط معلومات اور جھوٹی خبروں کا تیز پھیلاو¿ بھی عدم برداشت کو ہوا دیتا ہے۔ لوگ بغیر تحقیق کے ایسی معلومات کو آگے بڑھاتے ہیں جس سے معاشرتی تقسیم، خوف اور غصہ بڑھتا ہے۔ ملک میں میڈیا خواندگی کی کمی ایک اور بڑا مسئلہ ہے، جس کے باعث لوگ غیر مصدقہ معلومات کو درست مان کر ردعمل دیتے ہیں۔ اسی طرح سیاسی اور نظریاتی تقسیم، جو سوشل میڈیا پر گہری ہوتی جا رہی ہے، باوقار مکالمے کے راستے میں بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔ نوجوان نسل خاص طور پر جذباتی طور پر کسی ایک نظریے کے پیچھے چلنے کی عادت میں شدت پسند بن جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی اور نسلی تفریق کی بنا پر بھی لوگ آن لائن تنازعات میں پڑ جاتے ہیں۔ اکثر عوامی شخصیات بھی اپنے بیانات سے نفرت اور اشتعال کو بڑھاوا دیتے ہیں، جس سے ان کے پیروکاروں میں مخالفین کے خلاف مزید عدم برداشت پیدا ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر غلط حب الوطنی اور قوم پرستی کا فروغ بھی دشمنی کو ہوا دیتا ہے، اور اس کے نتیجے میں مخالف رائے یا خیالات رکھنے والوں کے خلاف سخت ردعمل سامنے آتا ہے۔ ان سب عوامل کے علاوہ، سوشل میڈیا پر موجود صارفین کا اکثر فرضی ناموں سے جارحانہ اور غیر مہذب رویہ اختیار کرنا، اور سوشل میڈیا پر موجود سازشی نظریات کا فروغ بھی معاشرتی انتشار اور تقسیم کو بڑھاتا ہے۔ صارفین کے غیر ذمہ دارانہ بیانات پر گرفت نہ ہونا، سوشل میڈیا کے ماحول کو مزید بگاڑ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف ثقافتوں کے بارے میں ناواقفیت اور مخصوص نظریات پر مبنی مواد کی حد بندی بھی اس عدم برداشت کو بڑھاوا دینے میں کردار ادا کرتی ہے۔ ایسے پلیٹ فارمز پر لوگ گروہی حرکات میں شامل ہو کر اپنے مخالفین کو بآسانی نشانہ بنا لیتے ہیں، اور کسی اختلاف رائے پر فوری ردّعمل کا اظہار کر کے جارحانہ رویہ اپناتے ہیں۔سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی عدم برداشت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ میڈیا خواندگی کے پروگرامز کا فروغ ضروری ہے تاکہ صارفین معلومات کی تصدیق کیے بغیر انہیں آگے نہ پھیلائیں اور اختلافی آراء کا احترام کریں۔ تعلیمی ادارے اور سول سوسائٹی کو ذمہ دارانہ سوشل میڈیا استعمال کی تربیت فراہم کرنی چاہیے، جبکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اپنے اصول و ضوابط سخت کرنے ہوں گے تاکہ نفرت انگیز مواد کی روک تھام ممکن ہو سکے۔ برداشت، ہم آہنگی، اور احترام کو فروغ دینے کے لیے عوامی سطح پر مہمات چلائی جانی چاہئیں۔ مذہبی، نسلی اور نظریاتی گروہوں کے درمیان مکالمے کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ لوگ ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھ سکیں۔ سوشل میڈیا پر مثبت کہانیوں کی ترویج امن اور سکون کی فضا قائم کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔ تعلیمی اقدامات کے ذریعے لوگوں کو معلومات کی تصدیق کا شعور دینا اور سوشل میڈیا پر منفی مواد کے خلاف اقدامات کرنا ضروری ہیں۔ مختلف طبقوں میں احترام کے فروغ کے لیے بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمے کی حوصلہ افزائی کی جائے، اور انفلوئنسرز کو مثبت پیغام رسانی پر زور دیا جائے۔ نقصان دہ آن لائن رویے روکنے کے لیے قوانین بنائے جائیں اور صارف رپورٹنگ کا نظام مضبوط کیا جائے۔ آن لائن منفی اثرات کے بارے میں آگاہی بھی اہم ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی عدم برداشت کو مو¿ثر طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی عدم برداشت ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جو معلومات کی غلطی، احترام کی کمی، اور تعصبات کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے میڈیا خواندگی کو فروغ دینا، مثبت کہانیوں کی ترویج، اور مکالمے کے مواقع پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ سوشل میڈیا پر آزادی اظہار کو احترام کے اصولوں کے تحت استعمال کرنا چاہیے، کیونکہ ہر الفاظ کا اثر ہوتا ہے، چاہے وہ آن لائن ہی کیوں نہ ہو۔ سوشل میڈیا کا استعمال ذمہ داری کے ساتھ کرنا چاہیے، کیونکہ ایک مثبت لفظ بھی امن کا پیغام بن سکتا ہے، اور ایک منفی لفظ اختلاف کو نفرت میں بدل سکتا ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا پر سوچ سمجھ کر لکھنا چاہیے، کیونکہ ایک چھوٹا سا پیغام بھی دلوں کو جیت سکتا ہے یا دوریاں پیدا کر سکتا ہے۔ سوشل میڈیا ایک طاقتور ہتھیار ہے، اس کا درست استعمال ہمیں جوڑ سکتا ہے اور غلط استعمال ہمیں توڑ سکتا ہے۔ لہذا، انتخاب ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اختلاف رائے فطری ہے، لیکن برداشت اور احترام انسانیت کا اصل حسن ہے۔ برداشت، احترام اور ہمدردی کے ساتھ ہی ہم سوشل میڈیا کو ایک تعمیری قوت بنا سکتے ہیں جو دلوں کو جوڑتی ہے۔ لہذا، یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خیالات کا احترام کریں، مثبت سوچ، تحمل اور برداشت کے ساتھ بات کریں تاکہ ہم ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھ سکیں۔( صاحب مضمون پاکستان انقلابی پارٹی کے مرکزی رہنماءہیں )

ای پیپر دی نیشن