منگل‘ 1446ھ ‘ 3 دسمبر 2024

مفرور مراد سعید وزیراعلیٰ ہاﺅس میں چھپا ہے‘ تو پکڑ لیں ترجمان گورنمنٹ کے پی کے۔
شکر ہے‘ خیبر پی کے کے باغ سے اڑنے والے طوطی شیریں مقال ،400 ارب روپے قرضہ سو دن میں اٹھا کر آئی ایم ایف کے منہ پر مارنے کا دعویٰ کرنے والا کپتان کا فیورٹ کھلاڑی طویل عرصے بعد نظر آنے کی اطلاع ملی۔ حکومتی ذرائع کہتے ہیں کہ اسلام آباد پر دھاوےمیں پندرہ سو تربیت یافتہ افراد کے ساتھ پشاور آیا تھا جس پر پی ٹی آئی والوں نے اپنے مجاہد کی آمد کاجشن منایا تھا۔ اسلام آباد سے فرار کے بعد موصوف، وزیراعلیٰ ہاﺅس میں براجمان ہے۔ مگر وفاقی حکومت بوجوہ چھاپہ مار کر پکڑ نہیں رہی۔ وجہ یہی ہو گی کہ پشاور میں ایسا کرنے والوں کو نئے فسادکا سامنا کرنا پڑیگا۔ یوں اسلام آباد سے بھاگنے والا یہ جری کھلاڑی شاید ایک بار پھر کسی اور جگہ روپوش ہونے میں کامیاب ہو جائیگا اور حکومت ہاتھ ملتی رہ جائیگی۔ پہلے اطلاع تھی کہ وہ افغانستان میں کسی کی پناہ میں رہ رہے ہیں‘ اب تو خیبر پی کے میں انہیں بے شمار سرکاری غیرسرکاری پناہ گاہیں میسر ہیں جہاں وہ آسانی سے چھپ سکتے ہیں۔ یہ وہ کھلاڑی ہیں جو کپتان کا پسینہ گرنے کی جگہ اپنا لہو بہانے کے دعوے کیا کرتے تھے۔
 مگر بشریٰ بی بی اور علی امین کے فرار ہونے کے بعد یہ بھی وہاں سے چپکے سے کھسکنے میں کامیاب رہے۔ لگتا ہے انہیں اس کام میں مہارت حاصل ہے جس طرح سکول کے بچوں کو سکول سے بھاگنے میں مہارت ہوتی ہے۔ ان بہادر کھلاڑیوں کو چاہیے تھا کہ وہ حکومت سے کہیں کہ ہمیں بھی بانی کے ساتھ جیل میں بند کرو‘ مگر بقول شاعر:
کیا کرتے تھے باتیں زندگی بھر ساتھ دینے کی
مگر یہ حوصلہ ہم میں جدا ہونے سے پہلے تھا
سچ ہے تخت ہو یا تختہ‘ ایک ہی آدمی کا بوجھ برداشت کرتا ہے۔ کسی کی خاطر کوئی جان نہیں دیتا۔
امریکہ آج بھی تارکین وطن کیلئے دلپسند جگہ ہے۔ سروے رپورٹ۔
صرف تیسری دنیا ہی نہیں‘ عرب و عجم ایشیاءافریقہ سے لے کر روس اور چین تک جہاں بھی جو بہتر مستقبل کا خواب دیکھتا ہے ان میں سب سے زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو امریکہ جا کر اپنی دنیا بسانا چاہتے ہیں۔ ساری دنیا میں تارکین وطن کے خیالوں میں جو جنت بسی ہوئی ہے‘ وہ امریکہ ہے۔ جسے دیکھو‘ امریکہ جانے کے چکر میں ہے۔ کوئی گھر بیچ رہا ہے‘ کوئی زمین‘ کوئی زیور .... چلو چلو امریکہ چلو کی ریس لگی ہوئی ہے۔ یہ بھی کوئی نہیں دیکھ رہا کہ اب وہ جنت تارکین وطن کیلئے جہنم بن رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نہایت شدت سے امریکہ کو تارکین وطن کے بوجھ سے آزاد کرنا چاہتے ہیں۔ انکی آنے والی حکومت اور امریکی خود بھی یہی چاہتے ہیں تاکہ اپنے ملک کے وسائل پر دوسروں کا قبضہ نہ ہو۔ وہاں کے عوام کو وہاں روزگار ملے‘ صحت و تعلیم کی سہولیات مفت ہوں‘ عام امریکی بھی چھوٹی موٹی ملازمت کیلئے پریشان نہ ہو ورنہ یہ سب کام عام طور پر تارکین اچک لیتے ہیں اور کام چور سستی کے مارے امریکی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح اعلیٰ پوسٹوں پر بھی تارکین موجود ہیں جو اب امریکی برداشت نہیں کر پاتے۔ اب سب سے زیادہ تارکین وطن وہ ہیں جو غیرقانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوئے ہیں۔ یہی سب سے پہلے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کا نشانہ بنیں گے اور انہیں اٹھا کر سمندر برد تو نہیں کیا جائیگا البتہ انکے ممالک ضرور واپس بھیجا جائیگا‘ چاہے کتنی زبردستی کیوں نہ کرنی پڑے ورنہ انہیں طویل سزا اور بھاری جرمانہ عائد ہوگا یعنی ان پر زندگی سخت ہو جائیگی۔ اب صرف قانونی طریقے سے .... آنے والوں کو امریکہ ویلکم کریگا۔ باقی سب کو بائے بائے۔ اس پر غالب کا شعر یاد آتا ہے۔
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یارب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
اب لگتا ہے امریکہ میں یہی ہونے والا ہے۔ وہاں جانے والے اب جنت و دوزخ دونوں کا وہاں نظارہ کرینگے۔
انٹرنیٹ میں خلل‘ سست رفتاری سے صارفین پریشان۔
وزیر مملکت اسکے باوجود یہی اصرار کر رہی ہیں کہ انٹرنیٹ چل رہا ہے‘ وٹس ایپ‘ فیس بک اور انسٹاگرام چل رہا ہے‘صرف ایکس بند ہے ۔ بلاوجہ شور مچایا جا رہا ہے۔ حقیقت اسکے برعکس ہے۔ ملک بھر میں اس وقت انٹرنیٹ کی سست رفتاری سے اس پر کام کرنے والے صارفین‘ ملازمین‘ طالب علموں کے علاوہ تجارتی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ حکومت کا اصرار ہے کہ صرف ایکس پر پابندی لگائی ہے جو ملک بھر میں صرف دو فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں۔ حکومت کے مخالفین سوشل میڈیا پر پابندی کے حوالے سے خاصے جز بز ہیں‘ وہ سمجھ رہے ہیں کہ حکومت اس طرح مخالفین کی آواز دبا رہی ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں کوئی بھی شخص یا ادارہ انٹرنیٹ‘ وائی فائی اور تو اور موبائل ڈیٹا کے بغیر یوں بے چین ہو جاتا ہے گویا اسکی کوئی قیمتی متاع حیات چھن گئی ہو۔ اسکی جدائی تو بڑے دور کی بات ہے‘ اسکی سست روی سے ہی انکی جان نکلتی ہے۔ اس جدید دور میں ویسے بھی تمام کاروبار حیات اور تعلیمی و تجارتی سرگرمیاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مرہون منت ہو رہی ہیں۔ ان کے بغیر کام بہت مشکل ہوجاتا ہے۔اسکی راہ میں رکاوٹ یا خلل کا مطلب بہت زیادہ نقصان ہے‘ وجہ چاہے وی پی این ہو یا کوئی اور‘ حکومت اس طرف ضرور توجہ دے اور انٹرنیٹ کی رفتار بحال کرے۔ ان پابندیوں کو اظہار رائے پر پابندی بھی کہا جا رہا ہے۔
کچے کے ڈاکوﺅں نے سرکاری عمارتوں میں پناہ گاہیں بنالیں۔
کچے کے ڈاکو تو بہت پکے نکلے‘ دیکھ لیں‘ سندھ پنجاب کی پولیس‘ رینجرز اور بگتی اور دیگر قبائلی لشکروں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ لونڈ گینگ کے بعد تیخو گینگ کے خاتمہ کے باوجود دور دور تک انکے خفیہ ٹھکانے ابھی تک فعال ہیں۔ جہاں انہیں ہر طرح کی سہولت دستیاب ہے۔ ایک بڑی عجیب بات یہ ہے کہ یہ ڈاکو کچے کے علاقے سے لے کر شکارپور اور لاڑکانہ تک سرکاری عمارتوں میں قلعہ بند ہو کر دور سے نظر آنے والے سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے ہیں۔ اغواءکی وارداتیں بتا رہی ہیں کہ یہ کاروبار ابھی جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے سے اب تک مزید کئی افراد مغوی بنائے گئے ہیں۔ کئی کو تاوان لے کر چھوڑا گیا ہے۔ باقی سب کی بات چھوڑیں مگر یہ جو لاڑکانہ میں بھی کچا نہیں پکا حکومتی علاقہ ہے۔ صوبائی اور وفاقی سطح کی اعلیٰ شخصیات یہاں سے تعلق رکھتی ہیں‘ اسکے باوجود یہ سب مل کر بھی یہاں موجود ان کچے کے ڈاکوﺅں کا خاتمہ کرنے میں ناکام کیوں نظر آتے ہیں۔ نجانے کتنے لاشاری‘ چانڈیو‘ بھوگیو‘ وغیرہ وغیرہ ڈاکوﺅں کے گینگ وہاں خودرو جڑی بوٹیوں کی طرح اگتے ہیں۔ اب یا تو یہاں کارپٹ بمباری کرکے یا ڈور ٹو ڈور تلاشی کا سلسلہ شروع کرکے ان موذی سانپوں سے نجات پائی جا سکتی ہے ورنہ حکومت یا پولیس کی طرف سے ان کو باربار ہتھیار ڈالنے اور گرفتاری دینے کی اپیلوں کے باوجود کوئی ان پر کان نہیں دھرتا۔ جب بااثر لوگ خود سانپوں کو پالنے کے شوقین ہوں‘ انکی حفاظت بھی کرتے ہوں تو پھر کون ان کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اندرون سندھ‘ مختلف محکموں کے خالی دفاتر اور ریسٹ ہاﺅسز انکی پسندیدہ جگہیں قرار پاتی ہیں۔ جس میں بیٹھ کر یہ اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن