ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں


شر لاک ہومز سرآرتھر کونن ڈائل کا لازوال کردار ہے۔ اس کی ایک کہانی اسطرح ہے کہ اس کا ایک پریشان حال دوست اسے اپنی بپتا سناتا ہے کہ اصطبل میں آگ لگنے کے باعث اس کا سب سے پیارا اور قیمتی گھوڑا بھاگ نکلا ہے اور ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہا۔ شرلاک ہومز اپنے دوست کو لئے اصطبل میں آتا ہے اور فرمائش کرتا ہے کہ اصطبل کے ان حصوں کو اسی طرح آگ لگائی جائے جس طرح اتفاقاً لگی تھی چنانچہ ایسا ہی کیا جاتا ہے شرلاک ہومز تھوڑی دیر سوچتا ہے اور پھر ایک سمت بھاگ جاتا ہے چند گھنٹوں بعد دوبارہ نمودار ہوتا ہے تو گھوڑا اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ دوست خوش ہوتے ہوئے استفسار کرتا ہے کہ ”تم بھاگے کیوں تھے اور گھوڑے کو کیسے تلاش کر لیا“۔ اس پر شرلاک ہومز بتاتا ہے کہ اصطبل کو دوبارہ آگ لگوا کر اس نے سوچا کہ اگر وہ گھوڑا ہوتا تو کس سمت بھاگتا چنانچہ وہ بھاگا اور بہت دور جاکر گھوڑا گھاس چرتا ہوا مل گیا۔ 
وطن عزیز پر وہی نازک وقت پوری ”آب و تاب“ کے ساتھ جاری ہے جو ”درد کے سلسلے“ کی طرح کبھی ٹوٹا یا ختم ہی نہیں ہوا بلکہ اس کی شدت میں کمی یا زیادتی ہوتی رہی ہے۔ آجکل بھی اس کی شدت ”عجب نازک دور کی غضب کہانی“ کی طرح بہت بڑھی ہوئی ہے۔ بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں کا بار عظیم عوام کی کمر پر لد چکا ہے اور مزید ”کرم فرمائی“ کے آثار ہیں۔ دو وقت کی روٹی تو ایک طرف سانس لینا بھی دشوار ہے لیکن نازک وقت ہے کہ اس کے تقاضے کسی ظالم ساہوکار کی طرح بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
 ایسا نہیں کہ ”نازک وقت“ کے بوجھ تلے دبے عام آدمی کا کوئی ذکر اذکار نہیں ہو رہا۔ اشرافیہ کے ”نوحے“ بغیر کسی وقفہ کے جاری ہیں کہ ”ہمیں علم ہے کہ عام آدمی کیلئے معاملات بہت مشکل ہیں‘ اور عام آدمی کو بچانے کیلئے یہ کریں گے وہ کرینگے“ وغیرہ وغیرہ 
جس طرح کنارے پہ کھڑے ہوکر دریا کی گہرائی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اور گھوڑا بنے بغیر گھوڑا تلاش نہیں کیا جا سکتا اسی طرح غربت کی زندگی میں اترے اور اس سے اپنے آپ کو خوب لتھڑے بغیر عام آدمی کے مسائل کا درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا بھلا روٹی کمانے، بل ادا کرنے، بچوں کو پڑھانے ، علاج معالجے اور انصاف کیلئے ٹھوکریں کھانے کے درد و غم جمع کئے بغیر زندگی کی تکلیفوں بھرا دیوان کیسے جمع کیا جا سکتا ہے۔ 
فیض رمز شناس تھے اسی لئے انہوں نے ”محبوب“ کی باتیں کرنے کیلئے کسی ”ایرے غیرے“ کی بجائے ”محترم رقیب“ کو ہی مل بیٹھنے کی دعوت دیدی کہ اس سے زیادہ محبوب سے کون آشنا ہو سکتا ہے۔ 
ہماری اشرافیہ بھی اطلس و کمخواب میں بنوائے ہوئے کنارے پر کھڑے ہوکر بے پناہ وسائل، بجلی، گیس، پٹرول، محلات اور گاڑیوں کی ”مفت ضیافتوں“ سے فیض یاب ہوکر غریب کے دریا کی شکستگی کا اندازہ کیسے لگا سکتی ہے کیونکہ ”موج تو دریا میں ہوتی ہے“ بیرون دریا تو چائے پیسٹری اور انواع و اقسام کے کھانوں کی میز پر صرف اس کی باتیں کی جا سکتی ہیں یا زیادہ سے زیادہ اس کی یاد میں ”تعزیتی ریفرنس“ منعقد کئے جا سکتے ہیں اور پیسہ کھیل ختم ہونے سے پہلے ہی ہضم ہو جاتا ہے۔
ہماری یاد داشت بہت کمزور ہے اور ہمارے ”نجات دہندہ“ اس کا فائدہ بھی بہت اٹھاتے ہیں ہم سمجھ بیٹھے ہیں کہ جارج آر ویل کے ناول ”اینیمل فارم“ والے مسیحاو¿ں کی طرح ہمارے ”کرم فرماو¿ں“ کا نقش قدم بھی یونہی تھا اور ہم اسے کسی اور طرح سمجھ بیٹھے تھے۔ ذہن کے دروازے پر دستک دیتا یہ لطیفہ پھر ملاحظہ فرمائیں اور یاد داشت تازہ کریں کہ موقع بھی ہے اور دستور بھی .... جی وہی لطیفہ جب ایک بہت امیروں کے سکول میں بچوں کو غربت پر مضمون لکھنے کیلئے کہا گیا تو ایک امیر ترین بچے نے ایک انتہائی غریب خاندان کی رو داد اس طرح لکھی تھی کہ وہ اس قدر غریب تھے کہ ان کے ڈرائیور کے پاس اپنی گاڑی میں پٹرول ڈلوانے کے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے اور ان کا خانساماں اپنے ملازموں کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھلا پاتا تھا۔ لیکن ایسی تحریر میں بچے کا کیا قصور؟ سونے کے تار سے بنائے ہوئے تختوں پر بیٹھ کر غربت کے اوپر ایسا ہی مضمون تو لکھا جا سکتا ہے۔ پھر بھلا کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ من کی نگری کی طرح دریا کی گہرائی میں ڈوب کر ”سراغ غربت“ پاتا پھرے ایسا تو تب ہو سکتا ہے جب غریبوں کی یادداشت مضبوط ہو اور اسے ”باداموں“ کی بجائے ”ٹھوکروں“ سے بہتر بنایا گیا ہو۔
فرانسیسی ادیب موپساں کے افسانے ”آوارہ گرد“ (A Vagabond) کو بھی یاد کر لیتےہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس کے کردار ”رینڈل “ کو دو وقت کی روٹی کیلئے کتنے دروازوں پر ”آنکھوں سے“ دستک دیکر ٹھوکریں کھانا پڑی تھیں اور اس کی سب سے بڑی خواہش روٹی بن کر رہ گئی تھی جو 20 برس قید کی سزا کی صورت میں اس طرح پوری ہوئی کہ وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے سرکاری کھانا کھاکر اسی طرح ہنسی خوشی رہنے لگا جس طرح امیروں کی کہانیوں کے اختتام پر بادشاہوں اور اشرافیہ کی اولادیں رہنے لگتی ہیں۔
احسان دانش نے کیا خوب کہا ہے.... 
آجاو¿ گے حالات کی زد پر جو کسی روز 
ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے
اتنی سی تو بات ہے اشرافیہ دو چار روز کیلئے ہی سہی ”مال مفت“ چھوڑ کر عوام میں آ بسے تو اسے تو معلوم ہو جائے گا کہ شاندار اور مہنگے ڈرائینگ روموں میں بیٹھ کر مفت مشورے دینے جتنے آسان ہیں مشکلات کے دریا کی گہرائی ماپنا اتنا ہی مشکل ہے۔ پھر اسے معلوم پڑے گا کہ سب کے ”دلوں میں ہزاروں خواہشیں“ ایسی ہوتی ہیں جن پر دم نکلتا ہے، لیکن اگر پیٹ کا دوزخ ہی خالی ہو تو ہر خواہش نذیر اکبر آبادی کی ”دو روٹیاں“ بن کر آنکھوں کے سامنے ناچنے لگتی ہے۔ سردیوں میں گرم کمبلوں اور گرمیوں میں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر اپنے گرد انواع و اقسام کے کھانوں کے میز سجا کر منٹو کے افسانے ”ٹھنڈا گوشت“ اور ”کھول دو“ ادب کا اعلیٰ ترین نمونہ معلوم ہوتے ہیں لیکن اگر خود ”ٹھنڈا گوشت“ اور ”کھول دو“ کے مرحلے سے گزرنا پڑے تو ہی آٹے دال کا بھاو¿ معلوم ہوتا ہے اور وہ بھی صرف بھاو¿۔ خریدنے کا مرحلہ باقی رہ جاتا ہے۔ 
مولانا روم نے سچ کہا ہے کہ دنیا کی سب سے قابل نفرت موسیقی امیر کی پلیٹوں سے نمودار ہونے والی آواز ہے جو ہر بھوکے اور لاچار تک پہنچتی ہے۔
اشرافیہ کبھی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر ”بے قافلہ“ ہوکر پیدل گھومے تو سہی، پھر پتہ چلے گا کہ روزانہ کس پاو¿ں کے حصے میں کتنے آبلے آتے ہیں۔ کبھی گرد سے اٹی بے خواب گلیوں کے مکین تو بنیں آلودگی اور ائر کوالٹی انڈیکس کا اصل حساب ہو جائیگا۔ پیٹ پر پتھر باندھ کر دو قدم چلیں تو علم ہو جائے گا کہ بھوکے بچوں کے ساتھ یہ انتہائی اذیت ناک ”مسافت“ دوزخ کی پگڈنڈی کا سفر بن جاتی ہے۔اگر اشرافیہ یہ سب کچھ نہیں کر سکتی تو ہمدردیوں کی سیاست کے دو بول بھی اپنے پاس رکھے کہ بقول میر تقی میر ایسے ”دو چار آنسو تو اور آگ لگا جاتے ہیں“۔ 
 معاشرے دوہرے معیار سے زندہ نہیں رہ سکتے، انصاف نہیں ، وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ، لیول پلے فیلڈ نہیں تو لوریاں، ترانے اور نغمے خوشگوار موسیقی نہیں اندوہناک ”مرثیے“ بن جاتے ہیں جو مردہ تنوں میں جان نہیں ڈال سکتے۔
بھوک سر چڑھ کر رقص کر رہی ہو تو ہر جگہ ایک بھدا بے رنگا موسم ٹھہر جاتا ہے اور وہ مستقل اداسی کا موسم ہوتا ہے۔ فیض نے کیا خوب منظر کشی کی ہے.... 
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں 
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں 

ای پیپر دی نیشن