محمد صلاح الدین شہید


 جناب محمد صلاح الدین ایک ایسے صحافی، ایڈیٹر اور دانش ور تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے غور و فکر اور سوچ بچار کی صلاحیتوں سے بدرجہ اتم نوازا تھا، مولانا سید ابو الاعلی مودودی ان کی بہت قدر کرتے تھے، جیل سے رہائی کے بعد جناب محمد صلاح الدین کی جیل میں لکھی گئی کتاب ” بنیادی حقوق “شائع ہوئی تو ان کی خواہش تھی کہ اس کی تقریب رونمائی میں مولانا مودودی شریک ہوں، ان دنوں مولانا کی صحت اچھی نہیں تھی اور لاہور سے کراچی جانا مولانا کے لئے ممکن نہ تھا اس لئے مولانا نے صلاح الدین صاحب سے کہا کہ آپ یہ تقریب میرے گھر کے لان میں منعقد کرلیں، اس طرح مجھے تقریب میں شرکت کا موقع مل جائے گا۔ مولانا مودودی کی خواہش پر بنیادی حقوق کی تعارفی تقریب ذیلدار پارک اچھرہ میں مولانا مودودی کی رہائش گاہ کے لان میں منعقد ہوئی۔ جماعت اسلامی کا مرکزی دفتر بھی اسی عمارت میں تھا اور مولانا کی آخری آرام گاہ بھی اسی کوٹھی کے لان میں ہے۔
 جناب محمد صلاح الدین ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک انسان تھے ، انہوں نے جہاں صحافت کے میدان میں اپنی جرات و جسارت کا لوہا منوایا وہاں عالم اسلام اور امت مسلمہ کے مستقبل کی فکر میں مبتلا ایک دانش ور اور فلسفی کا مقام بھی حاصل کیا۔ جسارت سے الگ ہو کر جب انہوں نے سات روزہ ”تکبیر“ نکالا تو اس کے نام کی نسبت سے ہمیشہ نعرہ تکبیر اور کلمہ حق بلند کرتے رہے۔” تکبیر“ نے ان کی ادارت کے دور میں کئی صحافتی معرکے انجام دیئے اور کئی چونکا دینے والی رپورٹیں شائع کیں۔ جب سعودی عرب کے ایک معروف دار الاشاعت نے پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے اردو پڑھنے والوں کے لئے ”اردو نیوز“ کے نام سے ایک اردو اخبار شائع کرنے کا منصوبہ بنایا تو اس کے لئے پاکستان سے ادارتی اور انتظامی عملہ کے ارکان کے انتخاب کا کام جناب محمد صلاح الدین کو سونپا گیا ، انہوں نے یہ ذمہ داری بہت عمدہ طریقہ سے ادا کی ، اہلیت و صلاحیت کی میزان اور معیار پر خوب پرکھ کر ایسے لوگوں کو سعودی عرب بھجوایا جنہوں نے ”اردو نیوز“ کو ایک اچھا اخبار بنایا اور پاکستان کا نام بھی روشن کیا اور خود ان صحافیوں اور کارکنوں کے مالی حالات بھی خاصے بہتر ہوئے۔ ہر پہلو سے جناب محمد صلاح الدین نے اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن انجام دیں ، اس کام کی نگرانی کے لئے وہ خود بھی کئی سال تک ایام حج میں جدّہ جاتے رہے تاکہ حج کے موسم میں ”اردو نیوز“ کو زیادہ سے زیادہ مستند اور جامع انداز میں شائع کیا جاسکے۔
 مجھے آل پاکستان نیوز پیپرز سو سائٹی(اے پی این ایس ) اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے اجلاسوں میں طویل عرصہ تک جناب محمد صلاح الدین کے ساتھ شرکت کا موقع ملتا رہا ، ان اجلاسوں میں جناب محمد صلاح الدین بحث و مباحثہ کے دوران جو نکات اٹھاتے تھے اور جو لائحہ عمل تجویز کرتے تھے عام طور پر اسے بہت وزن دیا جاتا تھا اور ان کی گفتگو بہت توجہ اور انہماک سے سنی جاتی تھی ، وہ بہت اچھی گفتگو کرتے تھے۔ ان کے روشن دماغ ہونے کی بہت سی مثالیں اور واقعات ذہن میں آتے ہیں مگر طوالت کے خوف سے ان کا ذکر نہیں کررہا۔
انہوں نے جب سات روزہ ” تکبیر“ نکالا تو اپنے اشاعتی ادارہ کا نام ” ادارہ مطبوعات تکبیر“ رکھا جس کے تینوں حروف کا پہلا لفظ ملا کر لفظ ”امت “ بنتا تھا۔” وہ ”امت“ کے نام سے ہی ایک روزانہ اخبار نکالنے کا منصوبہ بنا رہے تھے جو ان کی شہادت کے المیہ کے باعث ان کی زندگی میں منظر عام پر نہ آسکا اور ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کے داماد جناب رفیق افغان نے ان کے ادھورے خواب میں حقیقت کا رنگ بھر ا اور”امت “ کو جناب محمد صلاح الدین کے صحافتی و اخلاقی احوال کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کا ایک باوقار اور موقر روزانہ اخبار بنایا جو ان دنوں پاکستان کی قومی صحافت میں اپنا کردار بہت موثر طریقہ سے ادا کررہا ہے۔
 جناب محمد صلاح الدین شہید، ذہنی طورپر جنرل محمد ضیاءالحق کے قریب سمجھے جاتے تھے کیونکہ انہوں نے ملک اور قوم کو جناب ذوالفقار علی بھٹو کی سول آمریت سے نجات دلائی تھی جس کے خلاف انہوں نے بڑی بے باکی اور دلیری سے جدوجہد کی تھی مگر جب انہی جنرل محمد ضیاءالحق نے اخبارات پر سنسر کی پابندی لگائی اور اخبارات سے کہا گیا کہ وہ اپنی کاپیاں مکمل اور تیار ہونے کے بعد محکمہ اطلاعات کے ان افسروں کے پاس پیش کریں جنہیں کوئی بھی مواد شائع کرنے سے روکنے اور اس کی جگہ متبادل مواد کاپی میں شامل کرنے کا اختیار دیا گیا تھا تو انہوں نے جنرل محمد ضیاءالحق کے طلب کردہ ایڈیٹروں کے ایک اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا اور انہیں یہ خط لکھا کر بھیجا کہ آپ نے مجھے ایڈیٹر کی حیثیت سے اجلاس میں بلایا ہے جبکہ میں ان دنوں آپ کی عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے جسارت کے ایڈیٹر کے فرائض ادا نہیں کرپا رہا اس لئے آپ میری بجائے سنسر پر مامور اس افسر کو مدعو کریں جسے میرے اخبار کے مواد میں ردو بدل کا اختیار دیا گیا ہے اور جو عملی طوپر ”سپر ایڈیٹر“ بنا ہوا ہے۔ اس اقدام کی وجہ سے جنرل محمد ضیاء الحق کے ساتھ ان کے تعلقات کا فی عرصہ کشیدہ رہے۔
 8 مئی1983ءکو کراچی میں سی پی این ای کے زیر اہتمام ایک تاریخی قائد اعظم پریس کنونشن منعقد ہوا جس سے اس وقت کے صد جنرل محمد ضیاءالحق نے خطاب کیا ، لیکن اس سے ایک روز قبل 7 مئی کو میریٹ ہوٹل کراچی میں سی پی این ای کی سٹینڈنگ کمیٹی کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت سی پی این ای کے صدر جناب انقلاب ماتری کررہے تھے ، جناب مجیب الرحمن شامی اس وقت سی پی این ای کے سیکرٹری جنرل تھے، میں نے تحریری طورپر اپنے دوست مدیر”آغاز“ انور فاروقی کے تائیدی دستخطوں سے یہ تجویز پیش کی کہ سی پی این ای کے تمام ارکان جو اس وقت قائد اعظم پریس کنونشن میں شرکت کے لئے ملک بھر سے کراچی آئے ہوئے ہیں کل صبح بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضر ہوں اور روحِ قائد کو گواہ بنا کر ایک عہد کریں اور اس عہد نامہ پر حلف اٹھائیں کہ وہ پاکستان کے نظریاتی کردار کی حفاظت کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے ، میں نے اپنی تجاویز میں اس عہد کے لئے جو چند نکات تجویز کئے تھے اجلاس نے جناب محمد صلاح الدین کو اس کی نوک پلک سنوار نے اور اس میں اصلاح و اضافہ کا اختیار دیا ، جناب محمد صلاح الدین اور راقم نے کمرہ اجلاس کے ایک گوشے میں بیٹھ کر تجدیدِ عہد کے مسودہ کو آخری شکل دی اور اگلے روز گیارہ بجے مزارِ قائد پر حاضر ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔ جناب انور فاروقی اور میں مزار پر چڑھانے کے لئے چادر لے کر اس تقریب میں شریک ہوئے ، عہد نامہ پڑھنے اور حلف لینے کی سعادت جناب محمد صلاح الدین کے حصے میں آئی۔ ملک بھر سے قائد اعظم پریس کنونشن کے موقع پر آئے ہوئے مدیرانِ اخبارات و جرائد نے مزار قائد اعظم پر فاتحہ خوانی کی اور پھول چڑھائے۔ فاتحہ خوانی کے بعد مدیر ان جرائد نے ایک عہد کی تجدید کی۔ جناب محمد صلاح الدین نے اس عہد کو بہ آواز بلند پڑھا جس کا متن حسب ذیل ہے۔
قائد اعظم پریس کنونشن کے تاریخی موقع پر آج 8 مئی 1983ءکو مزارِ قائد پر فاتحہ خوانی کے لئے حاضر ہونے والے مدیران جرائد قائد کے حضور اللہ تعالیٰ سے اپنے عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ :
1۔ ہم مسلمان صحافی کی حیثیت سے نیکی کو پھیلانے اور برائی کو مٹانے کا فریضہ پوری دیانت داری ،جرات مندی اور خدا اور خلقِ خدا کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ انجام دیں گے۔
2۔ ہم پاکستان کی حفاظت ، سلامتی، ترقی و بقائ اور اس کے نظریاتی کردار کے تحفظ کے لئے اپنی ذمہ داریاں پوری فرض شناسی سے انجام دیں گے اور اس راہ میں ہر ممکن قربانی دیں گے۔
3۔ ہم آزادی اظہار کے اس بنیادی حق کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے جو ہمیں اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ اس حق کو پامال یا سلب کرنے والی قوتوں کے خلاف ہماری مزاحمت ایمان کے ایک تقاضے کے طورپر مسلسل جاری رہے گی۔
4۔ ہم پاکستان کو معمار پاکستان حضرت قائد اعظم کے نظریات و افکار کے مطابق ڈھالنے کی ہر ممکن کوشش میں بھر پور تعاون کریں گے اور اس کے منافی کوششوں اور سر گرمیوں کی ہر قدم پر مزاحمت کریں گے۔خدا ہمیں اپنے عہدکو پورا کرنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے۔
 آج جناب محمد صلاح الدین کی یادیں تازہ کرتے ہوئے اس امر کی شہادت دینا چاہتا ہوں کہ جناب محمد صلاح الدین شہید نے عمر بھر اس عہد کی پاس داری کی ، اس کے ایک ایک لفظ پر اس کی روح اور معانی کو پیش نظر رکھ کر عمل کیا اور ہر ممکن قربانی کا عہد پورا کرتے ہوئے اپنی جان اس فکر ، فلسفہ اور نظریہ کی خاطر قربان کردی جو پوری زندگی انہیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رہا۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن